spot_img

ذات صلة

جمع

سورہ کہف کی تفہیم

۰۰۰
ضیائالمصطفی نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
۰۰۰
اللہ کے نام سے شروع جوبہت مہربان رحمت والا۔سورہ کہف مکی ہے اس میں ایک سودس(110) آیتیں اوربارہ (12) رکوع اور ایک ہزارپانچ سوستہتر(1577)کلمے اور چھ ہزارتین سوساٹھ(6360)حروف ہیں۔
پندرھویں پارہ کے تیرھویں رکوع سے شروع ہو کر سولہویں پارہ کے تیسرے رکوع تک ہے۔ اس سور? مبارکہ میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ رومی بادشاہ ’’دقیانوس‘‘ کے دور میں شہر ’’افس‘‘ میں 250ئ￿ میں پیش آیا۔ جائے واقعہ ترکی کے شہر ازمیر کے قریب ہے ’’کہف‘‘ عربی میں غار کو کہا جاتا ہے۔ اسی سورت میں حضرت خضر، ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس سورت کو ہر جمعہ کے دن تلاوت کرنا مسنون ہے۔
مضبوط ترین اقوال کے مطابق اصحاب کہف سات حضرات تھے اگر چہ ان کے ناموں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت جو خازن میں ہے ان کے اسمائ￿ یہ ہیں: مکسلمینا، ?مل?خا، مرطونس، ب?نونس، سارینونس، ذونوانس، کشفیط طنونس اور ان کے کتے کا نام قطمیر ہے۔ یہ نام لکھ کر دروازے پر لگا دیئے جائیں تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں تو چوری نہیں ہوتا کشتی یا جہاز ان کی برکت سے غرق نہیں ہوتا، بھا گا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آجاتا ہے کہیں آگ لگی ہو اور یہ نام کپڑے میں لکھ کر ڈال دیئے جائیں تو وہ بجھ جاتی ہے، بچے کے رونے ، باری کے بخار، در دسر، ام الصبیان خشکی و تری کے سفر میں جان و مال کی حفاظت، عقل کی تیزی ، قیدیوں کی آزادی کے لیے یہ نام لکھ کر بطریق تعویذ بازو میں باندھے جائیں۔ (جمل)حضور سید عالم ?کو تسلی دی گئی ہے کہ آپان منکروں کی وجہ سے غم نہ کریں اور اصحاب کہف چند جوان تھے جو مشرکوں سے تنگ آ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہو گیے تھے۔(جس کی قدرتفصیل کچھ اس طرح کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد اہل انجیل کی حالت ابتر ہوگئی،وہ بت پرستی میں مبتلا ہوئے اور دوسروں کو بت پرستی پر مجبور کرنے لگے، ان میں دقیانوس بادشاہ بڑا جابر تھا جو بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اس کو قتل کر ڈالتا، اصحاب کہف شہر افسوس کے شرفاء و معززین میں سے ایماندار لوگ تھے۔ دقیانوس کے جبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہوئے،وہاں سو گیے،تین سوسال سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے۔ بادشاہ کوتلاش سے معلوم ہوا کہ وہ غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کر دیا جائے تا کہ وہ اس میں مرکر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہو جائے،یہی ان کی سزا ہے۔ عمال حکومت (حکومتی عہدے داران ) میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام تعداد پورا واقعہ رانگا ( ایک نرم دھات) کی تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق میں دیوار کی بنیاد کے اندر محفوظ کر دیا۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس طرح ایک تختی شاہی خزانے میں بھی محفوظ کرا دی گئی۔کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا، زمانے گزرے سلطنتیں بدلیں، یہاں تک کہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا، اس کا نام بیدروس تھا جس نے اڑسٹھ سال حکومت کی ، پھر ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہو گیے بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہو گیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہ الہی میں دعا کی یا رب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے خلق کو مردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو، اس زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لیے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اس غار کو تجویز کیا اور دیوار گرادی دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے۔ اصحاب کہف بحکم الہی فرحاں و شاداں (مسرور و خوشحال ) اٹھے چہرے شگفتہ طبیعتیں خوش، زندگی کی ترو تازگی موجود، ایک نے دوسرے کو سلام کیا نماز کے لیے کھڑے ہو گیے فارغ ہوکر یملیخا سے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانا خرید لائیے اور یہ بھی معلوم کرئے کہ دقیانوس کا ہم لوگوں کے متعلق کیا ارادہ ہے؟ وہ بازار گیے اور شہر پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی نئے نئے لوگ پائے انہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے نام کی قسم کھاتے سنا تعجب ہوا یہ کیا معاملہ ہے؟ کل تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کر سکتا تھا، حضرت عیسی علیہ السلام کا نام لینے سے قتل کر دیا جاتا تھا، آج اسلامی علامتیں شہر پناہ پر ظاہر ہیں، لوگ بے خوف و خطر حضرت عیسی علیہ السلام کے نام کی قسم کھاتے ہیں پھر آپ نان بائی کی دوکان پر گئے،کھانا خریدنے کے لیے اس کو دقیانوسی دور کا سکہ کا روپیہ دیا، جس کا چلن صدیوں سے بند ہو گیا تھا اور اس کا دیکھنے والا کوئی بھی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آ گیا ہے، انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گیے وہ نیک شخص تھا، اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: خزانہ کہیں نہیں ہے یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے۔ حاکم نے کہا: یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں،اس میں جوسن موجود ہے وہ تین سو سال سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں، ہم لوگ بوڑھے ہیں، ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں آپ نے فرمایا میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عقدہ ( معاملہ ) حل ہو جائے گا یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال و خیال میں ہے؟ حاکم نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں سیکڑوں سال ہوئے جب ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں ، میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں، چلو! میں تمہیں ان سے ملا دوں حاکم اور شہر کے عمائد ( معززین ) اور ایک خلق کثیر ان کے ہمراہ سر غار پہنچے، اصحاب کہف یملیخا کے انتظار میں تھے،کثیر لوگوں کے آنے کی آواز اورکھٹکے سن کر سمجھے کہ یملیخا پکڑے گیے اور دقیانوسی فوج ہماری تلاش میں آرہی ہے اللہ کی حمد اور شکر بجالانے لگے، اتنے میں یہ لوگ پہنچے،یملیخا نے تمام قصہ سنایا ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم حکم الہی اتنا طویل زمانہ سوئے اور اب اس لیے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لیے بعد موت زندہ کیے جانے کی دلیل اور نشانی ہوں حاکم سر غار پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا اس کو کھولا تو تختی برآمد ہوئی ، اس تختی میں ان اصحاب کے اسماء اور ان کے کتے کا نام لکھا تھا، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لیے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی۔ دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کر دینے کا حکم دیا۔ ہم یہ حال اس لیے لکھتے ہیں کہ جب کبھی غار کھلے تو لوگ حال پر مطلع ہو جائیں ،یہ تختی پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللہ کی حمد و ثنا بجا لائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ حاکم نے اپنے بادشاہ بید روس کو واقعہ کی اطلاع دی وہ امرائو عمائد کو لے کر حاضر ہوا اور سجدہ شکر الہی بجالایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی۔ اصحاب کہف نے بادشاہ سے معانقہ کیا اورفرمایا ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرات،اللہ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت فرمائے اور جن وانس کے شرسے بچائے بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنی خوابگاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروف خواب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی۔ بادشاہ نے سال( نامی ایک درخت) کے صندوق میں ان کے اجساد (جسموں)کو محفوظ کیا اور اللہ تعالی نے رْعب(جلال و شان و شوکت) سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے۔ بادشاہ نے غار کے سرے پرمسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک سرور (خوشی) کا دن معین کیا، ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں۔(تفسیرخازن) اس سے معلوم ہوا کہ صالحین میں عرس کا معمول قدیم (پہلے) سے ہے۔(خزائن العرفان)
آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ اور ان کے خادم (یوشع) ایک سفر میں بھنی ہوئی مچھلی، توشہ کے طور پر لیکر روانہ ہوئے۔ راستے میں وہ ایک جگہ سو گیے۔ وہ مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی گئی۔ بیدار ہونے کے بعد آگے بڑھے اور جب کھانے کا وقت آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے وہ بھنی ہوئی مچھلی طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ میں بتانا بھول گیا تھا کہ وہ پانی میں چلی گئی۔ وہ دونوں واپس آئے تو انہیں اللہ کا ایک خاص بندہ (یعنی حضرت خضر) مل گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے درخواست کی کہ ساتھ کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ صبر کے ساتھ ہماری رفاقت نہ کر سکیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان شاء اللہ میں صبر سے کام لوں گا۔ تب انہوں نے فرمایا کہ اچھا چلو،لیکن جب تک کسی معاملے میں کوئی تشریح میں خود نہ کروں، آپ کوئی سوال نہ کیجئے گا۔
اس کے بعد یہ دونوں حضرات چلے اور ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ حضرت خضر نے کشتی کا تختہ توڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول اٹھے کہ کیا آپ کشتی کے لوگوں کو ڈبونا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ صبر و ضبط نہ کر سکیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کی۔ اور پھر دونوں آگے بڑھے اور ایک لڑکا ملا تو حضرت خضر نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام پھر بول اٹھے کہ آپ نے ایک بے گناہ کو قتل کر دیا۔ خضر نے پھر فرمایا کہ دیکھئے، آپ پھر صبر نہ کر سکے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اچھا، اب اگر کچھ پوچھوں، تو مجھے ساتھ نہ رکھیے گا۔ اب پھر یہ آگے بڑھے اور ایک گاؤں والوں سے کھانا مانگا۔ انہوں نے نہیں دیا۔ اتنے میں گاؤں کی ایک دیوار گرتی ہوئی نظر آئی تو خضر علیہ السلام نے درست کر دی۔ موسیٰ نے کہا کہ آپ چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے (تاکہ خوردونوش کا سامان ہو جاتا)۔ خضر نے کہا کہ اب میری اورآپ کی جدائی ہے، لیکن اپنے کاموں کی مصلحت بتا دی کہ وہ سب اللہ ہی کے حکم سے کیا گیا تھا۔ وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی۔ اسے عیب دار کر دیا گیا تھا تاکہ وہاں کا بادشاہ اس پر قبضہ نہ کر لے۔ وہ لڑکا جو قتل کیا گیا تھا مومن اور صالح والدین کا تھا۔ بڑا ہو کر کفر اور سرکشی کرتا اس لیے قتل کر دیا گیا۔ وہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ مومن صالح تھا۔ وہ دیوار درست کر دی گئی تاکہ ان بچوں کے جوان ہونے تک وہ محفوظ رہے۔ پھر ذوالقرنین کا قصہ ہے کہ وہ ایک صاحب حشمت بادشاہ تھے۔ ایک روز مغرب کی انتہائی حدود کو پہنچے تو وہاں ایک قوم ملی جس میں ایماندار اور عمل صالح والے بھی تھے اور کفر والے بھی تھے۔ اسی طرح وہ مشرق کی انتہائی حدود تک پہنچے کہ وہاں سورج کا قرب تھا، پھر وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے اور ایسے لوگوں کو پایا جو کوئی بات نہ سمجھتے تھے۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے یا جوج و ماجوج قوم کے فساد کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ ایسی دیوار بنا دیجئے کہ وہ مفسد قوم ہماری طرف نہ آ سکے،چنانچہ لوہے کی چادروں سے اور پگھلائے ہوئے تانبے سے وہ دیوار مضبوط کر دی گئی تاکہ یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکیں اور نہ اس میں سوراخ کر سکیں پھر جب قیامت قریب آئے گی تو وہ دیوار پاش پاش کر دی جائے گی۔ اللہ کی باتوں اور کلمات کو لکھنے کیلیے اگر سمندر، سیاہی بن جائیں تب بھی وہ کلمات ختم نہ ہو سکیں گے اور حضورپرنوربظاہر بشر ہیں،لیکن ان پر وحی آتی ہے جس میں تعلیم ہے کہ اللہ ایک ہے۔ پس جسے اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو تو وہ عمل صالح کرے اور اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔
حدیث شریف میں ہے:حضورسید عالم نے عمل صالح کی کثرت کا حکم فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ وہ کیا ہیں؟ فرمایا: ۔
سورمریم مکیہ ہیاس میں اٹھانوے(98)آیتیں اورچھ (6)رکوعاورسات سواسِّی(780)کلمیہیں۔ سولہویں پارہ کے چوتھے رکوع سے شروع ہوتی ہے، اس سورت پاک میں انبیائے کرام علیہم الصلوٰ والسلام کی عصمت کا بیان ہے اور عیسائیوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی گئی ہے۔ حبشہ میں نجاشی بادشاہ کے دربار میں جب اہل مکہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نکلوانے کیلیے الزامات لگائے تو حضرت جعفر طیارنے شاہ نجاشی (جو کہ عیسائی تھا) کے سوالات کے جواب میں یہی سورت مریم تلاوت کی تھی جس پر نجاشی تنکا اٹھا کر کہنے لگا، ’’اس کے برابر بھی غلط بیانی نہیں ہوئی۔‘‘
سورت کے شروع میں زکریا علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کی اہلیہ بانجھ تھیں،لیکن انہوں نے اولاد کے لیے دعاکی تو ان کو بیٹے کی بشارت ملی۔
اللہ ہی نے ان کا نام یحییٰ رکھا جن کو بچپن ہی میں نبوت دی گئی۔ وہ بڑے متقی اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے تھے اور ان پر اللہ کی سلامتی ہے۔ اب مریم کی پارسائی اور ریاضت کا ذکر ہے کہ ان کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور بیٹے کی بشارت دی۔وہ تعجب میں تھیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ مریم علیھا السلام پر لوگوں نے بہتان لگایا تو انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے جھولے ہی میں فرمایا کہ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا۔‘‘ یہ بھی فرمایا کہ مجھے اللہ نے مبارک بنایا (تاکہ لوگوں کو نفع پہنچا سکوں) اور مجھے نماز اور زکوٰکے لیے تاکید بھی فرمائی۔ عیسیٰ علیہ السلام کو جو لوگ خدا کا بیٹا کہتے تھے ان کی بھی تردید کر دی گئی ہے۔ اللہ کسی کو اپنا بیٹا نہیں ٹھہراتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے بھی حق کی دعوت دی تھی۔

spot_imgspot_img
%d bloggers like this: