spot_img

ذات صلة

جمع

جے ایم ایف نے این سی ای آر ٹی کی کتاب میںشیعہ رہنما کے متعلق مواد کی مذمت کی

ایسی حرکتیں رواداری، ہمدردی اور تنوع کے احترام کے...

’’ویٹرینیرینز ضروری ہیلتھ ورکرز ہیں‘‘

ڈی اے ایچ جموں نے عالمی یوم ویٹرنری 2024...

لوک سبھا انتخابات 2024

جی ایچ ایس ایس راجوری میںسویپ بیداری پروگرام کا...

اخراجات کے مبصر نے راجوری میں انتخابی

اخراجات پر ای سی آئی کے ضوابط کے نفاذ...

دیسی مصنوعات کی عدم دستیابی حیران کن !

یہ الگ بات ہے آج گائوں ،گائوں سڑکیں اور گاڑیاں پہنچ چکی ہیں ۔ یہ بھی ایک دوسرا پہلو ہے کہ دیہات میں رہنے والے لوگ ہوں یا شہروں میں سب کا طرزِ زندگی ٹیکنالوجی کی بڑھتی رفتار کے ساتھ ضرور بدل گیا ہے ۔ لیکن وہیں بڑھتی آبادی کی وجہ سے بے روزگاری پہلے کے مد مقابل کئی گناء زیادہ ہے ۔ آج ہمارے نوجوان صرف سرکاری نوکری ہی کو رزگار سمجھ بیٹھے ہیں باقی کوئی بھی کام دھندہ انہیں روزگار نظر نہیں آتا ۔ جس کی وجہ سے نوجوان ڈپریشن میں ہیں۔خود کشی ، ذہنی بیماریاں اور دیگر کئی مسائل سے الجھے بیٹھے ہیں ۔جبکہ پرانے زمانے کے لوگ سرکاری نوکریوں کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی ہی کھیتوں میں محنت کرتے تھے ۔اپنا ہی گھروں پر دیسی مصنوعات تیار کرتے تھے۔ دیسی مرغیاں ، دیسی انڈے ، دیسی دودھ اور دیسی گھی جیسے خالص پروڈیکٹ شہر تک پہنچاتے تھے اور خوشی کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ لیکن آئے دنوں بدلتے دور کے ساتھ دیہاتوں میں یہ اشیاء ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ یعنی اگر کہیں پر ہیں بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔اب جبکہ
مرغ ، بطخ پالن کا رجحان مکمل ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے نوے فیصدی پولٹری باہر کی منڈیوںسے لانی پڑتی ہے جبکہ نوے کی دہائی تک باہر کی منڈیوں سے صرف دس فیصدی پولٹری درآمد کرنی پڑتی ہے ۔وہیں وائس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق نوے کی دہائی میں کشمیر میں بھی لوگ گھروںمیں بطخ اور مرغ پالتے تھے جس سے دیہی اور شہری علاقوں کے رہنے والے لوگوںکی آمدنی بھی بڑھتی تھی اور بازاروں میں دیسی مرغ ، دیسی انڈے وغیرہ ہر وقت دستیاب ہوا کرتے تھے جو کسی ملاوٹ کے بغیر مقوی غذائیت سے بھر پور تھے ۔جبکہ یہ بطح اور مرغ ہر وقت لوگوںکی ضرورت کو پورا کرتے تھے ۔ کسی خاص مواقعے ، تہواروں ،عیداور دیگر اہم دنوں پر گھروں میں پائے جانے والے مرغ ہی استعمال ہوا کرتے تھے اور قریب ہر گھر میں مرغ پالنے کا رواج عام تھاجس کی وجہ سے باہر کی منڈیوں سے پولٹری کی درآمدگی محض دس فیصدی تھی تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے شہری و دیہی علاقوں میں مرغ اور بطخ پالنے کا رواج کم ہوتا گیا اور آج محض دس فیصدی لوگ ہی شوقیہ بطخ اور مرغ گھروں میں پالتے ہیںاور اس کی وجہ سے اب پولٹری کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے باہر کی منڈیوں سے نوے فیصدی پولٹری درآمد کی جاتی ہے ۔ گھروںمیں دیسی مرغ پالنے کا چلن صرف ایک رواج نہیں تھا بلکہ یہ کئی لوگوں کیلئے روزگار کا بھی ذریعہ تھا۔ گائوں اور دیہات سے مرغ اور دیسی انڈے قصبوں اور شہر میں فروخت ہوا کرتے تھے لیکن اب بسیار ڈھونڈنے کے باوجود بھی کہیں پر نہ ہی دیسی انڈے ملتے ہیں اور ناہی دیسی مرغ کہیںدستیاب ہوتاہے ۔جبکہ پہلے زمانے میں لوگ مقوی اور غذائیت سے بھر پور قدرتی غذاکھانے کے عادی تھے لیکن اب لوگ مصنوعی اشیاء کھاتے ہیں جو کمیکل کے استعمال سے تیار ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے نئی نئی قسم کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور وہیں دوسری طرف نوجوان بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ۔

spot_imgspot_img
%d bloggers like this: