spot_img

ذات صلة

جمع

جے ایم ایف نے این سی ای آر ٹی کی کتاب میںشیعہ رہنما کے متعلق مواد کی مذمت کی

ایسی حرکتیں رواداری، ہمدردی اور تنوع کے احترام کے...

’’ویٹرینیرینز ضروری ہیلتھ ورکرز ہیں‘‘

ڈی اے ایچ جموں نے عالمی یوم ویٹرنری 2024...

لوک سبھا انتخابات 2024

جی ایچ ایس ایس راجوری میںسویپ بیداری پروگرام کا...

اخراجات کے مبصر نے راجوری میں انتخابی

اخراجات پر ای سی آئی کے ضوابط کے نفاذ...

زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر اے اہل وفا

 

 

 

 

شاہ خالد مصباحی

 اربابِ مدارسِ ہند اور اراکینِ مدرسہ بورڈ کو دستورِ ہند اور عدلیہ کے موجودہ رپورٹ کے تناظر میں تجزیاتی ہدایات:                            

یہ بات سچ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ یہ اسلامی ثقافت و تہذیب کی محافظ ہیں۔ مدارس اسلامیہ دینی قلعے، قوم مسلم کی ثقافت و زبان کے پاسبان اور قرآن و حدیث اور مسلم تاریخ و معاملات کے ترجمان ہیں اور عالمی طور پر ورثہ علوم نبویہ اور محافظ شریعت و طریقت ہیں ۔ جو اپنے قیام کے اول  روز سے اسی اصول و مقاصد کے ساتھ کاربند ہیں، اور انہیں مقاصد کے ساتھ چلتے رہنا، ان کی حیات ہونے  کی دلیل ہے۔

لیکن افسوس آج کے اس پر فتن دور میں پوری دنیا میں قوم‌مسلم اپنی تمام تر مسائل میں چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ دیگرقومیں ان سے وابستہ ہر چیز پر سوالات اٹھا رہےہیں ، مدارس میں ترمیمات اور اس کی شکلوں کو مسخ کرنے کے لیے دیگر قومیں سب سے زیادہ  اوتاولے ہیں۔ دہشت گردی اور تمام تر برائیوں کے ساتھ مدارس کا تعلق جوڑنے میں پیچھے نہیں ہٹ رہے ،ان سے وابستہ افراد و طلبا کو شب و روز ملک اور بیرون ممالک میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اور یہ بات واضح نہیں ہو پارہی ہے کہ ملک کی خاطر پیش کی گئی مدارس کی  قربانیوں اور حکومت و ریاست کی چلن میں ان کے طلبا کی قائم شراکت داریوں کو کیوں  نظر انداز کیا جارہا ہے؟

23 مارچ، 2024 کو ایک ایسا نیا معاملہ جنم لیتا ہے کہ جس سے ایسا محسوس ہوا کہ ہندوستان کے صوبہ اترپردیش میں چلتے مدرسوں کی شہ رگ پر چھری رکھ دی گئی ہوں، اور اس کی شدت میں اتنی تلخی تھی کہ پورے ہندوستان میں اقلیتی برادری مسلم کمیونٹی سے منسلک افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اتر پردیش کا  عدلیہ عالیہ الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو مدرسہ تعلیمی ایکٹ، 2004، کو، اس میں کچھ آئینی مفاہمت نا ہونے کی وجہ سے  "غیر آئینی” ہونے کا اعلان کردیا، اور اپنی رپورٹ کاپی اترپردیش حکومت کو سپرد کردیا۔

اور اس کے در پردہ چند ایسی بنیادی چیزوں کو وسائل بنایا گیا جو ہر ہندوستانی شہری کی بنیادی حقوق کی حمایت کرتی ہے اور جس کی تسدید پر لوور کورٹ سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا  میں ہر انسان رٹ ( پیٹیشن) داخل کرسکتا ہے ۔ جس کو قانونی تناظر میں ہوبس کورپس کہا جاتا ہے ۔  اس رٹ کے تحت اگر کسی ہندوستانی شہری  کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کی پامالی ہورہی ہے تو وہ ریاست کے ہائی کورٹ یا بلا واسطہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں اس کو چیلنجز کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور خاص اسی طرح کورٹ کا کوئی درجۂ ریاست یا ضلع، تنظیم یا جماعت کے کارکن کو بھی یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ افادیت عوام و صحت عامہ کے تناظر میں کورٹ میں اپیل داخل کرے اور گورنمنٹ و حکومت کو اس چیز کی خرابی و اچھائی کے بارے میں باخبر کرے۔

کورٹ کے پاس کسی بھی قسم کی  قانون و ایکٹ کو پاس کرنے اور ختم کرنے اختیار نہیں ہوتا، یہ حق پارلیمنٹ کو ہوتا ہے کہ پبلک ڈومین میں یا کسی اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود یا برای شئ دیگر قانون بنائے۔ ہاں کورٹ کو اس معاملہ میں ضرور آزادنہ طور پر یہ حق و دستور حاصل ہے کہ اگر پاس  ہوئے قانون و ایکٹ میں کوئی خرابی ہے تو جیوڈیشل ریویو کے تحت پارلیمنٹ کو راء دہندگی کا حق اسے حاصل ہے اور یہ دستور ریاستی اور مرکزی عدلیہ جات  سبھی کو حاصل ہوتا ہے۔

اب مذکورہ بالا نکات کی صورت میں اربابِ مدارس کو اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے دستور میں یہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحت داخل ہے کہ 86 ویں ترمیم ایکٹ سن 2002  کے تحت ہر شخص کو چھ سال سے چودہ سال تک   لازمی و ضروری  تعلیم فری میں مہیا کرایی جائے ۔ اور اس کے بارے میں  بنیادی حقوق کا دفعہ "21 اے” بات کرتا  ہے ۔ یہ ایکٹ  رائٹ ٹو ایجوکیشن کے نام سے بھی جاتا ہے۔ اور یہ ایکٹ ہندوستان کی مرکزی عدلیہ، حکومت، سرکاری و غیر سرکاری اداروں، مقامی حکام و افسران سبھی پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی شہری سے اس کا یہ بنیادی حق مسلوب نہ ہو اور اگر ایسا ہوتا ہے تو محولہ بالا دائرہ کار کے تحت کسی بھی عدلیہ میں معاملہ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

پورا موجودہ معاملہ یہ ہے جس کی بناء پر مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کوختم کرنے کی مانگ الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے کی گئی- اربابِ مدارس سے گزارش ہے کہ معاملہ کو باقاعدگی سے پہلے سمجھنے کی کوشش کریں، کوا کان لے کر بھاگ گیا، اسی کے پس پشت سب کو بھاگنے کی ضرورت نہیں، اورہاں اس معاملہ میں یہ ضرور خیال رکھیں کہ مذہب کی شدت اس قدر ہمارے نفس میں نا گھلنے پائے  کہ ہر قانونی کارروائی یا کوئی امر جو اپنے نفس ومرض  کے خلاف دکھتا ہوا تو معاملہ عذابِ حیات اور خدا کی غضب پر معلق ہوجائے، زاین قبل کہ قورمے کی خوراک میں گوشت کی تمییز کرنے کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔ جملے اگر سخت ہوں تو معافی کا خواستگار ہوں ، لیکن جس طریقے سے موضوع پر بات نا کرکے أہل قلم کاران، عذابِ خدا پر تبصرہ کر رہے ہیں، وقت سے پہلے ہوش کے ناخن لیں ورنہ یہ ضرور تکلیف کا باعث ہوگا۔ 

رائٹ ٹو ایجوکیشن میں تعلیم سے مراد :

یہ چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دفعہ اکیس اے میں جس تعلیم کی بات کی جارہی ہے ۔ اس سے مراد  یونیورسل تعلیم ہے جس کو الہ آباد ہائی کورٹ کی رپورٹ میں یہ بار بار لفظ دہرایا گیا ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق  رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت جس تعلیم کی بات کی جارہی ہے کیا ان موضوعات کو مدرسہ بورڈ مان رہا ہے یا ایسے سبجیکٹ ان ریاستی معاون مدارس میں چل رہے ہیں جو یونیورسل ایجو کیشن سے ملاپ رکھتے ہوں؟ یونیورسل تعلیم کو مزید واضح کروں کہ اس کے تحت  ہر بچے کو ایک باقاعدہ نظام و اصول کے تحت ایک ایسی معیاری تعلیم فراہم کی جائے، جو بچے کی ہمہ جہت ترقی کا سبب بنے، اس کے لیے یہ تعلیم آگے چل کر معیاری تعلیم کے حصول کے لیے اچھا زریعہ بنے۔

مدرسہ بورڈ جو اب تک رائٹ ٹو ایجوکیشن حکومتی پالیسی و دیگر سیاسی سازش کا مشترکہ ساجھے دار رہا ہے۔

      راہزن  رہبر کی پوشاک میں رہا حاکم ع

 اب کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب، بات پڑی، بورڈ خطرے میں تو نوکری خطرے میں چئیرمین و اراکین کی، اب جب خالی ہاتھ ہونے پر پڑے تو قوم و ملت کے لیے ساری بھلائی انہیں یاد آنے لگی۔

کیا اہل مدارس کو سن 2002 سے اتنا لمبا وقفہ ملنے کے بعد ان کے دماغ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر وہ بچے جو چھ سال سے لے کر اور چودہ سال کے درمیان ہمارے مذہبی ادارے میں پڑھ رہے ہیں، ان کی معیار تعلیمی کی کوئی خبر، اور حیثیت کیسی ہے؟ اور کیا بورڈ جس چیز پر حکومت کا حامی و دست بیعت رکھے ہوئے تھا، کیا اس ایکٹ کی تعمیل طرف کوئی قدم اور کوشش اس کی طرف کیوں نہیں کی گئی؟ جس بورڈ کی مارکسیٹ سے اس ملک میں ایک پاس پورٹ نہیں بن سکتا تھا، چہ جائیکہ دیگر سرکاری کام، اس بورڈ کے اندر تعلیمی معیار اور اس بورڈ کی ان اداروں کی محافظت کے لیے کوشش و لائحہ عمل بنانے کے لیے تدابیر پر اربابِ مدارس کو ضرور سوچنا چاہئے کہ کتنی بڑی سازش آپ کے خلاف رچی جارہی تھی۔

حکومت کو سونپی گئی رپورٹ میں کورٹ بینچ بار بار اس چیز کو مدعا بناتا ہے کہ اتر پردیش میں تقریبا 25 لاکھ طالب علم جو  16،513 حکومت سے  تسلیم شدہ مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں  اور 8،449  حکومت سے غیر تسلم شدہ مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں، کیا ان کو رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت تعلیم فراہم کی جارہی ہے جب کہ 500 سے زائد مدارس کو ریاستی حکومت مدد کے نام پر خطیر رقم دے رہی ہے، یہ کہا تک درست ہے؟

اور ان ساری قضیوں پر مدرسہ فنڈز کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا کہ  مدرسہ بورڈ  ایکٹ ، جو ہمیشہ اس ضابطے کے اندر ہونے کی بات کرتا ہے ، حالانکہ اس کا معاملہ دورخی ہے اور معاملہ اس سے  دگر گوں ہے تو یہ امر  فنڈز کمیشن ایکٹ، 1956 کے سیکشن 22 کے خلاف بھی ہے۔ جس پر جلد از جلد قدغن لگنی چاہیے اور ایسے تعلیمی اداروں کو اسکولوں میں تبدیل کیا جانا چاہیے ۔

رایٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت قانون و صوبائی حکومت کو   بھی معیارِ تعلیم یا انداز تعلیم کو منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

اربابِ مدارس کا مدعا اس ضمن میں بالکل درست ہے کہ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور مدارس میں غریب و نادار بچے پڑھتے ہیں جن کی ہمہ جہت کفالت کی ذمہ ان کی ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں آپ بجانب راست ہیں اور یہ ایکٹ بھی اس چیز کی حمایت کرتا ہے اور یہ چیز RTE ایکٹ کے سیکشن 12(1)(c) میں شامل بھی ہے۔ جس میں یہ پرویزن رکھا گیا ہے کہ  تمام تعلیمی اداروں کو (نجی، غیر نجی  ریاستی امدادی ادارے ، یا ادارہ کا بعض حصہ امداد یافتہ یا دگر خصوصی زمرہ جات ادارے ) داخلہ کی سطح پر اپنی 25% نشستیں معاشی طور پر کمزور طبقوں (EWS) اور پسماندہ گروپوں کے طلبہ کے لیے  خاص کرنی چاہیے۔ اس ایکٹ میں پچیس فیصد کی بات کی جارہی ہے کہ جب کہ اہل مدارس صد فیصد غریب الغرباء طلبا کی داد رسی اور تعلیمی مدد کے لیے خود کو وقف کر رکھے ہیں،  جو کہ ایکٹ کے تحت حق بجانب ہے ۔

لیکن مسئلہ تعلیم کا ہے جو مدرسہ بورڈ رائٹ ٹو ایجوکیشن کی تعلیمی پالیسی پر بلکل نہیں اترتا ہے۔

کیا گورنمنٹ فنڈز مدارس یا مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے ایسے کون سے ادارے ہیں جن میں جامع تعلیم inclusive education  طلبا کو دیا جارہا ہے ۔

کورٹ کا خالص مطالبہ یہی ہے کہ مدرسہ ماڈرنزم کے نام پر ویتن سے لے کر، ساری سرکاری اسکیموں کا فائدہ اساتذہ مدارس اور بورڈ کے اراکین سب اٹھا رہے ہیں، اس سے کسی کو تکلیف نہیں، جب کہ کوالیٹی ایجوکیشن ایکٹ جو اس کا حصہ ہے، اس تحت بھی مدارس میں اساتذہ اور اراکینِ مدرسہ بورڈ مختلف اسکیمیں کا مزہ چکھ رہے ہیں، رخصت و غیر رخصت سب کچھ اسی تناظرات میں، مدرسین کی  تنخواہیں بھی اسی پیمانہ شمارہ پر، لیکن حکومت چاہے مرکزی ہو یا ریاستی اس نے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مدارس میں قرآن کی جگہ خالص گیتا پڑھاؤ، عربی و فارسی کو نکال کر صرف سنسکرت پڑھاؤ، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ تعلیم جو محولہ ایکٹ کے تحت زیر عمل ہے اس کو ہی عمل میں لانے کی بات کر رہی ہے اور کر رہی تھی ۔ لیکن یہ چیز سمجھ سے باہر ہے مدرسہ بورڈ یا سرکاری مدارس کے اساتذہ نے اس چیز کو ماننے سے انکار کیوں کردیے، جب کہ ان کی نوکری کی ضمانت انہیں چیزوں پر تھی۔

یہ چیز میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر ان ایڈیڈ مدارس میں جو سرکار کی اعانت پر چل رہے ہیں، اس چیز میں بھی سرکار کے ساتھ مفاہمت کرلیتے تو خرابی کیوں درکار آتی؟ جب کہ اس سے مدارس کے طلبا اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ عصری علوم سے بھی ہم آہنگ ہوجاتے ۔ اور باعثِ تکلیف تو یہ ہے کہ مدرسے میں جانے والے طلبا کی عمر اس زاویۂ حدود میں آتی ہے جن بچوں کا دخول مدرسے میں ایکٹ کی مخالفت کرتا ہے۔

گورنمنٹ نے کبھی بھی اس چیز کی وضاحت نہیں کی اور نا ہی اس چیز پر زور ڈالی کہ جو اساتذہ مدارس میں ہیں وہ ہی غیر عربی و فارسی مضامین پڑھائیں گے بلکہ اس کے لیےدیگر اساتذہ کے تعینات کو لے کر بھی بات چلی، جس سے یہ بات ممکن تھی کہ مدارس میں جاب سیکٹر کی اِضافہ ہونے میں خوب مدد ملتی ۔

ایسے دہان پر اربابِ مدارس کے لیے اچھا موقع ہے کہ گورنمنٹ کی اولین پالیسی کو جس طریقے سے آپ نے قبول کیا ہے اسی طرح سے اس ایکٹ و حکومت کے مطالبہ کو بھی قبول کرنے کی تھوڑی سی ہمت پیدا کریں، جس سے ان مدارس کی سالمیت اور ساتھ میں مدرسہ ٹیچروں کی نوکری کی حفاظت بھی برقرار رہے ۔ ورنہ یہ معاملہ حکومت کے سپرد ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے زیر نگین آتے ہی اس چیز پر نا خواستہ فیصلہ آنے کا امکان زیادہ ہے۔

اس تناظر میں یہ معاملہ خالص تقریباً 560  مدرسوں کے لیے ہوگا بقیہ جو مدرسوں  حکومت کی بغیر معاونت کے چل رہے ہیں ان کو مکمل مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے ارٹیکل 28/29 /30 کے تحت رواں دواں رکھا جاۓگا ۔

مدرسے میں گورنمنٹ کو مداخلت کرنے کا حق أہل مدارس نے ہی دیا، سرکاری اسکیموں کو مدارس میں اس حد تک اپنی مفاد پالیسی کے تحت زیر عمل لائے، جو ہر حد تک ناگریز تھا، لیکن کانگریس کی سیاسی  پالیسی کی کہ "تم بھی کھاؤ، سب خوش اور ہماری راج نیتی بنی رہی” اس سے بی جی پی کی سیاسی پالیسی دگر گوں ہے ۔

جب تک بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں بنی دستورِ ھند ہندوستان میں زیر عمل ہے تب تک مدارس کا کچھ نہیں ہونے والا، اس عمل سے اگر خدا نخواستہ کوئی آفت آتی ہے تو وہ خالص وہ یہ ہے کہ یا تو آپ گورنمنٹ کی ایڈوانٹیج مثلا سرکاری نوکری ، سے محروم ہوئیں گے یا سرکار کی موجودہ پالیسی پر أہل مدارس مفاہمت و دست بیعت کریں۔ اور یہ چیز یاد رکھیں کہ حکومت ماڈرن ازم کے نام سے صحت عامہ کی قانونی شرائط کے ساتھ ہر اس لمحہ تک جائے گی جو مدرسہ کلچر، اس کی بنیادی خصوصیات، ڈھانچے کے منافی ہے۔

اور مدرسہ بورڈ کا ایک ڈیلیگیشن اس تناظر میں بلا واسطہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلی سے رابطہ کرے۔ اور اس چیز کی ضرور یقین دہائی کرائیں ۔

سپریم کورٹ میں اپیل، اور نتیجہ بے اثر آنے کا امکان:

      قانونی و پالیسی سازی کے معاملہ میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان چیزوں و موضوعات کی دستوری  تقسیم ہے،  اور اس واسطے ہندوستان میں تین لیسٹ ہے جو سینٹرل سبجیکٹ لسٹ ، اسٹیٹ سبجیکٹ لسٹ اور کنکورینٹ سبجیکٹ لسٹ کے نام سے موسوم ہے ۔ اور یہ چیز دستورِ ھند کے ساتویں شیڈول میں داخل ہے ۔ یہ شیڈول ایک اہم فراہمی وولٹیج کی طرح کام کرتا  ہے جو مرکز اور ریاست کے درمیان تعلقات کو بخوبی متوازن رکھتا ہے۔

اس چیز کی تفصیل میں نا جاکر یہ چیز واضح کردوں کہ

اول سبجیکٹ لسٹ میں وہ چیزیں آتی ہیں جو مرکزی طاقت کے اندر ہوتی ہیں مثلاً فوج، مدافعتی جماعتیں، میڈیا وغیرہ ۔ جن پر پالیسی بنانے اور عمل کرانے کا اختیار مرکزی حکومت اور کابینہ کے زیر دست ہوتا ہے ۔ اور کنکورینٹ سبجیکٹ لسٹ میں ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جن پر مرکزی اور صوبائی حکومت دونوں مل کر پالیسی بناتے ہیں جن میں ایجوکیشن، تجارتی یونین، جنگلات وغیرہ جیسے موضوعات آتے ہیں۔  میں صوبہ سے متعلق چیزیں آتیں اسٹیٹ سبجیکٹ لسٹ ، جن پر صوبائی حکومت کا مکمل دسترس ہوتا ہے، جس میں مداخلت کرنے کا اختیار، مرکز کو بغیر پارلیمنٹ یا صدرِ جمہوریہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔ 

اس تناظر میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت سیکولر موضوعات کی تعلیم آتی ہے، جو کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں دونوں کے زیرِ نگر ہے اور تعلیم کا یہ حصہ  کنکورینٹ سبجیکٹ لسٹ میں آتی ہے۔ اب اگر مدرسہ بورڈ اس چیز کو بنیاد بناکر  سپریم کورٹ میں عرضی یا اپیل داخل کرتا ہے، تو کسی بھی صورت میں مدعا مضبوط نہیں اور ممکن ہے کہ مرکزی حکومت اور عدلیہ اس معاملہ پر صرف نظر کرکے  عرضی کو خارج کردے، جو کہ آئین کے منافی نظر آرہی ہے ۔

     اور دوسری صورت یہ بھی واضح رہے کہ یوپی ایڈیڈ مدارس کی تنخواہیں ، صوبائی حکومت کے ذمہ ہے اور یہ پالیسی اور اسکیم مرکزی حکومت کی نہیں بلکہ یہ صوبائی حکومت کے تحت ہے۔ فرض کرلیا جائے اگر سپریم کورٹ صوبائی حکومت کی بات کو تردید کرتے ہوئے مدرسہ بورڈ ایکٹ کی بحالی کی بات کرے تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ صوبائی حکومت اپنے بجٹ کی کمی یا کسی دوسرے حیلہ کو سامنے لا کر اس حکمنامہ کی تردید کردے؟  جب کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ خالص ریٹیفیکیشن، اور فیصلہ پر نظر ثانی کی صلاح دے سکتا ہے، سپریم کورٹ اس تناظر میں فورس نہیں کرسکتا ہے، جب کہ اترپردیش ہائی کورٹ جو صوبائی ریاست کی فعل و عمل کی اس ضمن میں تجزیہ نگار ہے، اس سے اب بھلائی کی امید اربابِ مدارس نا رکھیں تو بہتر ہوگا،  جب کہ اس تحت اس کا موقف پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔

اب صوبہ کے اسمبلیوں کو اس تحت یہ طاقت حاصل ہے کہ اس کو پاس کریں گے یا اس کی تردید کریں گے، اس ضمن میں ایکٹ کے بننے یا کسی دگر پالیسی کو زیر عمل لانےمیں صوبہ کے گورنر  اس ضمن میں وزیر اعلی کی مشاورت کا محتاج ہوتا ہے ۔ بغیر اس کی رضامندی کے کوئی بھی عمل اب آگے نہیں بڑھ سکتا جب کہ اس ضمن میں یوپی کے  وزیر اعلی کا نظریہ بھی واضح ہے ۔

جسٹس ویویک چوہدری اور سبھاش ویدی ارتھی نے، انشومان سنگھ راتھور کی طرف سے کی گئی  درخواست پر  مدرسہ بورڈ پر سنوانی  کے دوران ان چیلنجز کو بھی براین دلیل موضوع تردید بنایا ہے کہ سپریم کورٹ نے خود  جدید تعلیم اور جدید مضامین کے پڑھائے جانے پر بار بار زور دیا ہے، سپریم کورٹ نے خود اس چیز کو اپنے اسٹیٹمینٹ میں بارہا کہا کہ راٹت ٹو ایجوکیشن کے تحت ایسی تعلیم دی جائے جو سیکولر ہو کسی خاص مذہب کی پیروکار نہیں، ایسی تعلیم دی جائے جس کو حاصل کرنے کے بعد بچے اور بچیوں کے اندر اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور اس ملک کو آگے بڑھانے کے لئے جذبہ و لیاقت پیدا ہو۔ انشومان سنگھ راتھور نے اس چیز کو اپنے دستاویز میں شامل کیا ہے اور اس کے تحت مدرسہ بورڈ ایکٹ کو چیلنج کیا ہے اور بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہ ثبت کیا کہ اس ایکٹ کے تحت  ایک محدود تعلیم  فراہم کی جارہی ہے جو  صرف ایک مذہب، اس کی ہدایات اور فلسفہ پر زور دیا جاتا ہے. ”  بینچ نے مزید اپنے فیصلے میں  کہا کہ مدرسہ بورڈ کی طرف سے فراہم کی جانے والی تعلیم سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ معیار تعلیم  کی خلاف ورزی کرتی ہے، جس سے یہ صاف طور سے ظاہر ہوتا ہے کہ   مدرسہ ایکٹ کے تحت فراہم کردہ تعلیم آئین کے 21 اور 21 اے کے مضامین کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔

دفعہ اکیس اے اور تیس (١)میں تطبیق:

موجودہ مسائل میں یہ چیز سمجھنے کی ہے کہ رپورٹ میں جس دفعہ کی بنیاد پر مدرسہ بورڈ کو خارج  کرنے کی مانگ کی ہے وہ دفعہ اکیس اے ہے، جو محولہ دائرہ کار میں کام کرتا ہے اور اسی بنیاد پر مدارس میں  تعلیمی توسیع کی بات آج گزشتہ سالوں سے چل رہی ہے ۔

حکومت کے کسی بھی اپنے اسٹیٹمینٹ یا رپورٹ کے کسی بھی حصہ میں یہ جزو نہیں ہے کہ مدارس کو ہی بند کردیا جاۓ، بلکہ یہ کورٹ کا یہ جبر ان جگہوں کو شامل رہا جہاں پر دفعہ اکیس اے کی تسدید کی جارہی ہے ۔

یہ بات واضح رہے کہ دفعہ تیس تمام‌اقلیتوں کو جیسے : مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ ، جین اور پارسی قوموں کوقومی کمیشن برائے اقلیتی قانون 1992 ء کے سیکشن(سی اے) کے تحت اقلیتی برادریوں کے طور پرنشان زد  کیا گیا ہے اور ان سبھی اقلیتوں کو ، خواہ وہ مذہب کی بنا پر ہوں یا زبان کی بنا پر ، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔ یہ اختیارات و حقوق ہندو ،جین  ، سکھ ، عیسائی وغیرہ ہندوستان کے  سارے مذاھب کے ساتھ مسلمانوں کو بھی شامل ہیں ۔ آئین سازوں نے اس ملک کی ساری قوم  کی ثقافت،  زبان و ادب کے ترویج و اشاعت اور ہر فرد کی مذہبی آزاد ی کے ساتھ اس دھرتی کی بقا کا  تصور ملک کے موجودہ دستور ہند میں  رکھ دیا ہے،جس کی حفاظت کی ذمہ داری اس وطن کے ہر شہری اور اس ملک میں قائم  ہر حکومت پر ہوگی۔

موجودہ رپورٹ میں معاملہ کی حساسیت دفعہ اکیس اے کی ہے ناکہ تیس جو مدارس کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہے۔

برسر وقت مدرسہ بورڈ اور مدارس کے اساتذہ و عملہ کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں جس سے ان چیزوں کی نفی نا ہوں، اور بہر صورت یہ معاملہ تکلیف کا باعث ہے کہ مذہب کی تعلیمات کی نشرواشاعت میں جو ایک لازمی حصہ ہے ، اور کورٹ اس کے منافی بھی نہیں،ایک بڑی تعلیمی تقاضات جو مسلم کمیونٹی کی ہے، اس سے ہم پس پشت ہورہے ہیں، اس کی حفاظت و توسیع کرنے  کی ذمہ داری ہمیں کیوں  نہیں درساتی؟

کورٹ کے فیصلے اور رپورٹ کے تناظر میں  یہ  شقیں اربابِ مدارس کو سمجھنے کی ہیں ، جس پر تجزیہ کرکے معاملہ کی آگاہی اربابِ مدارس کو دینا بحیثیتِ فارغ مدرسہ طالب علم ہونے، میری ذمہ داری بھی تھی۔  امید کرتا ہوں کہ محولہ قانونی و دستوری پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اربابِ مدارس مثبت اقدام کی طرف پہل کریں گے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

[email protected]

spot_imgspot_img
%d bloggers like this: