spot_img

ذات صلة

جمع

حافظؔ کرناٹکی کی شاعری کامطالعہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

 

 

ڈاکٹر داؤد محسنؔ
داونگرے(کرناٹک)
حافظ کرناٹکی کی مستقل مزاجی، قربانی اورسعی مسلسل کا نتیجہ ہے کہ آج شکاری پور علمی و ادبی افق پرمثل ماہتاب دکھائی دیتاہے۔حافظ کرناٹکی بیک وقت سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی ، دینی، اصلاحی کام انجام دینے کے قائل ہیں۔انہوں نے قوم وملت کی فلاح وبہبود کے لیے خود کو وقف کیا ہے اور ساتھ ہی ادبی کارنامے انجام دینے میں منہمک ہیں۔ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع وعریض ہے اور اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس کے بیان کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ان کی شخصیت اتنی جاذب اور جاندار وتہ دارہے کہ اس کو سمجھ پانا آسان نہیں ہے۔وہ ایک لمحہ خاموش بیٹھنے کے عادی ہیں اور نہ اپنے ذہن کوسکون دینے کے قائل ہیں۔ان کی سوچ و فکر اور تخیل کی رسائی کا اندازہ لگانابھی بسااوقات مشکل ہوجاتاہے۔جن احباب نے حافظ کرناٹکی کو قریب سے دیکھا ہے انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے اور مجھے یہ شرف حاصل ہے ۔
حافظ جی ایک شاعر اطفال کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں لیکن وہ ایک مصلح کی طرح صالح معاشرے کو تشکیل دینے،قوم وملت کی فلاح وبہبود ، مدارس ومکاتب ، اسکولوں وکالجوں کی نگرانی ، نونہالان قوم کو دینی و عصری علوم سے آراستہ و پیراستہ کرنے ،اسلامی شعار اپناتے ہوئے نیک بنانے اور اپنے اخلاق و کردار سے اپنی شناخت برقرار رکھ کر ایک صالح زندگی گزارنے کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ گیسوئے ادب سنوارنے کاجذبہ ہے جسے مسلسل انجام دیا جارہا ہے ۔
حافظ کرناٹکی وہ شخص ہے جوادب کی کئی اصناف پر اپنی فکری جولانیاں بکھیرتا ہے اور ادبی دنیا میں مختلف موضوعات پر کتابوں کا انبار لگا دیتا ہے، مذہبی امور بھی انجام دیتا ہے ، مدارس بھی چلاتا ہے ،شہروں شہروں اور ملکوں ملکوںسفر بھی کرتا ہے ،محفوؒں میں برابر شریک بھی ہوتا ہے ، صدارت کے فرائض بھی انجام دیتا ہے ، بحیثیت مہمان خاص محفلوں کی زینت بڑھا تاہے، تقاریر کرتا ہے اور منظوم خطاب کرتا ہے اورسو سے زائد کتابیں بھی ادب کو دیتا ہے۔ایک فرد واحد بیک وقت اتنے کام اپنے ذمہ اٹھاتاہے تو اس کی کیفیت کیا ہوگی ایک ذی شعور فرد اس کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ ان صفات اور خدمات کی بدولت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حافظ کرناٹکی گفتار کا غازی نہیں بلکہ کردار کا غازی ہے، وہ باتیںہی نہیں، کام کرتا ہے، وہ گرجتا بھی ہے اور برستا بھی ہے ،علم والا ہے علم والوں کی قدر کرتا ہے ،وہ صرف شاعر یا ادیب ہی نہیں ایک مکتب فکرہے، وہ حافظ قرآن ہی نہیں بلکہ حافظ قوم و ملت بھی ہے، ایک فردنہیں بلکہ ایک انجمن ہے ۔۔
دنیا میں شعراء و ادباء کی کمی نہیں ہے جو بیک وقت کئی اصناف ادب میں اپنی جولانیاں بکھیرتے ہیں لیکن ایسے کم فنکار ملتے ہیں جو اپنے فکر و خیال کے اظہار کے لیے ہرنثری و شعری صنف اپناتے ہیں۔حافظ کرناٹکی کی ذات ادب کی اتنی اصناف پر پھیلی ہوئی ہے جس طرح ان کی ذات کئی میدانوں میں پھیلی ہوئی ہے۔حافظ کرناٹکی کی اولوالعزی، مستقل مزاجی، مشقت اور مقصدیت پسندی دیکھیے کہ انہوں نے تخلیق ادب کے لیے ادب اطفال کا میدان منتخب کیا جوسخت محنت طلب ہے ۔ یہ انتخاب انہوں نے ایک واضح مقصد کے تحت کیا اوروہی ان کا شوق اور زندگی کامقصد بن گیا۔ جس شخص کی زندگی کا مقصد اعلیٰ و ارفع ہو اس کے بڑے بننے میں دیر نہیں لگتی ۔
حافظ کرناٹکی کی کتابوں کے مطالعہ سے صاف پتہ چلتاہے کہ انہیں بچوں کی نفسیات اور پسند وناپسند کا گہرا شعور ہے۔ یہ شعور یوں ہی پیدا نہیں ہوا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ان کا رابطہ اور تعلق بچوں سے راست طور پر ہمیشہ رہا ہے۔ حافظ کرناٹکی پیشہ سے مدرس رہے ہیں ، کئی مکاتب ، مدارس اور نرسری سے لے کر D.Edاورڈگری کالج کے نگران ہیں ا س لیے ان کاسابقہ بچوں سے پڑتاہے۔ بچوں کی نفسیات، قابلیت ، ذہنی سطح، فکری نہج، مزاج اور تخلیقی اُپج کا انہیں شعور اور سلیقہ ہے اسی لیے جب وہ بچوں کے لیے نظمیں لکھتے ہیں تو بڑی آسانی سے اپنی فکری سطح سے اتر کر بچوں کی سطح پر آجاتے ہیں ۔ہم نے دیکھا ہے، لاکھ مصروفیات سہی ،جب بھی حافظ صاحب اپنے دیارمیں ہوتے ہیں توان کا اٹھنا بیٹھنا بچوں کے درمیان ہوتاہے، ان کا ذہن بچوں کی پسند وناپسند کو محسوس کرتا رہتا ہے، وہ بچوں کی معصومیت سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور خود معصومیت سے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں اشیاء کو برتنے اور واقعات کو بیان کرنے میں کسی قسم کے تصنع کا احساس نہیںپایاجاتا ہے۔جس کی بدولت ان کی شاعری میںاوریجنلیٹی آجاتی ہے
حافظ کرناٹکی ایک بالیدہ فکر اور بلند سوچ کے حامل انسان ہیں ان کے ذہن کی رسائی اور قلم کی روانی ایسی ہے کہ اس میں اصلاحی ،اخلاقی، تاریخی ، سماجی ، معاشی اور علمی بصیرت کارفرما ہے اور ان سب کا محور و مرکز اسلامی فکر اور اسلامی تعلیم ہے۔ ان کی فکر بالغ ، تخیل بلند ، نظر گہری ، تجربات وسیع اور رنگارنگ اورسوچ صالح ہے جو بچوں کی حرکات و سکنات اور ان کی فطرت پر مرکوز رہتی ہے ۔

حافظ کرناٹکی نے ادب اطفال کے شاعر کی حیثیت سے ادبی زندگی کا آغازتو کیا لیکن انہوں نے اپنے آپ کوصرف بچوںکے ادب کی حد تک محدود نہیں رکھا اور ان کی شاعری ہر عمر والوں کے لیے سامان فرحت و مسرت بن گئی۔چونکہ ان کا تعلق سماج کے ہر طبقہ سے ہے اور ہر فرد سے ہے۔اس لیے ان کی سوچ و فکر ہمیشہ تر وتازہ رہتی ہے اور ہر وقت ان کے ذہن سے شعری سوتے پھوٹنے لگتے ہیں۔ حافظ کرناٹکی کے یہاں موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہے کیونکہ ان کے یہاں مشاہدات و تجربات کی بھی کمی نہیں ہے اورنہ ہی کا فقدان ہے بلکہ اس میں رنگا رنگی بھی ہے اور تنوع بھی ہے۔
حافظ کرناٹکی کی شعری تصانیف کی تعداد تقریباً ساٹھ کے آس پاس ہے جو شاعری کی تقریباً کئی اصناف کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ انہوں نے نظمیں ، غزلیں ، حمد ، نعت ، منقبت، تہنیت ،قصائد ، مرثیے ،لوریاں،قطعات ، رباعیات ، منظوم سیرت وغیرہ پر جم کر خامہ فرسائی کی ہے۔یہاں میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ اگر حافظ جی ’’منظوم سیرت نبی کریم ﷺ یعنی ’’ہمارے نبیؐ‘‘ اور ’[پیارے نبیؐ‘‘لکھتے اور اس کے بعد کچھ بھی نہ لکھتے تو ممکن ہے ان کتابوں کی بدولت زبان و ادب میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرلیتے یا اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ صرف’’ رباعیات حافظ ‘‘کی وجہ سے بھی ادب میں وہ ہمیشہ زندہ رہ جاتے ۔اس کے علاوہصرف حافظ کرناٹکی ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جنہوںنے ہندوستان بھر میںحمد کی چار کتابیں شائع کرکے اہم کام انجام دیا ہے جن کو میںقابل صداحترام قرار دیتاہوں۔ میرے علم کے مطابق تا دم تحریر آزادی کے بعد کرناٹک سے شائع ہونے والی حمدیہ کتابوں کی تعداد صرف چھ ہے جن میں حافظ جی کے چار مجموعۂ حمد ’ رباعیات حافظ(حمدیہ) ، اللہ ُ جمیل،اللہ ُالصمد،اللہ ُ احدشامل ہیں۔
حافظ صاحب کی جتنی کتابیں ہیںہر کتاب میں کئی کئی نظمیں ہیںاور یہ ساری کی ساری نظمیں الگ الگ عنوانات اور موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ حسب روایت ہر کتاب حمد سے شروع ہوتی ہے۔ حمد کی زبان سادہ، آسان اور سلیس ہے۔حمد کے ذریعہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے بچوں کے ذہن پر یہ بات نقش کردی ہے کہ اللہ تمام عیوب سے پاک ہے اور وہ حق کو پسند کرتا ہے۔ ان کی حمدیں عموماً بہت ہی پیاری ، دلنشیں اور خوبصورت ہوتی ہیں، زبان بھی سادہ اور شیریں ہوتی ہے۔
تو رب جہاں مالکِ کن فکاں

تری شانِ عالی ہو کیوں کر بیاں
مشرق و مغرب شمال و جنوب

ترا نور ہر سمت جلوہ فشاں
یہ جنگل بیابان و صحرا پہاڑ

تری قدرتوں کے ہیں ادنیٰ نشاں
تری نعمتوں کا نہیں کچھ شمار

کہاں تیری نعمت ، کہاں یہ زباں
اسی طرح ہر کتاب میں کئی کئی نعتیں شامل ہیں۔حافظ کرناٹکی کی خواہش ہے کہ بچے حق پر چلیں،حق کا ساتھ دیں اور حق کے ساتھ رہیں۔ ان کا مقصد بچوں کو اسلامی تعلیمات اور عقائد سے آگاہ کرنا اور اسی تناظر میں درس دینا ہے۔ اس لیے ان کی زیادہ تر نظمیں دینیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو نظمیں موضوعاتی طور پر مذہبی نہیں ہیںوہ بھی معنویاتی سطح پر مذہبیات کی خوشبو رکھتی ہیں۔
حافظ کرناٹکی چاہتے ہیں کہ بچے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن ان کی تربیت ا یسے ماحول میںہوکہ وہ اپنے دین وایمان کی تمام باریکیوں سے واقف رہیں۔ اپنے ملّی و ایمانی جذبات کے ساتھ زندہ رہیں، اللہ اور رسولؐ سے محبت رکھیں۔ ان کی عظمت و حرمت کو پہچانیں اور اپنے دین کے ارکان سے واقف ہوجائیں، حافظ کرناٹکی خوب جانتے ہیں کہ بچپن میں جو چیز بچوں کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے وہ مرتے دم تک ساتھ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچوں میںدین وایمان کا جذبہ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیںاور دین کے ارکان اور مذہبی شعار سے بچوں کو واقف کرانے کا جتن کرتے ہیں۔
کفر و ضلالت تھی ہر سو

رہبر بن کر آئے نبیؐ
(نعت)
پانچ فرائض پورے کرنا

ان پر کامل ایماں رکھنا
اوّل فرض ہے کلمہ پڑھنا

دوجا نمازیں قائم کرنا
روزے رکھنا فرض ہے سوّم

چوتھا فرض ، زکوٰۃ ہے دینا
حافظؔ اس کے قابل ہو تو

فرضِ پنجم حج ہے کرنا
(فرائض اسلام)
مان لو میری باتیں بچو

ایماں فرشتوں پر تم رکھو
(فرشتے)
چار ائمہ ، مسلک چار

سب کا عقیدہ ایک سا ہے
(مسلک)
پاکی آدھا ہے ایمان

پیارے نبیؐ کا ہے فرمان
(وضو)
غسل میں کتنے فرض ہیں سمجھو

چپ کیوں ہوگئے بولو بچو
(غسل)
دکھائی دیا چاند رمضان کا

مہینہ ہے بچوں بڑی شان کا
چلو مل کر ہم سب تراویح پڑھیں

یہی تو مہینہ ہے قرآن کا
(رمضان شریف)
دنیا کی تم باتیں چھوڑو

مسجد کیا ہے سمجھو نا
(مسجد)
آئو بچو ہاتھ اٹھائو

فریاد اپنی ، رب کو سنائو
(دعا)
رواج اچھا ہے عام کرنا

سلام کرکے کلام کرنا
(بچو سلام کرو)
جھوٹ سے اس کو نفرت ہے

سچی باتیں کرتا ہے
نیکی اس کی فطرت ہے

اپنے رب سے ڈرتا ہے
(مسلم بچہ)
حافظ صاحب کی شاعری میں بچوں کو اسلامی طور طریقوں سے آگاہ کرنے کا ایک منظم اور معقول نفسیاتی طریقہ موجود ہے۔ خدا کی وحدانیت ، اس کی عظمت کا احساس ، خدا کے بھیجے پیارے نبیؐ سے محبت اور ان کے مرتبہ سے آگاہی ،دین اسلام کے فرائض وارکان سے واقفیت، فرائض اسلام ، فرشتوں کا ذکر، مسلک سے متعلق باتیں،مسلک کے تناظر میں بچوں کو چاروں ائمہ کرام کے نام ، وضو کا طریقہ ، غسل کا طریقہ، اسلام میں پاکی اور صفائی کامقام و مرتبہ ،رمضان شریف کی برکت ، عید منانے ،عید کے دن اپنے دوست احباب اور پڑوسیوں کا خیال رکھنے کی تلقین ، مسجد کے اندر جانے اور باہر آنے کے طریقے، دعا کرنے کے سلیقے ، سلام کرنے کی فضیلت کا درس وغیرہ کو اس طرح موثر انداز میں ذہن نشیں کراتے ہیں کہ اس پرعمل پیرا ہونے والا بچہ یقینا ایک کامل مسلمان بن کر ابھرے گا۔
ان کی نظموں کے موضوعات کا تنوع استعجاب میں ڈال دیتاہے ۔ان کی نظر جس چیز پر پڑتی ہے یا ان کے ذہن میں جس چیز کاتصور پیدا ہوتا ہے یا دل میں کوئی بھی خیال آتا ہے تو دوسرے ہی لمحے وہ شعری پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ انہوں نے زندگی یا اس سے وابستہ کسی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ بجلی، بارش، ہوا، چھتری، غبارہ، چوزہ، گلہری، بتاشے، مکڑی کا گھر، لکڑی کا گھوڑا، میری کتاب،فرائض اسلام ، وضو ، غسل ، مسجد ، فرشتے ،مسلک ،رمضان، روزہ، عید منائیں ،میری اماں، میرے ابا، دادی اماں، نانی اماں، بچے کی تمنا، آئو بچو سیر کریں۔ پکنک، آئس کریم، جھولا جھولیں، پیڑ لگائیں،تارے ، گلاب پھول، تتلی رانی، جگنو، مچھر، چھپکلی ، پانی ، طوطا، کبوتر، مور، کوئل، کوّا، بندر ، ہاتھی، اونٹ، کتا، گھوڑا، بکری، مرغی ، ریل گاڑی، سائیکل، ٹی وی، موٹر، راکٹ، چندا ماما، پتنگ، جوتا، ڈاکیہ، جاڑا، گرمی، آنکھ مچولی،سبزی والا، بھارت دیس ہمارا ، مسلم بچہ، گلاب پھول ، میوے ، سنترے ، ساون آیا ، جھولا جھولیںوغیر وغیرہ۔
حافظ کرناٹکی کی نظموں کے موضوعات پر غور کریںتو محسوس ہوگا کہ ان کا مشاہدہ بہت وسیع ہے۔ وہ اپنے مشاہدہ کی وجہ سے رنگا رنگ موضوعات تلاش لیتے ہیں اور پھر ان موضوعات کو اس طرح منظوم کردیتے ہیں کہ موضوع کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا حق ادا ہوجاتا ہے۔ان عنوانات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حافظ کرناٹکی بچوں کو زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوںسے روشناس کرانا چاہتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی ٹھوس حقائق کے قبول کرنے کا نام ہے۔ جو لوگ مظاہر حق کو نہیں سمجھ پاتے ہیں، وہ باطن کو بھی نہیں پہچان پاتے ہیں۔

نیک اصول سکھائے گی

باجی جیسی اچھی کتاب
(میری کتاب)
امی دادی نانی آئو

ابو ٹور سے آئے ہیں
گھر میں خوشیاں پھیل گئیں

پیارے ابو آئے ہیں
(میرے ابو آئے ہیں )
میرے گھر کی رانی ہے وہ

میری پیاری دادی اماں
(دادی اماں )
رستے نالے ڈوبے ہیں

ساون تیری مایا ہے
نانا کیسے آئیں گے

ہر سو اندھیرا چھایا ہے
(ساون آیا)
جھولا جھولیں آئو نا

شاہد رسّی لائو نا
اچھلو پکڑو ڈالی تم

زاہد رسی باندھو نا
(جھولا جھولیں)
دیہاتوں میں شہروں میں

مل کر باغ لگائیں گے
(پیڑلگائیں گے)
گلشن کا شہزادہ ہوں

پھولوں کا میں راجا ہوں
عزت اس کو ملتی ہے

سر جس کے چڑھ جاتا ہوں
(گلاب پھول)
رنگ برنگے پر ہیں اس کے

چڑیوں کا ہے راجا مور
سر پر تاج نرالا ہے

لگتا ہے کوئی راجا مور
(مور)
بچو! یہ سنترہ ہے

تازہ ہے رس بھرا ہے
پیارا ہے دیکھنے میں

کیا خوب ذائقہ ہے
کتنا حسین تحفہ

رب نے عطا کیا ہے
(سنترہ)
حافظ کرناٹکی کی شاعری میں سلاست ، روانی اور ایک میٹھا تاثرہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ بچوں کی معصومیت ،محبت ، اپنائیت، شرافت ،شوخی اورشرارت کی فطری لہر بھی موجود ہے جونظموں کو موثر بناتی ہے۔حافظ کرناٹکی نے جہاں بچوں کو ’’اماں، ابا، دادی، نانی جیسی نظموں کے ذریعہ رشتوں کا احترام کرنا سکھایا ہے وہیں ان رشتوں سے پھوٹنے والی والہانہ چاہت،محبت اور شفقت کا احساس بھی دلایا ہے، بدلتے حالات کے تناظر میں رشتوں کے اس احساس کو فروغ دینے کا عمل سکھایاہے کیوں کہ آج کے اس مشینی عہد میں مادی کثافت کی تہوں میں دب کر رشتے مسخ ہوتے جارہے ہیں۔
حافظ کرناٹکی کی شاعری فنکارانہ صلاحیت سے زیادہ ملّی دردمندی کے احساس واخلاص کو تقویت بخشتی ہے۔ چوں کہ حافظ کرناٹکی نے ایک پاکیزہ مقصد کے لیے قلم اٹھایا ہے اس لیے ان کی نیت کے خلوص کی خوشبو دلوں میںبس گئی ہے۔ وہ آج کے اس مادی دور میں بچوں کے دل ودماغ میں خدا اور رسولؐ کی محبت و عظمت بٹھا نا چاہتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے بڑھ کردنیا میں کوئی دوسراعلمی و ادبی فریضہ ہوہی نہیں سکتا جو حافظ صاحب انجام دے رہے ہیں۔اللہ ان کے اس سفر کو شاد و آباد رکھے۔

اندھیرے پہاڑوں پہ کالی سی چیونٹی

جو چلتی ہے اس کو بھی تو دیکھتا ہے
سبھی کچھ ہے تیرا تو مالک ہے سب کا

نہیں کوئی معبود تیرے سوا ہے
(حمد)
جلوے ترے نرالے دنیا بنانے والے

بس تو ہی تو رہے گا ، ہم آنے جانے والے
عزت کی زندگی دے ، احساس بندگی دے

دنیا کی ظلمتوں سے ہم کو بچانے والے
اے غمزدوں کا مالک تیرا ہی ہے سہارا

تجھ سے ہی مانگتے ہیں بگڑی بنانے والے
حافظ ہمارا کوئی رب کے سوا نہیں ہے

سنتا وہی ہے سب کی ، ہم ہیں سنانے والے
(حمد)
وہ نبیوں کے سردار پیارے نبیؐ

ہیں امت کے غمخوار پیارے نبیؐ
وہی سب کے پیارے ہیں خیر الوریٰ

ہیں کتنے ملنسار پیارے نبیؐ
ہزاروں درود اور کروڑوں سلام

جہانوں کے انوار پیارے نبیؐ
ملے آب کوثر بدستِ نبیؐ

پلانے کے حقدار پیارے نبیؐ
شفاعت محمد کی حافظؔ ملے

ہیں امت کے غمخوار پیارے نبیؐ

ظلمت تھی ہر جانب چھائی

لے کر رحمت آئے آقاؐ

میں خاک مدینہ کا سرمہ لگائوں

مجھے ایک دن تو مدینہ بلا لے
چلوں راہِ حق پر ہمیشہ خدایا

مجھے سچا عاشق نبیؐ کا بنادے
کبھی سبز گنبد کا منظر میں دیکھوں

مدینے کا مجھ کو نظارہ کرادے

بو ایوب تیری ہے قسمت نرالی

ترے گھر ہی پیارے نبیؐ آرہے ہیں

پہنچ کر نہ لوٹوں یہ حسرت ہے میری

بنے میرا مسکن دیارِ مدینہ
لگائوں میں آنکھوں میں حسرت ہے

ملے کاش مجھ کو غبارِ مدینہ

ان حمدیہ اور نعتیہ نظموں میں کتنی سادگی سے اللہ اور رسول سے محبت کا احساس جگایا گیا ہے۔ حافظ کرناٹکی کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بہت ہلکے پھلکے انداز اوربات چیت کے لہجے میں بچوں کو کام کی باتیں بتا جاتے ہیں یا پھر ان کے دلوں میں جذبۂ ایمان جگا کر اللہ اور رسول سے محبت کا جذبہ پیدا کردیتے ہیں۔
ان کی ایک نظم ہے ’’صفاتِ ایمان‘‘ اس نظم میں حافظ کرناٹکی نے بچوں کو ایمان کے صفات سے آگاہ کیا ہے، ایمان کے صفات کو نظم کے پیرائے میں بیان کرنے کا مقصد غالباً یہ ہے کہ بچے نظم یاد کرنے کے شوق میں ایمان کے ساتوں صفات بھی یاد کرلیںگے۔ اس طرح بچپن میں جو چیز ان کے ذہن پر نقش ہوکر رہ جائے گی وہ تا عمر قائم رہے گی۔ اس نظم کا اندازبیان بڑا سادہ ہے۔ پوری نظم سادگی کی عمدہ مثال ہے۔ البتہ نظم میں کہیں کہیں پرروانی مجروح ہوتی ہے۔

سات صفات پر ایمان لائو

دین کی ساری دولت پائو
مانو رب کی کتابوںکو

ایمان رسولوں پر لے آئو
یوم قیامت برحق جانو

جھوٹی باتوں پہ نہ جائو

ایمان کے صفات از بر کرانے کے بعد حافظ کرناٹکی نے جو نظم پیش کی ہے۔ اس کا عنوان ہے نماز، ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا فرض بھی تو نماز ہی ہے۔ شاید اسی کی مناسبت سے اس نظم کو اس مقام پر رکھا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے بچوں کو نماز کی خوبی سے آگاہ کیاہے۔ اور یہ بھی دلنشیں کرادیا ہے کہ نماز خدا سے ہم کلام ہونے کا ذریعہ ہے۔
خدا سے ملاتی ہے حافظؔ یہی

ہمیشہ پڑھو پنج وقتہ نماز
نماز کے بعد جو نظم ہے اس کا عنوان ہے ’’حج‘‘ یہاں پر روزہ ہونا چاہئے لیکن روزہ پر وہ اپنی پہلی کتاب میں نظم لکھ چکے ہیں اسی لیے یہاں پر اسے نہیں دہرایا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ موضوع کا تکرار بچوں کو بددل کردے۔
ان کی ایک نظم کا عنوان ’’استاد‘‘ ہے ۔ اس نظم کے ذریعہ حافظ کرناٹکی نے بچوں کے دلوں میں علم کی عظمت جگانے کے ساتھ ساتھ استاد کا احترام بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ استاد بچوں کاایسا اتالیق ہوتا ہے جو اسے آئندہ زندگی کی امامت کے لائق بنانے کی حتی المقدور کو شش کرتاہے۔ استاد کے بغیر علم کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ اس لئے حافظ کرناٹکی نے بچوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی عزت کریں۔ ان کی قدر کریں۔ ان کی خدمت کو اپنی خوش بختی جانیں۔

درجہ ان کا اعلیٰ ہے

رتبہ برتر بالا ہے
درس ملا یہ الفت کا

ان سے سب کچھ پایا ہے
چونکہ حافظ کرناٹکی کو اپنی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کا احساس ہر وقت رہتا ہے اس لیے وہ اپنی تخلیقی قوت نمو بھی انہیں احساسات سے حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں کے توسط سے جہاں اور بہت سے کام لیتے ہیں وہیں وہ تہذیبی روایات کی پاکیزگی کا احساس بھی بچوں کے اندر پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ان کی نظموں کی کتابیں چوں کہ لڑکے لڑکیوں سب کے لئے ہے اس لئے وہ ان موضوعات کو بھی منظوم کردیتے ہیں۔ جن سے لڑکیوں کا تعلق ہوتا ہے۔ آج ہمارا سماج و معاشرہ جس قسم کی بے راہ روی اور بے پردگی و اخلاق باختگی کا شکار ہے اس کی مثال ماضی میں ملنی مشکل ہے۔ آج فیشن اور جدید روشن خیالی کے نام پر جس طرح بے پردگی کو فروغ دیا جارہا ہے ا س سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ کوئی شاطر دماغ ہے جو بڑی خوبصورتی سے اسلام کی پردہ نشیں مخدرات کوتجارتی تہذیب میں شامل کرکے انہیں ان کے مخصوص روایات کی پاکیزگی سے محروم کردینا چاہتا ہے۔ حافظ کرناٹکی نے ’’پردہ‘‘ عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ موجودہ صورتحال میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ نظم میں پردہ داری کی خوبصورتی سے تعریف کرتے ہوئے جب مقطع پر پہنچتے ہیں تو اس طرح نتیجہ نکالتے ہیں۔
حافظ اس پر ہوگی رحمت

شرم و حیا جو رکھتی بیٹی
جہاں ایک طرف حافظ کرناٹکی انسانی خصائل کی قباحت سے بچوں کو بچنے کی تلقین کرتے ہیں وہیں وہ بچوں کو ان چیزوں کی طرف بھی راغب کرتے ہیں، جس سے زندگی کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ علم وعمل کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ یہاں پر ان کی چند ایسی نظموں کے ٹکڑے اوراشعار ملاحظہ فرمایئے جو روز مرّہ کا معمول بن گئے ہیں۔ مثلاً قرض لینا، قرض لینا، بعض لوگوں کی عادت بن جاتی ہے۔ قرض مانگنے سے انسان کی غیرت مرجاتی ہے۔ قرض مانگنے سے بہتر یہ ہے کہ آدمی ضرورت کو کم کرے اور قناعت اختیار کرے۔ دیکھیے حافظ کرناٹکی کس سادگی اور خوبصورتی سے بچوں کو قرض کی قباحت سے آگاہ کرتے ہیں۔
مت سمجھو تم قرض کو نعمت

اس میں ہوگی ہر دم ذلّت
سہتے ہو کیوں قرض کی ذلّت

قرض ہے بچّو! ایک نحوست
٭٭٭

قرض کی نوبت عموماً فضول خرچی کی وجہ سے آتی ہے یا پھر ظاہری نمائش کو اپنا نے سے ۔ چوں کہ سماج کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ جن لوگوں کے یہاں جتنی چمک دمک ہوتی ہے وہی معزز سمجھا جاتا ہے اس لئے لوگ اپنی جھوٹی شان بڑھانے کے لئے فضول خرچی پر اتر آتے ہیں۔ حافظ کرناٹکی نے بچوں کو فضول خرچی سے بچنے کی اچھی نصیحت کی ہے۔ نیز فضول خرچی کے مصائب سے بھی آگاہ کردیا ہے۔
بے جا خرچ سے بچ کر رہنا
پیسہ بچا کر کچھ تم رکھنا
(فضول خرچی)
حافظ کرناٹکی کے یہاں زندگی کے تمام موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں، آیئے یہاں نظموں کی چند جھلکیاں دیکھتے چلیں۔ اردو زبان ہند اسلامی تہذیب کا ایسا لسانی پیکر ہے جس میں دونوں تہذیب کارس بھر گیا ہے۔ یہ زبان زبان سے زیادہ تہذیب کی علامت بلکہ خزانہ بن گئی ہے۔ لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ یہ زبان آج اپنے ہی گھر میں بے گھری کا شکارہے۔

کتنی شیریں زبان ہے اردو

ملک کی آن بان ہے اردو
علم میرا ہے ، میری دولت ہے

میں نے سیکھی زبان ہے اردو
کتنے طوفان آئے اور گزرے

واہ کیا سخت جان ہے اردو
(اردو)
میرے وطن میں پھیلے ہیں مذہب کئی مگر

سب کو ملانے آگیا جمہوریہ کا یہ دن
پیغام دے رہا ہے ہمیں شانتی کا یہ

نفرت مٹانے آگیا جمہوریہ کا یہ دن
تن من کا بھینٹ دے کے سنوارا ہے یہ چمن

ہم کو بتانے آگیا جمہوریہ کا یہ دن
(جمہوریہ)
ہے شفاف جھرنوں کی ٹھنڈی فضا

ہے خلد بریں کا نظارہ وطن
نہیں اس سے بڑھ کر حسیں اور کوئی

ہے لوگوں کی آنکھوں کا تارا وطن
دفینے چھپے ہیں کئی خاک میں

بڑا قیمتی ہے یارو ہمارا وطن
(میراوطن)
باغوں کا یہ نگر

پھولوں کا یہ شہر ہے
بنگلور پر ہمیشہ

ہر فرد کی نظر ہے
مفلس امیر سب کی

دیکھو یہاں بسر ہے
(بنگلور)
بن کر تاجر آئے وہ

اپنے وطن پر چھائے وہ
رنگ بدلنے میں تھے ماہر

اپنا رنگ دکھائے وہ
بن گئے حاکم حکمت سے

ہم کو خوب لڑائے وہ
(انگریز)
حافظ کرناٹکی جہاں بچوں کو مذہبی تناظر میں نیک خصلت اور پاک طینت بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہیں وہ اپنی نظموں کے توسط سے بچوں میں حبّ الوطنی کا جذبہ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اپنے ملک کے جمہوری ہونے اور جمہوریت پسند ہونے کا سبق بھی انہیں پڑھاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں ہے۔ وہ بچوں کو اپنے آس پاس رہنے والی تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی روشناس کراتے ہیں۔ ہماری زندگی میں جو رنگارنگی ، چہل پہل، معنویت اور شگفتگی ہے۔ اس میں موسم کے عطا کردہ پھول پھل کے ساتھ ساتھ قدرت کی تخلیق کردہ مخلوقوں کی آوازوں، ان کی حرکتوں اور ان کے وجود کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر اس کے وجود سے یہ دنیا خالی ہوجائے تو یقینا زندگی کا رنگ پھیکا پڑجائے گا۔ اس کی معنویت میں کمی واقع ہوجائے گی۔ کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں مل کر ہی دنیا کو وجود میں لاتی ہیں اس لئے تمام چیزوں کی اہمیت کا احساس لازمی ہے۔
٭٭٭
دودھ ہے اس کا اجلا میٹھا

شام و سحر ہے دیتی گائے
(میری گائے)
ساتھی بنا کر ہاتھی کو

جھومیں گے اور گائیں گے
سن کے پرندوں کی بولی

ہم سارے دہرائیں گے
(چڑیا گھر)
چوہا گھر میں آتا ہے

چین سبھی کا جاتا ہے
گھر میں دیکھو اب اس نے

سب چیزوں کو کترا ہے
(چوہا)
ہاتھ نہ آئے پانی میں وہ

یارو مشکل سے ہے پھنستی
پانی میں رہ کر بھی دیکھو

اس کو نہیں لگتی ہے سردی
(مچھلی)
میں نے پہلے عرض کردیا تھا کہ حافظ کرناٹکی کی تخلیقات کو چھ سات حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ہم ابھی تک ان کی تخلیقات کے پہلے ہی حصے میں سرگرم ہیں، اس حصے کی آخری کتاب ’’بلبلوں کے گیت‘‘ ہے۔ اس کتاب کا لب و لہجہ ، اس کا مواد و موضوع قریب قریب پچھلی کتابوں جیسا ہی ہے۔ البتہ طرز ، اسلوب اور اظہار کے طریقوں اور سلیقوں میں تھوڑا نکھار پیدا ہوا ہے۔ چوں کہ حافظ کرناٹکی ایک زود گو شاعر ہیں اس لئے ان سے یہ توقع رکھنا کہ ان کے یہاں ٹھہرائو آئے گا اور فکر وفن کی باریکیوں پر نظریں گہری پڑیں گی فضول ہے۔ یہ ساری کتابیں ذہنی اکساہٹ وجذباتی و فور کا نتیجہ ہیں، ان کے جذبات و احساسات نے انہیں اس طرح اکسایا کہ وہ ایک ہی سرمیں تین تین کتابیں لکھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام کتابوں میں فنی نزاکت اور تخلیقی وفور سے زیادہ مقصد کی وضاحت اور جذباتی وفور کا سیل رواں موجیں مارتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کتاب میں بھی حمد ونعت کی کثرت ہے۔ رنگ و آہنگ پہلی کتاب جیسا ہی ہے البتہ الفاظ و بیان میں پہلے کی بہ نسبت ہلکی سی ندرت بلکہ روانی آئی ہے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں دوتین لوگوں کی نثری تحریریں بھی شامل ہیں، جنہیں پیش گفتار سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے پہلے والی کتابوں میں بھی پیش گفتار کا اہتمام رہاہو۔ لیکن میرے پیش نظر دونوں کتابوں کے دوسرے ایڈیشن تھے جس کی ابتدا میں نہ تو کسی کی رائے ہے اور نہ کسی کا لکھا ہوا پیش لفظ۔ بہرحال اس کتاب کی ابتدا میں انورمینائی نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
انورمینائی نے جس دلجمعی، خلوص اور سرخوشی سے حافظ کرناٹکی کی فن کاری اور شاعری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حافظ کرناٹکی کی شاعری نے صرف عوام ہی کی نہیں خواص کی توجہ بھی خوب خوب حاصل کرلی ہے۔ ابتدا میں تو بعض بڑے فن کار قسم کے لوگ حافظ کرناٹکی کی شاعری سے متعلق اپنی رائے دینے میں احتیاط سے کام لیتے رہے مگر جب ان کی دونوں کتابیں منظر عام پر آگئیں تو تمام لوگوں نے انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا۔ اس مقام پر انورمینائی صاحب کی تقریظ ملاحظہ کریں۔ جس سے حافظ کرناٹکی کی مقبولیت اور فن کاری دونوں کاپتہ چل جاتاہے۔
بلبلوں کے گیت اسکولوں تلک خود آگئے
گاتے گاتے علم کے مقصد کو بچے پاگئے
’’بلبلوں کے گیت‘‘ یہ مجموعہ بھی سابقہ مجموعوں کی طرح ایک مایہ ناز شاہکار ہے۔ امجدحسین حافظ کے گذشتہ کئی مجموعے بھی درس گاہوں میں قبول عام کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ بیشتر منتخب نظمیں کیسٹوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں، جس کا عملی وسیلہ تدریس کے طور پر درست استعمال ہونے لگا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ:
حافظ صاحب نے بچوں کے لئے نہ صرف کہانی کے انداز میں رواں دواں الفاظ اورتراکیب کے ذریعہ نصیحت آموز باتیں کی ہیں بلکہ موثر پیرائے میں حقیقت کا انکشاف بھی کردیا ہے۔
انورمینائی نے جتنی باتیں حافظ کرناٹکی کی شاعری کی خصوصیت سے متعلق کہی ہیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن ان کا کہنا کہ حافظ صاحب نے تمثیلی انداز میں نصیحت آموز باتیں کہی ہیں، حقیقت سے قریب نہیں محسوس ہوتاہے۔ تمثیلی انداز بیان ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ تمثیل عموماً علامت کی شکل اختیار کرلیتی ہے جسے بچے آسانی سے نہیں سمجھ سکتے جب کہ حافظ کرناٹکی کی شاعری بالکل سادہ ہے۔ اتنی سادہ کے مصرعہ زبان سے ادا ہوتاہے اور بچے مفہوم سمجھ لیتے ہیں۔ بلکہ الفاظ اور مفہوم کا کوئی چکر یا کھڑاگ ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔ جو الفاظ ہوتے ہیں وہی اصل بیان ہوتا ہے۔ خیر یہ جملہ تو معترضہ کے طور پر درمیان میں آگیا تھا۔ مولانا ایوب صاحب نے بڑی سچی باتیں کہی ہیں۔
’’بچوں کو قصے کہانیوں اور گیتوں سے قدرتی لگائو ہوتا ہے۔ آج کی دنیا فحش و نازیبا گانوں سے گونج رہی ہے۔ دیندار والدین اور دین کی فکر رکھنے والے اساتذہ اگر بچوں کو شروع ہی سے دینی اور اسلامی نغمے اوراصلاحی واخلاقی گیت کاماحول دیں تو یہ بچے بڑے ہونے پر اسلامی قدروں کو پہچانیں گے، اوران کے دلوں میں جدّت پسندی اور نت نئی رسومات سے ہٹ کر دین کی محبت ، اللہ و رسولؐ کی اطاعت اور اسلاف کی عظمت پیدا ہوگی۔ قابل مبارکباد ہیں حافظ کرناٹکی جنہوں نے ایسی نظموں کا مجموعہ ترتیب دے دیا ہے۔‘‘
جیسا کہ میں نے بتایا ، اس مجموعۂ کلام میں بھی حمد ونعت کی کثرت ہے۔ اب ذرا حمدیہ اشعار کا رنگ بھی ملاحظہ فرمایئے جو ایمان کی حرارت سے مملو اور روح کی پاکیزگی کے احساس سے معطرہے۔
عجب تیری قدرت ہے پروردگار

نمونے ہیں قدرت کے لیل و نہار
قمر ، کہکشاں ، آفتاب و زمیں

ہیں گردش میں ہردم مکان و مکیں
جو سلطاں کو چاہے بنادے فقیر

فقیروں حقیروں کو شاہ و امیر
بنائی ہے کیا تونے یارب مشین

کہ دانوں کو گلشن بنا دے زمین
کیا لفظ کن سے یہ عالم عیاں

بشر کیسے کر پائے اس کو بیاں
٭٭٭
خدا تو ہمارا نگہبان ہے

تو ہی سب کا حاکم ہے سلطان ہے
ہماری ضرورت تجھے کچھ نہیں

مگر ہم پہ تیرا ہی احسان ہے
زمیں پر جو ہے تیری مخلوق ہے

جو اشرف ہے بے شک وہ انسان ہے
٭٭٭
نہ ہوگا کبھی ختم تیرا بیاں

کوئی چیز تجھ سے نہیں ہے نہاں
یہ شمس و قمر کیا یہ ارض و سما

تری قدرتوں کے ہیں ادنیٰ نشاں
زمیں تا فلک کیا بشر کیا ملک

تو سب میں ہے ، قدرت تری ہے عیاں
تو باطن ہے ، ظاہر ہے ، سب کچھ ہے تو

مگر کس میں دم ہے جو کردے بیاں
٭٭٭
وہ حاجت روا ہے وہ مشکل کشا بھی

اسی نے سفینہ بھنور سے نکالا
٭٭٭
ہر سمت تیری ندرت ہر شئے میں تیری قدرت

کون و مکاں ہیں تیرے تو ہی بنائے قسمت
خلاقِ دوجہاں ہے رزّاق انس وجاں ہے

عالم میں تو ہی افضل ، تجھ کو فنا کہاں ہے
تو لاشریک یارب وحدت ہے تیری فطرت

قیوم نام تیرا ہر سمت تیری شہرت
جن و بشر کے لب پر تیری کہانیاں ہیں

شمس و قمر ستارے تیری نشانیاں ہیں
حافظؔ وہ ذات عالی ہر عیب سے ہے خالی

کیا حمد اس کی لکھوں اس کی صفت نرالی
٭٭٭
حافظ کرناٹکی کی شاعری کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ ان کی شاعری کی برکت سے اردو زبان وادب کے حامل ان رئیس آدمیوں کے بچے بھی اردو پڑھ لیتے ہیں، جنہیں اردو سے نہیں اپنی شہرت و عزت ہی سے سروکار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شمس بدایوں لکھتے ہیں:
’’آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے، اس کی افادیت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میری چھوٹی بیٹی ان کتب کو میری ریڈنگ ٹیبل سے اٹھا کر لے آئی اور کہنے لگی کہ پاپا یہ کتاب تو ہم پڑھیں گے اور ماشاء اللہ سبقاً سبقاً اس نے آپ کی کتاب اپنے استاد سے ختم کرلی، دوسری کتاب کی تدریس جاری ہے۔‘‘
یہی وہ چیز ہے جو حافظ کرناٹکی کی شاعری کو اعتبار بخشتی ہے۔ یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ حافظ کرناٹکی کی شاعری شمس بدایونی جیسے اردو کے فن کاروں کے گھر میں اردو کی بجھتی شمع کو روشن کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے اس لئے اس شاعری کے معیار پر بحث کرنا فضول ہے۔ البتہ اس شاعری کے مقصد پر نظر کریں تو اس کی افادیت آپ کو ضرور قائل کردے گی۔ آج کتنے لوگ ہیں جو اس بات کا اعتراف کریں گے کہ شمس بدایونی صاحب کی یااسی معیار کے کسی دوسرے فن کارو شاعر کی کتاب نے اس کے گھر میں اردو کا چراغ روشن کیا ہو۔ ایسی صورت حال میں حافظ کرناٹکی کی افادیت کو نظر انداز کرنا اردو زبان کے فروغ سے چشم پوشی برتنے جیسا معاملہ ہوگا۔ بیدل ہوشیار پوری نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ :
’’بچوں کے لئے اتنا آسان لکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آپ کا یہ قدم اردوادب میں بے بہا اضافہ کرے گا۔‘‘
اردو ادب میں اگر بے بہا اور انمول اضافہ نہ بھی ہوتو کم از کم اردو زبان کے فروغ کے دائرہ کو ضرور ہی وسیع کرے گا۔ اور اردو پڑھنے والوں کو اپنی تہذیب سے اس طرح آشنا کردے گا کہ وہ آج کی مخلوط تہذیب میں پھنس کر اپنی انفرادی پہچان سے محروم نہیں ہوگا۔
حافظ کرناٹکی کی نعتیہ شاعری بھی ایک خاص قسم کا ذائقہ رکھتی ہے، اس شاعری میں جہاں زبان کا ابتدائی حسن اور سادگی لہریں لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں ایمان و ایقان اورمحبت رسول کا جذبہ بھی پھوٹا پڑرہا ہے۔
٭٭٭
نہیں جن سے افضل کسی کا مقام

انھیں پہ کروڑوں درود و سلام
نبی کا وہ عالی مقام اللہ اللہ

خدا خود ہی بھیجے درود و سلام
پہنچ کر وہ عرش معلّٰی پہ یارو

تمام انبیاء کے بنے تھے امام
چلو سنتوں پر نبی کی ہمیشہ

اسی راہ پر تم بڑھو صبح و شام
نہیں معجزہ کوئی اس سے بڑا

ہے قرآن خود اپنے رب کا پیام
حرم میں کروں میں دعا روز حافظؔ

گزر جائے عمر اپنی یونہی تمام
٭٭٭
رب نے بخشا آپ کو آقا مگر

روزِ قیامت شرفِ شفاعت
٭٭٭
آپ کے زیر پا سدرۃ المنتہیٰ

اے رسول خدا خاتم الانبیاء
٭٭٭
کہوں کیا مدینے کی کیا شان ہے

مرا دل تو آقاؐ پہ قربان ہے
مریضوں کو آکر شفا مل گئی

کہ چہرے کا نور اس کی پہچان ہے
یہاں دل کی ہر اک کلی کھل گئی

یہ خاکِ شفا کا گلستان ہے
زیارت مقدر سے ہوگی یقینا

یہ میرا نہیں سب کا ایمان ہے
٭٭٭
بتائے کوئی مرتبہ کیا نبیؐ کا

کہ عالم ہی سارا ہے صدقہ نبیؐ کا
٭٭٭
فرشتے اترتے ہیں دھرتی پہ اس کی

تو کیوں نہ کہیں ہم مدینے کو جنّت
٭٭٭
ہے مسجد نبیؐ کی حسیں ہیں نظارے

اترتے ہیں دن میں یہاں چاند تارے
تجلّی ہے طیبہ کی گلیوں میں ایسی

چھپے جارہے ہیں یہاں سارے تارے
٭٭٭
مجھے اب کوئی شئے لبھاتی نہیں ہے

میں بیٹھا ہوں دل میں بسائے مدینہ
٭٭٭
مجھے اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں ہے کہ یہ حافظ کرناٹکی کی شاعری کا خصوصی رنگ ہے۔ ابھی ان کی شاعری کا عمومی رنگ اتنا چوکھا نہیں ہوا ہے جو ان کی تمام تر شاعری کو پہاڑی ندی کی روانی میں بدل دے۔ ان کے یہاں مقصدیت کا حاوی شعور عموماً ان کی شاعری کی بے ساختہ روانی کو مجروح کردیتی ہے۔ ایمان وایقان اورمذہبی امور کی حقیقی تبلیغ کا حافظ کرناٹکی کو اتنا شدید خیال رہتا ہے اور وہ ان چیزوں کا اتنا پاس و لحاظ رکھتے ہیں کہ عموماً اپنی شاعری کو گزند تو پہنچالیتے ہیں۔ لیکن اپنے مقصد کی صالحیت پر اور عقیدے کی نزاکت ولطافت پر قطعی کوئی حرف نہیں آنے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نعتیہ شاعری میں عشق نبیؐ کا والہانہ اظہار ہوتا ہے لیکن یہ والہانہ پن بے ساختگی سے بھی ہمکنار ہوسکتا ہے۔ جب شاعر کو عقیدے کی پابندی سے تھوڑا آزادی مل جائے کیوں کہ وارفتگی اور بے ساختگی تمام تر قیود کو کماحقہ قبول کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ لیکن حافظ کرناٹکی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ عقیدے کی درستگی، ایمان کی صالحیت و پختگی ہی ہے۔ اس لئے وہ اس قسم کی شاعری میں بے ساختگی سے زیادہ عقیدے کی پختگی پر توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں کہیں کہیں پر تو روانی ضرور مجروح ہوجاتی ہے مگر ایمان وایقان اور عقیدے پر کوئی حرف نہیں آتا ہے۔ ان کی تمام نظمیں اپنی مقصدی خوبیوں کی وجہ سے ایک خاص پہچان رکھتی ہیں، وہ موضوع کا تعین بھی اس غور وفکر سے کرتے ہیں کہ وہ ان موضوعات کے تحت بچوں کی جانکاری میں اضافہ بھی کردیں۔ اور ان کی ذہنی و فکری تربیت بھی اس طرح ہوجائے کہ اپنی تہذیب کی خوشبو کا احساس دوبالا ہوجائے۔
٭٭٭
چار خلیقہ چار امام

سارے جگ میں ان کا نام
چاروں خلیفہ صبح و شام

کرتے تھے بس دین کا کام
(چار خلیفے)
حافظ کرناٹکی کی دو طویل نظمیں ہیں ’’پرانے اوراق‘‘ اور ’’نئے اوراق‘‘ ان نظموں میں حافظ کرناٹکی نے بڑی خوبصورتی اور سادگی سے پہلے زمانے کی خوبیاں گنوائی ہیں اور آج کی بعض اہم برائیوں کی نشاندہی کی ہے۔ دونوں نظموں میں اچھائی اور برائی کے فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ بچوں کے اندر اچھائیوں ، خوبیوں اور دوسری تمام پسندیدہ صفات کو اپنانے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔
پرانے اوراق
چیزیں جتنی تھیں ساری سستی تھیں

گاہکوں کو یہ خوب جچتی تھیں
لہلہاتے تھے کھیت گائوں میں

ایسی راحت تھی ٹھنڈی چھائوں میں
اپنی فطرت سے لوگ عالی تھے

حرص ، کینہ ، کپٹ سے خالی تھے
٭٭٭
لوگ مشکل میں کام آتے تھے

دوست ، دشمن کو بھی بناتے تھے
لاٹری سے ، جوئے سے نفرت تھی

ایک روٹی میں کتنی برکت تھی
پردہ عورت کا بھی مثالی تھا

دور واقعی وہ جمالی تھا
٭٭٭
طرز مسلم پہ سب ہی مائل تھے

ان کی عظمت کے سب ہی قائل تھے
نئے اوراق
چیزیں مہنگی ہیں نوٹ جعلی ہے

اپنی ہر بات سچ سے خالی ہے
بچہ بچہ نشے میں رہتا ہے

گٹکھا ، زردہ ، وہ سب ہی کھاتا ہے
اچھے لوگوں کی اب نہیں عزت

جھوٹے لوگوں کی ہوگئی شہرت
علم والوں کے رہنما جاہل

جو شرابی تھا بن گیا عامل
٭٭٭
وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی اتنی زبردست ہوتی ہے کے عقیدے ڈگمگا جاتے ہیں۔ رشتے متغائر ہوجاتے ہیں۔ انسانی فکر میں تغیر واقع ہوجاتا ہے۔ فیشن پرستی کے تحت بری باتیں تہذیب کا حصہ بن جاتی ہیں اور تہذیبی روایات کی خوبصورت قدریں مٹ جاتی ہیں۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ انسان کا رشتہ اپنے ملّی سرچشمے سے کمزور ہوتا ہے۔ اس کی تربیت میں اپنی پاکیزہ تہذیب کا رس ٹھیک سے نہیں گھلتا ہے۔ ایسی صورت حال میں جب کہ دنیا پل پل بدل رہی ہے ، تہذیب وشرافت اور ایمان واعتقاد کے معیار متزلزل ہوتے جارہے ہیں۔ بچوں کی ذہنی، فکری اور عملی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ اگر انہیں اپنی تہذیب کی پاکیزگی کا احساس نہیں دلایا گیا ۔ ان کے ذہنوں میں ایمان وایقان کی قندیل نہیں جلائی گئی تو ایک دن پورا نظام معاشرت تجارتی کمپنیوں کے اشتہارات کی دھجی میں بدل جائے گا۔ اور تہذیب واخلاق کا ایک بھی شگوفہ کھل کر مسکرا نہیں سکے گا۔ یہی سب وہ احساسات ہیں، جو حافظ کرناٹکی کی شاعری کو معنویت اور مقصدیت سے ہمکنار کرتے ہیں، نئے اوراق اور پرانے اوراق ہی کی طرح ان کی دو اور نظمیں دلچسپی سے پڑھی جانے کے لائق ہیں۔ ایک نظم کا عنوان ’’پہلے کی شادی‘‘ اور دوسری نظم کا عنوان ’’آج کی شادی‘‘ ہے۔ ان دونوں نظموں میں پہلے زمانے میں ہونے والی شادی اور آج کے اس تاجرانہ زمانے میں ہونے والی شادی کا منظر دکھایا گیاہے۔ چوں کہ رشتوں کا تعلق دل سے ہوتا ہے ا س لئے جو رشتے دل کی سچائی سے قائم کیے جاتے ہیں وہ متبرک ہوتے ہیں، پہلے کی شادیاں اس لئے متبرک ہوتی تھیں کہ پہلے لوگ شادی عبادت کی نیت سے کرتے تھے جب کہ آج کل شادی تجارت اور نمائش کا نمونہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے رشتے مادیت کی زد پر آکر اپنی معنویت کھوتے جارہے ہیں۔ حافظ کرناٹکی ان نظموں کے ذریعہ بچوں میں روایتی قدروں کی تقدیس کا مادہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ زندگی سے متعلق جتنے اور جس قسم کے بھی اعلیٰ اقدار ہماری تہذیب کا حصہ ہیں، وہ بچوں کی زندگی کا حصہ بن کر زندہ رہ جائیں۔
٭٭٭
ان کے سر پہ نہ کوئی سہرا تھا

ہاتھ میں مالا تھی نہ گجرا تھا
نہ جہیز نہ ہی مال و زر لائے

ہوگیا عقد اپنے گھر آئے
ان کی ہر اک ادا نرالی تھی

سب کو دیتے تھے جھولی خالی تھی
شاہ عالمؐ کی وہ جو دختر تھیں

سارے عالم میں سب سے بہتر تھیں
رسم منگنی نہ رسم شادی تھی

اک صدائے نکاح لگادی تھی
(پہلے کی شادی)
اس نظم میں حافظ کرناٹکی صاحب نے صحابی عبدالرحمنؓ کی شادی کا واقعہ بھی رقم کیا ہے کہ کس طرح عبدالرحمنؓ نے شادی کرلی اور حضور کو دعوت بھی نہ دی لیکن عبدالرحمن کا گزر ادھر ہی سے ہوتا تھا جدھر نبی اکرم کا آستانہ تھا۔ حضورؐ جان چکے تھے کہ عبدالرحمن شادی کرچکے ہیں اس لئے آپ نے انہیں مبارکباد اور دعادی۔ حافظ کرناٹکی نے نتیجہ بڑا معنیٰ خیز نکالا ہے۔ یہی کہ حضور اکرمؐ جو تمام اماموں کے امام تھے۔ انہوں نے اس بات کا قطعی برا نہیں مانا اور عبدالرحمنؓ کو خیرو برکت کی دعائیں دیں۔ اس تناظر میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آج کا کوئی بھی فرد جوگائوں، سماج، محلہ، پڑوس یا رشتہ دار میں قدرے اونچا مقام رکھتا ہے اس کو اگر شادی کی دعوت نہ دی جائے تو وہ ہتّھے سے اکھڑ جاتا ہے۔ اور اس بات کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔
٭٭٭
یا خدا یہ زمانہ کیسا ہے

رسمِ شادی بھی ایک سودا ہے
دولہا مسند پہ اپنی بیٹھا تھا

اس کے ہمراہ اک لٹیرا تھا
وہی رشتے لگانے والا تھا

گھر ہزاروں بسانے والا تھا
عورتیں اس قدر تھیں بے پردہ

کوئی محرم ہے نہ کوئی رشتہ
(آج کی شادی)
’’آج کی شادی‘‘ نظم میں حافظ کرناٹکی نے آج کے دور کی تمام برائیوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ تمام باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کردی ہیں کہ آج کل رشتے کس طرح طے ہوتے ہیں۔ دلال کا کمیشن کتنا ہوتا ہے۔ عورتیں شادی میں کس بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کھانے پینے کی محفل میں چہلیں کرتے ہوئے کس کس طرح سے کھانوں میں عیب نکالتی ہیں اور لڑکی کے گھروالوں کی بے عزتی کا سامان کرتی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ شادی دونئے گھر وں کو دو نئے خاندانوں کو ایک خاص طرح کے رشتہ میں باندھنے کا ذریعہ تھی لیکن آج لوگ اس کو اس طرح برت رہے ہیں، اس طرح تجارت میں بدل رہے ہیں کہ دلوں میں گانٹھ پڑجاتی ہے۔ طبیعت مکدّر ہوجاتی ہے اور جن رشتوں کو خلوص ، محبت، ایثار کے سایہ میں پروان چڑھنا چاہیے تھا وہ شیخی خوری اور تکبرکی آگ میں جھلس جاتے ہیں۔ یہ دونوں نظمیں موضوعات اور بیانیہ اسلوب کی وجہ سے کافی دلچسپ ہوگئی ہیں۔ یہ نظمیں اصلاح ِمعاشرہ کی خاطر لکھی گئی ہیں۔ نظموں کا لہجہ بچوں کی معصوم ذہنیت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ اس میں ایک خاص طرح کی جھلاہٹ اور طنز پیدا ہوگئی ہے۔ یہ بچوں کی کتاب میں شاید اس لئے شامل کی گئی ہے کہ بچے کا ذہن ابھی سے شادی کی اچھی بری رسموں کو قبول کرلے گا تو آئندہ بھی اس کا ذہن نہیں بدل سکے گا۔
اس کتاب کی سب سے پُر اثر نظم ’’کیسے عید منائیں ‘‘ ہے ا س نظم میں سوز بھی ہے اور انسانیت اور شرافت کی آواز بھی ہے۔ یہ نظم اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے سچ مچ نظم بن گئی ہے۔ اس نظم میں ایک یتیم بچے کی عید کو دکھایا گیا ہے جو اپنے ابو کو یاد کرکے حسرت ویاس سے عید کی خوشیاں منانے اور نہ منانے کے بیچ اٹک کر رہ گیا ہے۔ ایک بچے کی زبان سے اتنی معصومیت کے ساتھ ابو کے نہ ہونے کا پُر ملال بیان دل کو خون کردیتا ہے۔
امی کیسے عید منائیں
پیسے تو ہیں پر کیا لائیں

خوشیاں کس کے ساتھ منائیں
آج ہمارے ابا ہوتے

ہم بیٹھے نہ ہرگز روتے
عید کے دن ہم یوں نہ سوتے

کس کے ساتھ ہم باہر جائیں
امی کیسے عید منائیں
امی بھی غم سہہ نہ پائیں

ہچکی میں کچھ کہہ نہ پائیں
بول اٹھیں وہ رہ نہ پائیں

کون سنے گا کس کو سنائیں
بیٹے کیسے عید منائیں
بیٹے تم تربت پر جانا

قُل تم چاروں پڑھ کے آنا
ابّا کو پیغام سنانا

آپ کے بِن ہم رہ نہ پائیں
ابّا کیسے عید منائیں
یہ نظم جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا، ماں بیٹے کے درمیان مکالمہ کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ اب تک کی یہ واحد نظم ہے جو اپنی اثر آفرینی اور اظہار بیان کی پر تاثیر سنگینی کی وجہ سے دل میں کھب کررہ جاتی ہے۔ اس نظم میں غم انگیزی کی جو دھیمی دھیمی آنچ ہے وہ ہڈیوں کو سلگا کر آنکھوں کے کٹوروں میں اشکوں کا جام بھر دیتی ہے۔ دل جذبات واحساسات کا ایک ایسا آئینہ بن جاتا ہے کہ اپنا محاسبہ کرنے نیز یتیموں کی عید کو خوشیوں سے بھرنے کا جذبہ دل میں امنڈ پڑتا ہے۔ اگر نظم اپنی خوبیوں کی حامل ہوتو یقینا وہ اپنا رول اس طرح ادا کرے گی جس طرح کوئی پیر کامل کسی کی کایا پلٹنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
شاعری محض کلام موزوں کانام نہیں ہے۔ شاعری میں ایک خاص قسم کی تاثیر ہوتی ہے۔ ایسی تاثیر کہ اگر اسی بات کو کسی اورطرح کہہ دی جائے تو وہ تاثیر کا فور ہوجائے۔ اگر شاعری میں وہ تاثیر پیدا نہیں ہوپاتی ہے توجان لیجے موزوں کلام کچھ بھی ہوسکتا ہے شاعری نہیں ہوسکتا۔ شاعری تو وہ چشمۂ تاثیر ہے جو چٹانوں کے سینے سے بھی پھوٹ کر نکل آتا ہے اور سنگلاخ وادیوں کوسیراب کرکے گل گلزار بنادیتا ہے۔
ان کی اور بھی کئی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلا لالچ کا نتیجہ ، بچپن، علم ، دوستی اور ایسے جیو۔
ایسے جیو ایک نصیحت آموز نظم ہے جس میں شاعر نے بچوں کو زندگی کامیابی سے جینے کے چند اصول بتائے ہیں لیکن اس نظم میں مقصدیت کا رنگ اس قدر حاوی ہے کہ لذت آفرینی کا رنگ پھیکا پڑگیا ہے۔
حافظ کرناٹکی کی مقصدی نظموں کی تعریف کرتے ہوئے عبدالقوی دسنوی نے لکھا ہے کہ :
’’آپ کی نظم کے ذریعے بچوں کو اچھا انسان بنانے کی فکر میرے نزدیک بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ آپ کا یہ عمل دین ودنیا دونوں کے لئے بہت خوب ہے‘‘
لیکن نثاراحمد فاروقی نے حافظ کرناٹکی کی نظم کو زبان کی خدمت کی شکل میں قابل توجہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔
’’ادب اطفال میں آپ غیر معمولی کام کررہے ہیں، یہ صحیح معنوں میں اردو ادب کی خدمت ہے۔‘‘
حافظ کرناٹکی کو بہترے فن کاروں اور دانشوروں نے اردوزبان کی خدمت کے حوالے سے سراہا ہے۔ اظہار اثر لکھتے ہیں۔
’’آپ کی مادری زبان اردو نہیں پھر بھی آپ نے اردو میں بچوں کے لئے آسان زبان استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اپنی اس نیک کوشش میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔‘‘
مظہر امام صاحب نے لکھا ہے۔
’’اردو کے ادب اطفال میںآپ کی کتابوں کا نہایت اہم درجہ ہوگا‘‘
اردو کے مشہور ومعروف مورخ بی شیخ علی نے لکھا ہے کہ
’’واقعی آپ نے ایک کارِ عظیم انجام دیا ہے۔ ایجوکیشن ٹکنالوجی میں ایک انوکھا اضافہ کیا ہے۔ معلومات کے خزانے کو آسان نظم کی صورت میں پیش کرنا آسان کام نہیں۔ ندرت فکر وعمل کو میدان میں لاکر ایک بامقصد، بامعنیٰ ، اخلاقی وتہذیبی رہنمائی کرنا معمولی بات نہیں۔‘‘
ان تمام اقوال پر غور کریں تومعلوم ہوگا کہ تمام لوگ حافظ کرناٹکی کے پر خلوص مقاصد کی تعریف میں بڑے خلوص اور جذبے سے کام لے رہے ہیں مگر نظموں کا یا حافظ کرناٹکی کا شعری مرتبہ متعین کرنے سے پہلوتہی برت جاتے ہیں۔ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ ادب اطفال میںان کا مقام محفوظ نہیں ہے۔ ادب اطفال تو یوں بھی تہی داماںہے۔ اس کا دامن اتنا خالی خالی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ کسی بھی چیز سے کسی بھی طرح سے اس کے دامن کو بھر دیا جائے۔ میرے کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ شاعر وفن کار کو کبھی کبھی مقصدیت سے اوپر اٹھ کر لطافتِ فن ، نزاکت اور ندرت بیان پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مرحلہ رفتہ رفتہ ہی سہی لیکن حافظ کرناٹکی طے کررہے ہیں۔ یہ تینوں کتابیں مل کر حافظ کرناٹکی کی تخلیقی زندگی کے اولین باب کی تکمیل کرتی ہیں۔
جیسا کہ ’’بلبلوں کے گیت‘‘ کی شاعری میں ہم نے دیکھا کہ شعریت کی بو باس رچتی بستی جارہی تھی اس سے امید بندھنے لگی تھی کہ ان کی اگلی کتابوں میں شعری نزاکت و لطافت کے ایسے گل بوٹے کھلیں گے کہ طبیعت باغ وبہار بن جائے گی۔ اورذہنی وفکری پرواز کی سرحدیں وہاں تک پہنچ جائیں گی۔ جہاں رنگ ونور اور خوشبو آپس میں گھل مل کر ایسی قوس وقزح بن جاتے ہیں جو تہذیب نفس کے ساتھ ساتھ تہذیب وتخلیق کو بھی گلہائے صدرنگ سے بھر دیتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ چوں کہ اپنی ان کتابوں کی وجہ سے حافظ کرناٹکی بہت مشہور ہوچکے تھے۔ اس لئے ان سے بہت سارے لوگوں نے بہت ساری امیدیں وابستہ کرلیں اور حافظ کرناٹکی بڑے اخلاص سے ان کی امیدوں کو پورا کرنے میں جٹ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صوبہ کرناٹک میں سروشکشا ابھیان کے تحت چیتنیہ اپنے زوروں پر تھا۔ تعلیم میں ایک خاص قسم کی تحریک پیدا ہوچکی تھی۔ اردو تعلیم اور چیتنیہ تعلیمات کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے خاص طور سے اردو میں موضوعاتی نظموں کا فقدان تھا۔ آنگن واڑی ، چیتنیا ،اور تعلیم بالغاں سے لے کر معلم کی تربیت تک کے شعبۂ تعلیم سے وابستہ تمام دانشور اور بڑے افسروں نے حافظ کرناٹکی سے استدعا کی کہ وہ اس نوعیت اور مواد کی نظمیں جلد سے جلد لکھ کر شائع کرادیں تاکہ وقت کی ایک اہم ضرورت پوری ہوسکے اور تعلیمی سفر کی رفتار بھی تیز ہوسکے۔
حافظ کرناٹکی ویسے بھی زود گوئی میں اپنا جواب نہیں رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے مطلوبہ موضوعات پر بے تکان نظمیں کہتے گئے اور اپنا دو مجموعۂ کلام مرتب کرلیا۔ حالاں کہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام اشاعت کے اعتبار سے چھٹا مجموعۂ کلام ہے۔ مگر وہ بھی اس قسم کی مقصدی وہ بھی عاجلانہ مقصدی شاعری سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ ’’گلشن گلشن شبنم شبنم‘‘ اور ’’زمزمے‘‘ کی پوری شاعری تقریبا سرکاری نصاب کی تکمیل کرتی ہے جب کہ ’’چمکتے ستارے‘‘ کا بھی بیشتر حصہ اس قسم کی شاعری سے مملو ہے۔
ان مجموعہ ہائے کلام کی شاعری کے مطالعہ سے ایک اوربات کا صاف پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ کہ ان کا نکتۂ نظر اسلامی سے زیادہ اشترا کی ہوگیا ہے (اشترا کی سے آپ کمیونسٹ نہ سمجھ لیجئے گا)۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اب ان کی شاعری کا خمیر اٹھتا تو اسلام ہی کی مٹی سے ہے مگر وہ حکومت ، وقت اور عصر کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتے ہیں۔ گویا وہ مان چکے ہیں کہ اگر آج کی دنیا میں قوم کے نونہالوں کو سربلندی عطا کرنی ہے تو اسے ایک محدود دائرہ فکر وعمل سے باہر نکل کر ایک بڑے دائرۂ فکر وعمل کاحصہ بننا پڑے گا۔
یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے مان لیا ہوگا کہ پچھلی تین کتابوں میں بچوں کی اس طرح ذہنی اور فکری تربیت ہوچکی ہے کہ اسلام اور تہذیب طاہرہ اس کی روح کا حصہ بن چکی ہے۔ اب وہ دنیا کے کسی بھی خطّہ اور کسی بھی شعبۂ علم وتہذیب میں چھلانگ لگا کر اپنی ملّی تہذیب کی زمین سے رشتہ مضبوط بنائے رکھ سکتے ہیں اور علم وعمل کاوہ نمونہ پیش کرسکتے ہیں جو دین ودنیا دونوں کی برتری وصالحیت کے لئے مشعل راہ ہوگی اور بات کچھ ایسی ہی ہے۔ جب ان کی چوتھی اور پانچویں کتاب شائع ہوکر منظر عام پر آئی تو اکثر لوگ ان کی طبیعت کی موزونی اور زود گوئی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ کیوں کہ دونوں ہی کتابیں ایک ہی سال یعنی دوچار مہینہ کے وقفہ سے ۲۰۰۳؁ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ وہ بھی ایسی ایسی موضوعاتی نظموں کے ساتھ کہ انہیں منظوم کرنے کا تصور بھی مشکل تھا۔ اور پھر ان کی چھٹی کتاب بھی کچھ ہی مہینوں کے وقفہ کے بعد یعنی جنوری ۲۰۰۴ ؁ء میںمنظر عام پر آگئی۔ حافظ کرناٹکی صاحب نے اپنا تخلیقی حملہ اتنا تواتر سے جاری رکھا کہ بہت سارے لوگوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ تخلقیت خیزی کی وہ سیلانی ندی ہے جس کے بہائو کو کوئی روک نہیں سکتاہے۔ یہ ندی سنگلاخ ٹیلوں کو بھی کاٹ کر آگے نکل جائے گی۔ اور ان زمینوں کو بھی سیراب کرے گی جہاں تک کی رسائی کا تصور ہی اکثر ندیوںکا پانی منجمد کردیتا ہے۔ حافظ کرناٹکی کے یہاں تخلیقی ابال اتنا پُر شور اور پُرزور ہے کہ جتنی شاعری عام لوگ پوری زندگی میں نہیں کرپاتے ہیں اتنی شاعری تو وہ ایک لمبے سفر کے دوران کرلیتے ہیں۔ جب ان کی طبیعت میں جوش پیدا ہوتا ہے تو ان کے قلم کی نوک سے نظموں کا چشمہ پھوٹ نکلتا ہے۔ ان کی طبیعت کی روانی کو بس ایک ذرا اکساہٹ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ادھر ذہن میں اکساہٹ ہوتی ہے ادھر دل میں سیرابی اترنے لگتی ہے اور قلم کاغذ کے بے رنگ وادی کو رنگ برنگ کے پھولوں سے گل گلزار بنانے لگتا ہے۔ ان کی شاعری کی مقصدیت اوران کی طبیعت کی بلاخیز موزونیت کا اعتراف اردو ادب کے اکثر ادباو شعرا نے کیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے مضامین اور تبصرے لکھے ہیں۔ کئی ایک کتاب ترتیب دے چکے ہیں تو کتنے ایسے ہیں جو ان پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں اور کئی ایک تو شروع بھی کرچکے ہیں۔
حافظ کرناٹکی کی مقبولیت ، فعالیت اور ہردلعزیزی کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظموں کا بیشتر حصہ نصاب میں شامل ہوچکا ہے۔ ان کی نظمیں ابتدائی درجات سے لے کر B.Ed.اور D.Edتک کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری سے آج صوبہ کرناٹک کا چپہ چپہ گونج رہا ہے۔ وہ ادب اطفال کے لیجینڈ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، ان کی ادبی شناخت اتنی مستحکم ہوچکی ہے کہ کم ازکم صوبہ کرناٹک کی حدتک کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کی تخلیقیت خیزی میں موضوع ومواد کو سمیٹنے کی ایسی خوبی پنہاں ہے کہ اکثر لوگ تو ان کی نظموں کے موضوعات کو ہی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ انہیں زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مشاہدہ کا اتنا خوبصورت اور گہرا سلیقہ ہے کہ عام لوگ تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ سب سے زیادہ حیرت تو ان کی مصروفیات اور کام کی سرعت کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیاجاچکا ہے، آج امجد حسین حافظ کرناٹکی صوبہ کرناٹک میں اردو زبان کی پہچان بن چکے ہیں۔ وہ بغیر تھکے، بغیر مایوس ہوئے اور بغیر کسی اکتاہٹ کا شکار ہوئے اتنی تیزی اور دلجمعی سے کام کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اکثر لوگوں کو رشک آتا ہے۔ ان میں کام کرنے کی جو صلاحیت ہے وہ یقینا خداداد ہے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم کے بچوں کی تعلیم وتربیت ، دین کی خدمت، اور زبان کی حفاظت کے لئے وقف ہے۔ وہ جہاں تخلیقی سطح پر اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں کو اردوزبان سے جوڑنے کی انتھک محنت کرتے ہیں۔ وہیں وہ نصابی کتابوں کی تیاری میں بھی اپنے آپ کو کھپائے دے رہے ہیں، چوں کہ وہ علمی، ادبی اور سیاسی سطح پر ایک اہم پہچان بنا چکے ہیں اس لئے ان کے کام کا دائرہ کار بھی بڑھتا ہی جارہا ہے لیکن ہم یہاں پر ان کی عملی زندگی کے نشیب وفراز کامرقع پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے ان کی تخلیقی زندگی کا جائزہ لیں گے۔ اور دیکھیں گے کہ اس بسیار نویس مخلص شاعر وانسان کے اندر تخلیقیت خیزی کی کیسی کیسی موجیں اٹھتی ہیں۔ وہ اپنی تخلیقیت خیزی کے دائرہ کار میںزندگی کے کن کن شعبوں کو لاتے ہیں اور اپنے رشحاتِ قلم سے سرسبز وشاداب بناتے ہیں۔ ان کی جب بھی جو بھی کتاب آئی اہلِ فکر ودانش اور اردوزبان وادب سے محبت رکھنے والوں نے اسے سرآنکھوں پر رکھا اور حافظ کرناٹکی صاحب کو خوب دل کھول کر داد دیا۔ میرا خیال ہے کہ ان کی فن کاری، شاعری اور ان کی کتابوں کے موضوعات پر بات آگے بڑھانے سے پہلے بہتر یہ ہوگا کہ ان کی شاعری سے متعلق جس قسم کے تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے ان کی ایک جھلک دیکھ لی جائے۔
’’بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنا کچھ آسان نہیں۔ اچھے اچھے شاعر یہاں دھوکے میں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بچوں کے لئے نظم لکھنا صرف ایک بہانا ہے۔ انہیں خشک موضوعات کی تعلیم دینے کا اور انہیں یہ احساس دلانے کا کہ وہ اخلاقی طور پر نا پختہ اور ذہنی طور پر غیر ترقی یافتہ ہیں۔یعنی بچوں کے لئے شاعری کیا ہے چینی کی گولی ہے جس کے اندر کڑوی دوا بھری ہوئی ہے۔ آپ نے اپنی نظموں میں فنی خوبصورتی اور موضوع کی پاکیزگی کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کام آپ کے ہاتھوں انجام پایا۔‘‘
شمس الرحمن فاروقی
’’ان دنوں بچوں کے نصاب میں بھی بڑی تبدیلیاں ہوگئی ہیں، اب روبوٹ وغیرہ بھی انجانی چیزیں نہیں رہیں۔ دوسری بات یہ کہ جدید دور میں بچوں کی ذہانت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک تو ہر عمر کے بچوں کے لئے شعری سرمایہ تقریباً جدا گانہ ہو۔ دوسرے ان کی دلچسپیوں کے پیش نظر موضوعات اور طرزِ فکر اور طرزِ شعر گوئی بھی الگ ہو۔ تیسرے ان نظموں میں کھلم کھلا تبلیغی حصہ کم اور تفریحی حصہ زیادہ ہو۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ جوبات بتائی بھی جائے وہ اس تفریحی ڈھنگ سے بتائی جائے کہ سبق نہ معلوم ہو۔‘‘
پروفیسر محمد حسن
’’میں نے امجد حسین حافظ کرناٹکی کی دوتازہ مطبوعات ’’گلشن گلشن شبنم شبنم‘‘ اور ’’بلبلوں کے گیت‘‘ کا مطالعہ کیا ہے اور کئی وجہوں سے حددرجہ متاثر ہواہوں۔ اول تو اس لئے کہ آج منظومات لکھنے اور انہیں مجموعے کی شکل میں منظر عام پرلانے کی روش کم ہوگئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ امجد حسین حافظ کرناٹکی کا تعلق ایسے علاقے سے ہے جسے عام طور پر ہم لوگ اپنی غلط فہمی کی بنیاد پر اردو کے مراکز سے دور سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اب یہ تصور قطعی طور پر غلط ثابت ہورہا ہے۔ بلکہ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اب اردو کا قبلہ ثانی وہی علاقے قرار پاتے ہیں۔ خوشی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ جناب امجد حسین حافظ نے موضوعاتی وسعت سے کام لیا ہے اور عہد حاضر کی ماحولیات کا خیال رکھتے ہوئے جناب حافظ نے جو نظمیں لکھی ہیں وہ بحر ووزن اور روانی وسلاست کے اعتبار سے بھی دامنِ دل کھینچتی ہیں۔‘‘
علیم اللہ حالی
’’مختصر وقت میں اتنی ساری اچھی نظمیں کہہ دیں اور کتاب کی صورت میں اردو زبان کو، اردو پڑھنے والے بچوں کو ایک قیمتی تحفہ عطا کیا جس کے لئے آپ شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ البتہ وقت کی کمی کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ کمی رہ گئی ہے۔ بہرحال مجموعی حیثیت سے یہ ایک نہایت مفید مجموعہ ہے۔‘‘
عبدالقوی دسنوی
’’آپ نے بچوں کے لئے بچوں کی زبان میں سادہ وسلیس پیرایۂ اظہار کو اہمیت دی ہے۔ دعا سے گھڑی اور وقت تک بچوں کے لئے تقریباً تمام ہی ممکنہ موضوعات پرنظمیں کہہ دی ہیں۔ ’’گلشن گلشن شبنم شبنم‘‘ اور ’’بلبلوں کے گیت‘‘بھی اہم شعری سرمایہ ہے۔‘‘
افتخار امام صدیقی
’’گلشن گلشن میں آپ نے نظموں کے ذریعہ علم الحساب ، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، کمپیوٹر وغیرہ کے اصول سکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان نظموں کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ کی تصنیفات ایسی ہیں جنہیں ادبِ اطفال کے لئے ایوارڈ سے نوازنا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر کرامت علی کرامت
’’آپ کا کلام ادبِ اطفال میں نیک نامی کا پیغام ہے جس میں اخلاقی، تہذیبی اور ادبی معلومات سے بچوں کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ نوخیزوں کے ذہن ونظر میں قوم وملت کاسکہ جمانے کا ایک بہترین طریقہ تعلیم ہے۔ زبان وبیان میں سلاست ولطافت قابلِ تعریف ہے۔‘‘
ڈاکٹر سید شاہ قدرت اللہ الحسینی الباقوی
’’حافظ صاحب نے بچوں کی شاعری میں ان کی نفسیات کے مطابق ایسی زبان استعمال کی ہے جو بچوں کو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے اور ترسیل کا مسئلہ نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ موضوعات کے انتخاب میں بھی وہ بچوں کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اسلامی اقدار کی آگہی کا سامان بھی فراہم کیا ہے تاکہ بچے اچھے انسان اور نیک مسلمان بن سکیں۔‘‘
عادل اسیر دہلوی
ان تمام اقتباسات جو خطوط ، مضامین اور تبصروں سے لئے گئے ہیںکے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ مجموعی طور پر حافظ کرناٹکی کی شاعری نے قبول عام کی سند حاصل کرلی ہے۔ بیشتر لوگوں نے اس بات کا اعتراف کیاہے کہ بچوں کے لئے لکھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا اس مشکل ترین کام کو حافظ کرناٹکی نے اپنی تخلیقی قوت مندی سے آسان کردیا ہے۔ بچوں کے لئے لکھنا آسان کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں نکلیں تو ایک لمباسفر طے ہوجائے گا۔ اس کے باوجود جو جواب سامنے آئے گا وہ سبھوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے لئے لکھنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دنیا کا ہر فن کار عموماً اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ معصوم ہوتاہے۔ اس کی معصومیت عمر کے ساتھ ساتھ فنا نہیں ہوجاتی ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچوں والی معصومیت ہی فن کار کو اندر سے سرسبز وشاداب رکھتی ہے۔ اس میں تحیرواشتیاق کا جذبہ زندہ رکھتی ہے اور انہیں جذبات کے فیضان سے فن کار اور تخلیق کار تخلیقی سفر جاری رکھتا ہے۔ جن فن کاروں کے اندر کا بچہ فوت ہوجاتا ہے اس کی شاعری اور دوسری تخلیقات کی روح نکل جاتی ہے۔ جس تخلیق میں معصومیت ، تحیّر، اشتیاق، شوخی اور چلبلا پن نہ ہو وہ چاہے جس پایہ کی ہوا سے انسانی ذہن قبول نہیں کرتا ہے۔ تجسس ہی وہ چیز ہوتی ہے جو کسی بھی تحریر وتخلیق کو دلکش و دل پذیر بناتی ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر آدمی بلکہ فن کار وشاعر بچوں کے لئے لکھنا چاہے تو وہ ضرور لکھ سکتا ہے لیکن اس کے لئے اخلاص چاہیے ، انکسار چاہیے، قومی وملّی خدمت کا جذبہ چاہیے۔ عموماً جو لوگ بچوں کے لیے نہیں لکھتے ہیں ان کا مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ ذہنی وفکری طور پر ایسی اعلیٰ سطح پر مقیم ہوتے ہیں کہ وہ بچوں کی فکری سطح تک نہیں آسکتے۔ اصل مسئلہ شہرت کی ہوس اور ثروت کے حرص کاہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معلوم ہوتاہے کہ بچوں کے لئے لکھنے والوں پر لوگ خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے ہیں نہیں تو سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر فن کار وشاعر بچوں کی اعلیٰ فکر اورذہنی سطح تک بھی پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بزعم ہمہ دانی دانشور کہلاتے ہیں۔ عمر بڑھنے سے عقل نہیں بڑھ جاتی ہے۔ ہاں عمر بڑھنے سے تجربہ بڑھ جاتا ہے۔ معصومیت کی جگہ مصلحت آجاتی ہے۔ سچائی کی جگہ ریاکاری پیدا ہوجاتی ہے۔ صاف گوئی کی جگہ پیچیدہ بیانی لے لیتی ہے اور بس یہاں سے شروع ہوتا ہے ذہنی جمناسٹک کا وہ عمل جو سچ میں مصلحت کو شامل کرکے بڑی بڑی زقندیں لگانے کی راہ تو ہموار کردیتا ہے مگر راست حق تک پہنچنے کے راستوں کو مسدود کر دیتا ہے۔ بعض موضوعات ومعاملات ایسے ہوسکتے ہیں جنہیں بچوں کی عمر اور تہذیب ومعاشرت کی روایات کی وجہ سے بچوں کے لئے بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہیں ہوتا ہے جس سے بچوں کو آگاہ کرنا ممکن نہ ہو۔ کیوں کہ بڑے سے بڑے اور دقیق سے دقیق مسائل کو بھی عام فہم اور شیریں زبان میں پیش کیا جاتا ہے تو بچے بعض بڑوں سے زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ لیتے ہیں، اس لئے بچوں کے لئے نہ لکھنے کے عمل کو اس گمراہ کن رویہ سے تعبیر کرنا کہ بچوں کے لئے لکھنا نہایت مشکل ہے درست نہیں معلوم ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے بچوں کے لئے لکھنے کے لئے معصومیت کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ اپنے اندرون میں بسی مصلحت کوشی، ریاکاری وغیرہ کو جھاڑ پونچھ کر باہر نکالنا پڑتا ہے تب ہی جاکر بچوں کے لئے ادب میں کسی تازہ، پر اثر اور دل پذیر تخلیق کا اضافہ ہوتا ہے۔
آج کل بچوں کا ادب ادب لکھنے کی مکتبی تختی بن چکا ہے۔ جو بھی نیا نیا فن کار آتا ہے پہلے بچوں کے لئے لکھتا ہے یعنی لکھنے کی مشق کرتا ہے، جب اسے لکھنے کا ڈھنگ معلوم ہوجاتا ہے تو وہ کسی اور طرف نکل کر اپنے قلم سے گلِ آتش بار کھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ اردو زبان وادب میں جن اصناف کو جتنا زیادہ مشکل سمجھا جاتا ہے یا بتایا جاتا ہے، اردو کے نو مشق قلم کار عموماً انہیں پر طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ اردو کا بیشتر قلم کار بچوں کے ادب یا پھر غزل پر طبع آزمائی کرتا ہے۔ جب اس کے اندر تھوڑی خود اعتمادی آجاتی ہے۔ اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ قلم کی نب سیدھی کرنے کے لائق ہوچکا ہے تو اپنے لئے کوئی اور راہ معین کرلیتا ہے۔ اس طرح معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں تخلیقی میدان ہی سب سے زیادہ دلچسپ اور آسان ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کون سی کشش ہے جولوگوں کو ابتدا میں انہیں تخلیقی میدانوں میں طبع آزمائی کے لئے اکساتی ہے۔
ان تمام معاملات میں سچائی کے ساتھ کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار قسم کی ہشیاری کا بھی عمل دخل ہے۔ میرا خیال ہے کہ احساس ذمہ داری کا یہی رویہ عموماً لوگوں کو کچوکے لگاتا ہے اور وہ اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے ادب اطفال کے نام پر جو کچھ بھی اور جس معیار کا بھی لکھا جاتا ہے اس کی تعریف کرنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔ صنفِ غزل ایک مشکل صنف ہے تو ہم معیاری غزل نہ کہنے والے غزل گو شاعروں کا قافیہ تنگ کرنے سے کبھی نہیں چوکتے ہیں۔ پھر ایسا کیا ہے کہ ہم ادب اطفال کو کاٹھ کباڑ، اناپ شناپ، اکڑبکڑ جیسے ادب پارے سے بھرنے والوں کو بچوں کی طرح ڈپٹ کر نہیں سمجھاتے ہیں اور نہ ان کی گوشمالی ہی کا کوئی انتظام کرتے ہیں۔
بچوں کا ادب یقینا کم مایہ ہے اور پھر اس کے سرمایہ میں ایسی ایسی چیزیں شامل ہوچکی ہیں جو بہت مفید کے ساتھ ساتھ بہت مضر بھی ہیں۔ بچوں کے ادب کا بیشتر حصہ محض تفریح اور تفننِ طبع کے ایسے ایسے تخلیق پاروں سے بھرا پڑا ہے کہ قطعی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ توہم بھوت پریت اور اسی قسم کے واقعات سے مزین ناولوں اور افسانوں کا کیا مقصد ہے یا ہوسکتا ہے۔ کیا محض تصورات اور تحیراتی وتخیلاتی واقعات کو رقم کردینے سے بچوں کا ادب مالامال اور فن لازوال ہوسکتا ہے۔ کیا بچوں کے ادب کے لئے مقصدہی سب کچھ ہے یا فن کی لطافت کی بھی کوئی اہمیت وافادیت ہے۔ مقصدیت اور افادیت کے حامل ادبِ اطفال کا ذائقہ چکھنا ہوتو آپ حافظ کرناٹکی کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے۔
یہ غنیمت ہے کہ اس عہد پُر فتن اور پُر شور میں جب کہ ساری صالح قدریں مٹتی جارہی ہیں حافظ کرناٹکی اپنی تمام تر مقصدی برتری کے ساتھ ادب اطفال کے افق پر نمودار ہوئے۔ اور اس میں نئی زندگی کا احساس پیدا کیا۔ ان کی فکر میں وسعت ہے تو دل میں وہ معصومیت بھی زندہ ہے جو کسی بھی انسان کو انسان بنائے رکھتی ہے۔ یہی معصومیت انہیں بچوں کی شاعری کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور ان کے کلام کو جاذبیت ، تازگی اور دلکشی بخشتی ہے۔ ان کے مزاج میں خوشگواری ، نرمی اور ان کے اندر تحیر واشتیاق کا جو خالص جذبہ ہے وہی ان کی شاعری کی اساس ہے۔
حافظ کرناٹکی نے بچوں کے ادب کو کبھی اپنے لئے کسی قسم کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اس ادب کو مقبول عام بنانے کے لئے اور بچوں کی ذہنی تربیت میں صالحیت کو داخل کرنے کے لئے حتی المقدور اپنے تئیں ذریعہ بنے ہیں۔ صرف اس لئے کہ بچوں کو اچھی چیزیں پڑھنے کو ملیں۔ ان کی ذہنی تربیت اور روحانی غذا کے لئے پاکیزہ چیزوں کا استعمال ہو۔
حافظ کرناٹکی نے شہد کی مکھیوں کی طر ح پھول پھول سے رس چوس کر بچوں کے لئے خالص شہد فراہم کیا ہے۔ ان کی نظموں کے عنوانات کی فہرست پر ایک نظر ڈال لیجئے تو حیرت دامن گیر ہوجائے گی کہ حافظ کرناٹکی کا مشاہدہ کتنا وسیع ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حافظ کرناٹکی کی دوسرے دور کی تینوں کتابیں یعنی ’’گلشن گلشن شبنم شبنم‘‘، ’’زمزمے‘‘ اور ’’چمکتے ستارے‘‘ نصاب تعلیم کی تکمیل کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں اور عجلت میں شائع کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود تینوں کتابیں اپنی افادیت اور مقصدیت کی وجہ سے ادبِ اطفال اور نصاب تعلیم کا گراں مایہ سرمایہ ہیں۔ ’’گلشن گلشن شبنم شبنم‘‘ کی ابتدا میں شعبۂ تعلیم سے متعلق بڑے بڑے افسروں کی تقریظیں شامل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب کو سرکاری سطح پر بھی بے تحاشہ پسند کیا گیا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی نصاب کی تکمیل ہی کے لئے یہ ساری کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔
’’امید ہے کہ سبق کی سرگرمیوں میں یہ نظمیں کار آمد ثابت ہوںگی اور نصابی اسباق میں بہترین رول ادا کریںگی۔‘‘
میر عبداللہ ڈی ڈی پی آئی
’’اس میں قابل لحاظ بات یہ بھی ہے کہ چیتینیا ادب اساتذہ جو موجودہ دور میں تعلیمی بہتری کی نمائندگی کر رہی ہے اس سے متعلق بھی کئی نظمیں ہیں۔‘‘
فیاض احمد ایجوکیشنل آفیسر
’’اس میں تعلیم گاہ سے ملنے والے اسباق چیتینیا ادب ، آنگن واڑی بچوں سے متعلق کئی نظمیں ہیں اور نظم قابل تحسین ہے۔‘‘
سید مرتضیٰ پاشا
’’میں سوچا کرتی تھی کہ کوئی ایسی منظوم کتاب جو چیتینیا کے اسباق سے مطابقت رکھتی ہو دستیاب ہوجائے۔ بحمد اللہ وہ آرزو بھی شرمندہ تعبیر ہوئی۔‘‘
شاہدہ پروین چیتینیا مدبرہ
’’میری دلی تمنا ہے کہ گلشن گلشن شبنم شبنم کو شہرت دوام حاصل ہو اور خصوصاً کرناٹک کے ہر پرائمری مدرسے میں یہ نظمیں پڑھی اور پڑھائی جائیں۔‘‘
ڈاکٹر انور مینائی
’’جس طرح دور ماضی میں بادشاہوں نے کسی چیز کی کمی نہ ہونے کے باوجود شمع ادب فروزاں کیے رکھا بعینہ حضرت مالی فراوانی کے باوجود شمع ادب فروزاں کررہے ہیں۔‘‘
یحیٰ قمر
خود مصنف نے اپنی بات کے تحت لکھا ہے کہ
’’میں نے ذوق الاطفال سے قریب تر ہوکر ان کے افکار وخیالات کو پاکیزہ رکھنے کے لئے خامہ فرسائی کی ہے تاکہ مستقبل میں یہ نونہالانِ قوم صالح اور مصلح کی حیثیت سے ابھریں۔‘‘
اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے بلکہ پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ کتابیں مقصدی ادب کا خزینہ ہیں۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جو ادبِ اطفال کے ساتھ ساتھ تعلیم ِاطفال کے لئے بھی بے حد مفید اور مقصدیت کی حامل ہیں، یہ ساری کتابیں اگر چہ نصابی ضرورتوں کی تکمیل کرتی ہیں لیکن حافظ کرناٹکی اپنے بنیادی مسلک یعنی ملّی جذبات کے فروغ کی کوشش سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں ان کتابوں میں بھی حمد ونعت اور دعا کا رنگ وہی ہے جو پہلے کی کتابوں میں تھا۔ البتہ فکری معیار تھوڑا سا بلند ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(دعا)
پروردگار عالم تیرا ہی آسرا ہے

مجھ کو بنا دے عالم میری یہ التجا ہے
فکر و نظر کو میری دے وسعتیں ہمیشہ

علم و ہنر سکھا دے تو ہی مرا خدا ہے
(نعت)
دل سے نقوش کفر مٹائے رسولؐ نے

کانٹے اگے تھے پھول کھلائے رسولؐ نے
انگلی کے اک اشارے سے مہتاب شق ہوا

کیا کیا نہ اپنے جلوے دکھائے رسولؐ نے
بوجہل بدنصیب تھا ، کلمہ نہ پڑھ سکا

کیا کیا سبق جہاں کو پڑھائے رسولؐ نے
سارا جہاں مہکتا ہے خوشیوں سے آج تک

گلشن وہ پُر بہار لگائے رسولؐ نے
٭٭٭
حقیقت ، صداقت بتاتا ہے قرآں

ہدایت کا رستہ دکھاتا ہے قرآں
ہے فرمانِ آقاؐ ، وہ ہے سب سے بہتر

جو دنیا میں پڑھتا پڑھاتاہے قرآں
پڑھے حرف اک تو ملے نیکیاں دس

کہ جنت کی جانب بلاتا ہے قرآں
جو سینے سے ہر دم لگاتا ہے بچو

بلندی پہ اس کو چڑھاتا ہے قرآں
فرشتے اترتے ہیں رمضاں میں ہر سو

مساجد میں حافظ سناتا ہے قرآں
٭٭٭
شاعری کے ان شذرات سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے کی نسبت حافظ کرناٹکی کی زبان میں زیادہ شستگی آئی ہے۔ نظموں میں اثر آفرینی کا اضافہ ہوا ہے۔ جذبات کے ابال میں ایک خاص طرح کی متانت پیدا ہوئی ہے۔
کتابیں پڑھنے سے علم نہیں حاصل ہوجاتا ہے اورنہ ڈگریاں لے لینے سے کوئی عالم ہوجاتا ہے۔ علم بھی خدا کی دین ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں نبیؐ آئے۔ تمام نبیوں نے دین الٰہی کی تبلیغ کی۔ تمام نبیوں نے لمبی لمبی عمریں پائیں لیکن اللہ کا دین پوری طرح نہیں پھیل سکا۔ کئی نبیوں کی قوموں کو عذاب الٰہی کا شکار ہونا پڑا۔ لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمر پانے کے باوجود ساری دنیا میں اللہ کے دین کی روشنی پھیلا دی۔ زمین کے گوشے گوشے کو ایمان کی خوشبو سے معطر کردیا۔ یہی وہ بات ہے جو نعت کو موثر بناتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو واضح کرتی ہے۔ قرآن دنیا کی پاکیزہ ترین کتاب ہے کہ اس کے ایک ایک حرف کی قرأت سے دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ یہ ساری باتیں بچوں کے ذہن میں نظم کے توسط سے اس خوبی اور برجستگی سے بٹھائی گئی ہے کہ یقینا بچے اپنی عمر میں قرآن پڑھنے کا اہتمام کریںگے اور دین و دنیا دونوں کی فلاح حاصل کریں گے۔ ’’صبح ہورہی ہے‘‘ حافظ کرناٹکی کی ایک خوبصورت نظم ہے۔ یہ نظم اپنے عنوان کے مطابق ایک کامیاب اور شاعرانہ نظم ہے۔ اس نظم میں جہاں تک مقصدیت کی بات ہے تو وہ بھی پوری ہوجاتی ہے اور شعریت اور شاعرانہ بیان کا وقار بھی قائم رہتا ہے۔ بچوں کو صبح اٹھنے کے فوائد بتائے گئے ہیں۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ حافظ کرناٹکی اس نظم میں صبح کا منظر روشن کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ نظم کا آہنگ اور اس کے الفاظ و بیان میں وہ تاثیر پیدا ہوگئی ہے کہ نظم پڑھتے ہوئے صبح ہونے کا منظر ذہن کے پردے پر اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ باد صبح گاہی سے وجود میں شادابی کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔
٭٭٭
مساجد میں گونجی اذاں پیاری پیاری

تو مندر میں گھنٹہ بجایا پجاری
٭٭٭
گلستاں میں دیکھو چٹختی ہیں کلیاں

نشیمن میں کیسے چہکتی ہیں چڑیاں
چلیں پانی لینے کو اب ناریاں ہیں

کہیں اڑتی بھٹی سے چنگاریاں ہیں
یہ بچے جو اسکول کو جا رہے ہیں

ترانے مسرت کے خود گا رہے ہیں
ہوئی صبح آیا ہے اخبار والا

دہی دودھ مسکہ ہے لایا گوالا
یہ موتی ہیں یا کوئی شبنم کے قطرے

یہ کرنوں سے دیکھو ، ہیں کیسے چمکتے
بلاتا ہے ملاح کو اب سمندر

چلا ہے کوئی دیکھئے سوئے دفتر
خدا دے گا بے حد ، کرو پہلے حرکت

اٹھو صبح دم تو ملے خیر و برکت
نہ سُستی کرو پیارے اب جاگ جائو

اٹھو اٹھ کے ورزش کرو باغ جائو
سنو اس کو یہ غیب کی اک صدا ہے

کہ سورج چڑھے سونا حافظؔ برا ہے
٭٭٭
حافظ کرناٹکی بڑی خوبصورتی سے ہلکی پھلکی دلنشیں نظموں میں بچوں کے اندر رشتو ںکا احترام ، اس کا پیار اور اس کی قدر ومنزلت کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ آج کی بدلتی ہوئی تہذیبی روایات کے مناظر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ آج کی اس دنیا میں رشتوں کاتقدس اور اس کا احترام بری طرح پامال ہوچکا ہے۔ مغربی فیشن کے تحت ہندوستان اور دوسرے ممالک میں بھی اب والدین اولڈ ہائوس Old Houseمیں رکھنے والی کوئی ازکارر فتہ چیز ہوگئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں رشتوں کے تقدس کی بحالی کی کوشش ایک بڑی بات ہے۔ ان کی نظم ’’ماں‘‘ کا یہ حصہ ملاحظہ فرمایئے۔
فرض ہے ہم پر ان کی خدمت

ان سے قائم دوزخ جنت
خوش خوش ان کو جس نے رکھا

رب کو راضی کرنا سیکھا
کرتا ہے جو ان کی اطاعت

پاتا ہے وہ جگ میں راحت
ہے رحمت ماں باپ کا سایہ

خوش بختوں نے ان کو پایا
حافظؔ نے لی ماں کی دعائیں

ٹل گئی ان کی ساری بلائیں
٭٭٭
عموماًہوتا یہ ہے کہ ابو یا کوئی بھی گھر کے بڑے گھر میں جب بچوں کو مرغوب چیزیں لاکر دیتے ہیں توبچے آپس میں لڑنے لگتے ہیں یا پھر اپنے حصے سے زیادہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال کو حافظؔ کرناٹکی صاحب نے اپنی نظم ’’میرے ابّا گنّا لائے‘‘ میں دکھایا ہے۔ نظم کی خاص بات یہ ہے کہ نظم فطرت کے عین مطابق لگتی ہے۔ نظم پڑھتے ہی اپنا بچپن یاد آجاتا ہے اور ایک بھرے پرے گھر کا احساس دل میں جاگ اٹھتا ہے جہاں محبت کرنے والے ابّا ہوتے ہیں تو ناز اٹھانے والی امّی بھی ہوتی ہے جو اپنی محبت اور شفقت سے تمام بھائی بہنوں میںپیار کا احساس پیدا کرتی ہے۔
اک دن ابّا گنّا لائے

ہم سب بھاگے بھاگے آئے
بوذر بھاگا بھاگا آیا

مجھ کو دے دو کہتا آیا
دور سے منّی بھی چلّائی

ابا ابا میں بھی آئی
مجھ کو دے دو سارا گنّا

میں نہ لوں گی آدھا گنّا
بیچ میں پیاری امّی آئیں

پیار سے سب کو وہ سمجھائیں
بانٹ کے کھاتے ہیں جو بچّے

ہوتے ہیں وہ سب سے اچھّے
بولی امّی یوں نہ لڑنا

دیکھو سب مل جل کر رہنا
٭٭٭
حافظ کرناٹکی کی تمام نظمیں بچوں کو کوئی نہ کوئی درس دیتی ہیں۔ ایسا درس جو اس کی سیرت کی تعمیر میں مدد پہنچاتی ہے۔ بچے اگر ابتدا میں ایسی معقول تربیت پاجائیں تو یقینا وہ مستقبل میں ایک باوقار انسان کی حیثیت سے اپنی پہچان بنالیں گے۔ ان کی بعض نظموں کے ٹکڑے ملاحظہ فرمائیں۔
٭٭٭
چوراہے پر ہے جو ہلچل

دیکھو وہاں ہے اک کانسٹبل
سڑکوں کے قانون پڑھو تم

سمجھو ان کو اور چلو تم
(ٹریفک کانسٹبل)
صفائی جو رکھے وہ انسان ہے

صفائی نہ رکھے وہ حیوان ہے
صفائی سے جیون میں آئے بہار

صفائی سے ہر شئے پہ آئے نکھار
غلاظت سے پھیلی ہیں بیماریاں

وبا سے لٹی ہیں کئی بستیاں
صفائی سے غفلت نہ کرنا کبھی

ہٹائو جی مکڑی کا جالا ابھی
صفائی سنو! نصف ایمان ہے

یہ آقاؐئے مدنی کا فرمان ہے
(صفائی)
ورزش سے جو کترائے گا

بے شک یارو پچھتائے گا
ورزش سے دکھ دور ہوئے ہیں

حافظؔ جی مسرور ہوئے ہیں
(ورزش)
آجا پیارے جہل مٹائیں

گھر گھر علم کی شمع جلائیں
بچو کھیلو ناچو گائو

چیتنیا سے اب جڑ جائو
٭٭٭
جلنے لگا ہے ملک جو نفرت کی آگ میں

الفت سے آج اس کو بچانا ہے دوستو
اپنے وطن کو علم و ہنر کے کمال سے

آگے بہت ہی آگے بڑھانا ہے دوستو
٭٭٭
آئو بچو ہاتھ اٹھائو

اوپر سے پھر نیچے لائو
آئو ہم سب مل کر جھومیں

ناچیں گائیں کھیلیں کودیں
اجلی فضا میں ہم لہرائیں

ٹھنڈی ہوا میں اڑ اڑ جائیں
بیٹھو اٹھو اٹھ کر بیٹھو

دائیں بائیں مڑ کر دیکھو
سب مل کر اب تالی بجائو

حافظؔ گیت خوشی کے گائو
(گیت)
طفلگی میں کام لینا ظلم ہے سب سے بڑا

ظلم ایسا ان پر ہرگز تم نہ ڈھائو دوستو
(مزدوری سے اسکول)
ہندوستان کے کچھ علاقوں میں ممکن ہے کہ ماہِ جون گرمیوں کی چھٹی کا مہینہ ہو مگر صوبہ کرناٹک میں گرمی کی چھٹی اپریل ہی میں ہوجاتی ہے اور جون کے مہینہ سے تعلیمی سال کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس تعلیمی ہلچل اور سرخوشی کے مہینہ کی حافظ کرناٹکی نے کس خوبصورتی سے عکاسی کی ہے:
٭٭٭
ماہ جون ہے پھر سے آیا

کتنی خوشیاں ساتھ ہے لایا
بچوں میں پھر ذوق بڑھا ہے

علم و ادب کا شوق بڑھا ہے
بچوں میں اب دھوم مچی ہے

جیسے کوئی بزم سجی ہے
٭٭٭
آپ نے غور فرمایا ان تمام نظموں کے ذریعہ حافظ کرناٹکی بچوں کو کوئی نہ کوئی اچھی عادت ڈالنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کھیل کھیل میں کبھی ورزش کرنے کا سلیقہ بتاتے ہیں تو کبھی صاف ستھرا رہنے کے فوائد سمجھاتے ہیں۔ کبھی سڑکوں پر چلنے کے اصول وضوابط سے آگاہ کرتے ہیں تو کبھی ملک میں چلنے والی منافرت کی ہوا کا رخ موڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
چوں کہ یہ کتابیں نصابی ضرورت کی تکمیل کے پیش نظر لکھی گئی ہیں اس لئے ان میں نصابی نظموں کا ہی بازار گرم ہے۔ حافظ کرناٹکی کی موزوں طبیعت کا یہ بہت بڑا کمال ہے کہ انہوں نے ان موضوعات کو بھی منظوم کردیا ہے جس کے بارے میں روایتی قسم کے شاعر سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
٭٭٭
ہم ہیں بندے یارب نیک

تو ہی دینے والا ایک
چھ دن کام کے ہیں بابا

ساتواں دن ہے چھٹی کا
عشرے کے دن ہیں کل دس

حافظؔ گنتی یہاں تک بس
(گنتی)
میں تو نفی کی ضد ہوں ، جمع ہے مرا اصول

مجھ سے ہے تیرا فائدہ ہرگز مجھے نہ بھول
٭٭٭
جمع حسابوں کی رونق ہے

چہرہ بچوں کا کیوں فق ہے
(جمع)
میں ہوں جمع کی ضد یہ ذرا جان لیجیے

آڑی لکیر دیکھ کے پہچان لیجیے
جس نے کیا تھا مجھ کو جمع جوڑ جوڑ کر

اس کو صفر پہ لائی ہوں میں توڑ توڑ کر
قارون سے جو مانگی گئی تھی کبھی زکوٰۃ

اس نے نفی کے خوف سے مانی نہیں تھی بات
(تفریق)
جانو ضرب ہے چیز کیا ، کیسا ہے یہ حساب

دو کو ضرب دو چھ سے ، پھر دیکھ لو جواب
پرواز ایسی جیسے بلندی عقاب کی

اس میں چھپی ہے بچو حقیقت سراب کی
(ضرب)
استادِ ریاضی سے ملی مجھ کو یہ تعلیم

جو بانٹے کسی شئے کو اسے کہتے ہیں تقسیم
اک ٹیڑھے سے خط کے جو مقابل ہوں دو نقطے

تقسیمی علامت ہے وہ ، یہ جان لو بیٹے
(تقسیم)
چھوٹا سا ہے مگر یہ کرشمہ تو دیکھئے

لمحوں میں کل جہاں کو دکھاتا ہے یہ گلوب
گھنٹہ میں گھومتی ہے زمیں اک ہزار میل

گردش میں ہے جہان دکھاتا ہے یہ گلوب
(گلوب)
بات یہ اب گھر گھر کی ہے

دنیا کمپیوٹر کی ہے
(کمپیوٹر)
ہوائوں کے کاندھے پہ ہو کے سوار

کیا کھاڑی دریا کو منٹوں میں پار
(ہوائی جہاز)
آپ نے ملاحظہ فرمایا یہ ایسے موضوعات ہیں جن کوعموماً شاعر منظوم کر نے کی بات بھی نہیں سوچتے ہیں۔ یہ سارے موضوعات خشک اور بے رس سمجھے جاتے ہیں۔ ان موضوعات کومنظوم کرنا وہ بھی اس خوبصورتی اور سادگی کے ساتھ بس حافظ کرناٹکی کے حوصلے اور اخلاص کی بات ہے۔
ادبِ اطفال کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی توحافظ کرناٹکی کی ان خدمات کا اعتراف کھلے دل سے کیا جائے گا۔ اوران کی اولیت کوسرنامہ کے طور پر رقم کیا جائے گا۔ ایسے ہی فن کاروں کی خدمت سے ادب مالا مال اور اس کا مقام عالمی ادب کے تناظر میں لازوال ہوتا ہے۔ کسی بھی زبان میں ایسے ادیب اور شاعر معدودے چند ہی ہوتے ہیں جو اپنی محنت ، لگن اور فن کارانہ خلوص کے ساتھ اپنے ادب کو مالامال اور خود کو لازوال بناپاتے ہیں۔ یقینا حافظ کرناٹکی ان معدودے چند شاعروں میں سے ایک ہیں جن پر زبان وادب کو فخر ہے۔ حافظ کرناٹکی نے اپنی طبع آزمائی سے اردو زبان وادب کو اتنا مالا مال کردیا ہے کہ اب کوئی اس پر شکایتی نظر ڈالنے کی جرأت بھی نہیں کرسکے گا کہ اس میں فلاں موضوع کی کمی رہ گئی ہے۔ ابھی جو موضوعات باقی بچ گئے ہیں اور جس کی طرف لوگوں کا ذہن بھی نہیں جارہا ہے۔ عام فن کار و شاعر جس کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے ہیں بہت ممکن ہے کہ حافظ کرناٹکی ان موضات پر بھی نظمیں لکھ چکے ہوں بس اس کے شائع ہوکر منظر عام پر آنے بھر کی دیر ہو۔ قوم کے زندہ اور حساس لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کی نظر حال سے لے کر ماضی اور مستقبل تک محیط ہوتی ہے۔ اور مجھے کہنے دیجئے کہ ایسے ہی فنکاروں کی جگر سوزی زبان وادب کے ایوان اور ملک و قوم کے دشت و بیابان کو اپنے علم کی نورانیت سے روشن کرتی ہے اور اسے اقوام عالم کے درمیان سراٹھا کر جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ سرحدوں پر سپاہی جاگتے ہیں تو ہم اپنے گھروں میں آرام کی نیند سوتے ہیں۔ دانشور اسی طرح اپنا لہو چراغوں میں جلاتے ہیں تو ہمیں علم و آگہی کا نور ملتا ہے اور ہم علم ودانش کی روشنی میں مسکراتے ہیں۔ جو قوم اپنے ایسے مخلص فن کاروں اور قوم وملت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کی قدر نہیں کرتی ہے وہ اپنی بے وقعتی کا خود ہی سامان فراہم کرتی ہے۔
تعلیم وتعلم سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام موضوعات پر حافظ کرناٹکی نے نظمیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں۔
٭٭٭
کاغذ قلم ہے سامنے منظر بنایئے

کچھ کھینچئے خطوط کوئی گھر بنایئے
بادل سفید ، نیلے فلک پر دکھایئے

کچھ ان کے نیچے قدرتی منظر بنایئے
(مصوری)
بچوں کا تھا ٹھیلم ٹھیل

سوچا ہوگا کوئی کھیل
انجن ڈبوں کا تھا میل

چھک چھک چھک چھک نکلی ریل
دیکھ کے انجن سگنل لال

دھیمی کر لیتا ہے چال
شور میں تھا پوشیدہ راز

ہندو مسلم کی آواز
یعنی دونوں سے ہے ریل

ورنہ دونوں ہوں گے فیل
(ریل کے ذریعہ اتحاد کی تعلیم)
شوکت نہرو کیا آزاد

وہ نہ کرتے تھے وی واد
(قومی یکجہتی)
گاندھی بن یا جے پرکاش

چھولے اڑ کے تو آکاش
آزادی کا نام اگر لو

ٹیپو سلطان کو مت بھولو
تھے اپنی فطرت سے سچے

دو تھے ، بی اماں کے بچے
حافظؔ دنیا میں ہو چرچا

کوئی جوہرؔ سا ہو پیدا
(محمد علی جوہر)
ہر طرف جہل کا اندھیرا تھا

سید ایسے میں اک سویرا تھا
(سرسید احمد خان)
دو اکتوبر کون بھلائے

جگ میں اپنے گاندھی آئے
(گاندھی جی)

وہ جو تھے بابائے اردو

ان کے قلم میں تھا جادو
اردو کا وہ دم بھرتے تھے

اس پر جیتے اور مرتے تھے
(مولوی عبدالحق)
نظموں کے ان ٹکڑوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بچوں کو جہاں سائنس، مذہب، ریاضی، کمپیوٹر اور دوسری چیزوں کی تعلیم دی ہے۔ وہیں انہوں نے بچوں کے دل و دماغ میں اپنے وطن کی محبت اور اپنے رہنمائوں کی عظمت کا احساس بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جولوگ حافظ کرناٹکی کو محض مذہبی دائروں میں چکر لگانے والا شاعر سمجھتے ہیں وہ سخت نادانی کے شکار ہیں۔ حافظ کرناٹکی نے بچوں کے اندر وہ تمام صفات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ایک انسان سچ مچ انسان بنتا ہے اور اپنی انسانیت سے ملک وملّت اور قوم وسماج کا سربلند کرتا ہے۔ بچوں میں جب اچھائی کے جذبات بیدار ہوجاتے ہیں تو وہ پھر کبھی نہیں مرتے ہیں۔ سماج ومعاشرہ کے مزاج کے مطابق بچے اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن تعلیم گاہوں میں ان کی ذہنی تربیت جس طرح ہوتی ہے اس کا اثر تمام عمر قائم رہتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ حافظؔ کرناٹکی کی نظمیں یا کتابیں فنی خامیوں سے بالکل پاک ہیں۔ ان کی نظموں میں جہاں فنی تسامحات اور لسانی وزبانی تناقصات کے معاملے دیکھنے کو مل جاتے ہیںوہیں ان کی کتابوں میں کہیں کہیں شعریت کی کمی اور لطفِ زبان کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔ ان کی نظموں میں غالباً لطافت کے مجروح ہونے کا سبب مقصدیت وافادیت پر قوت صرف کرنا ہے۔ چوں کہ حافظ کرناٹکی جب نظم لکھنے بیٹھتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ محض شاعری کررہے ہیں۔ الفاظ و خیالات کے ریشمی دھاگوں کے گولے لڑھکارہے ہیں یا تصورات وتخیلات کی حسین وادیوں میں لطف و انبساط کے غبارے اڑا رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کی تہذیب کا خاکہ پیش کررہے ہیں یا لفظوں میں احساسات وجذبات کا جادو جگا رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں بس ایک بات پوری طرح واضح ہوتی ہے اور وہ بات ہوتی ہے بچوں کی بہترتعلیم وتربیت اور ان کی جان کاری میں اضافہ ، ان کے اخلاق کی درستگی، ان کی سیرت کی تعمیر۔ دراصل حافظ کرناٹکی کا افادی اور اخلاقی جذبہ اتنا زبردست اور پر خلوص ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں درآئی آہنگ کی لڑکھڑاہٹ اور شعریت کی کمی بھی اس میں چھپ کر رہ جاتی ہے۔ یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ شاعر اپنے اخلاص کی اس بلندی پر پہنچ جائے جہاں سے بعض تناقصات بھی محاسن میں تبدیل ہوجائے ۔ یا پردۂ اخفا میں چلا جائے۔
ہمارے یہاں ادبِ اطفال میں بیشتر شاعر ایسے ہیں یا ہوئے ہیں جن کی نظمیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں۔ الفاظ بڑے رس دار ہوتے ہیں۔ روانی کا سیل مسطح زمین سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جب نظم کے باطن میں اترتے ہیں، اس کے مقصد کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا ہے۔ اس کے برخلاف حافظ کرناٹکی کی اگر کوئی نظم ذرا کھردری بھی لگتی ہے تو اس کے باطن سے مقصدیت اور افادیت کا ایسا میٹھا چشمہ پھوٹ نکلتا ہے کہ منہ کا بگڑا ہوا ذائقہ بھی کامیابی و کامرانی کے رس سے بھر جاتا ہے۔ یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ ان کی کتابوں کو حکومت کے ذمہ دار افرادوں نے نہ صرف یہ کہ سراہا بلکہ اس کے بیشتر حصے کو نصاب میں بھی شامل کرلیا۔ ان کی کتاب ’’زمزمے‘‘ جب اشاعت کے مرحلے سے گزر کر منصہ شہود پر آئی تو اس کی رسمِ اجرا اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایس ایم کرشنا نے بخوشی ادا کی۔ یہ کتاب بھی سرکاری تعلیمی نصاب کی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے ترتیب دی گئی تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ اس کتاب میں شاعری یا شعریت نہیں ہے۔ ٹھیک ہے کہ اس کا بیشتر حصہ افادیت کا حامل ہے لیکن اس کلام میں شعریت اور لطافت بھی جلوہ گر ہے۔ ذرا شعریت ، رعنائی اورآہنگ کے آمیزہ کی حامل نظموں کے یہ ٹکڑے ملاحظہ فرمایئے۔
٭٭٭
سبق ہم کو انسانیت کا پڑھا دے

تعصُّب ہمارے دلوں سے مٹا دے
کہا اپنے ماں باپ کا مانیں ہر دم

کبھی بھی نہ ہوں ان کے غصّے پہ برہم
رہے مجھ پہ تادیر ان کا بھی سایہ

جنھوں نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا
٭٭٭
اس کتاب کی اشاعت پر شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں نے حافظ کرناٹکی کومبارک باد دی۔ لیکن جب یہ کتاب ادبی حلقوں میں داخل ہوئی تو ارباب ذوق نے بھی دل کھول کر اس کا استقبال کیا اور حافظ کرناٹکی کے شاعرانہ کمالات کو سراہا۔
حافظ کرناٹکی نے اپنی نظموں کے توسط سے بچوں کو اصناف ادب سے بھی روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ بھی اس خوبی سے کہ شعریت کا ذائقہ بھی پوری طرح فنا نہیں ہوا ہے اور مقصد بھی پورا ہوگیا ہے۔
شاعری کی دو صنفیں ہیں نظم و غزل

اردو میں ان کی شہرت ہے بچّو اٹل
وہ مخمس ہو یا ہو مسدس کوئی

یہ بھی اک شکل ہے نظم پابند کی
(نظم کیا ہے)
اس نظم میں حافظ کرناٹکی نے پابند، معریٰ، آزاد اور نثری نظم کے علاوہ مخمس اور مسدس نظموں سے بھی بچوں کو آگاہ کیا ہے اور بعض نظم کے بڑے شاعروں کا نام بھی بتایاہے۔
٭٭٭
ہے غزل میں زندگی سے گفتگو

کہتے ہیں اردو کی ہے یہ آبرو
میر و غالب کی غزل مشہور ہے

اس میں عشق و فلسفہ کا نور ہے
(غزل کیا ہے)
لو سنو مجھ سے تم آج قطعے کا حال

اس میں ہوتا ہے بس اک مرکزی خیال
(قطعہ کیا ہے)
ربع سے ہے رباعی میاں لو سنو

چار مصرعوں کو تم اس کے پہچان لو
اس کا ہر وزن مخصوص ہے دوستو

قطع سے ہے رباعی الگ جان لو
(رباعی کیا ہے)
لفظوں کی شان و شوکت ملے گی یہاں

باوقار اس کا ہوتا ہے بچو بیاں
ہے قصیدے میں سودا کا مشہور نام

روحِ سودا کو حافظؔ ہمارا سلام
(قصیدہ کیا ہے)
لفظ اثنا سے یہ جو میاں ہے بنی

دو کے معنیٰ کو ظاہر کرے مثنوی
خوب عربی میں اور فارسی میںچلی

آکے اردو میں بھی خوب پھولی پھلی
موزوں پائی گئی داستاں کے لئے

یہ مناسب ہے نظمِ رواں کے لئے
سیدھی سادی ہے جو مثنوی کی زباں

میر حسن کی ہے مشہور سحرالبیاں
مثنوی کے بھی مخصوص اوزان ہیں

جو غزل کی طرح بچّو آسان ہیں
(مثنوی کیا ہے)
جل اٹھے یوں خیال و نظر کے دیے

شاعروں نے لکھے کتنے ہی مرثیے
(مرثیہ کیا ہے)
آپ نے ملاحظہ فرمایا زبان وادب کے فروغ اور اس کو مقبول عام بنانے کے لئے حافظ کرناٹکی جس قسم کی محنت اور لگن سے بچوں کو اصنافِ ادب سے متعارف کرا رہے ہیں کیا وہ بھلائے جانے کے لائق ہے؟
ان نظموں کے علاوہ بھی ان کی نظمیںایسے ایسے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹتی ہیں کہ مسرت انگیز حیرت دامن گیر ہوجاتی ہے مثلاً ان کی ایک نظم ہے ’’بینک‘‘ میرا خیال ہے کہ حافظ کرناٹکی سے پہلے کسی شاعر کے ذہن میں اس قسم کے موضوعات نے سر نہیں ابھارا ہوگا۔
کھاتہ بینک میں کھولو تم

بینک کے ساتھی ہو لو تم
بچّو سیونگ کرنا تم

پچھتانے سے بچنا تم
آج چوں کہ ہمارا سماج بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اس لئے اس کی ضرورت اور جینے کا ڈھنگ بھی بدلتا جارہا ہے۔ آج سب کچھ یا تو بینک کی نجی کاری میں جارہا ہے یا پرائیویٹ کمپنیوں کی اجارہ داری میں۔ ایسی صورتحال میں بچوں میں یا طالب علموں میں بینک کاری کا احساس دلانا بڑی اہم بات ہے۔ ان کی کچھ نظموں کے ٹکڑے اور اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ہے یہ عدالت قریے کی

صدر ہیں اس کے مکھیا جی
ہر جھگڑے کو دور ہٹائو

امن کا ضامن اسکو بنائو
(پنچایت گھر)

بڑے سیدھے سادے ہیں دیہات والے

ہیں بچو وہ پاکیزہ جذبات والے
یہاں ہر طرف کچے پکے مکاں ہیں

مویشی بھی کھیتوں کی جانب رواں ہیں
(دیہات)
عجیب اس کی شان ہے

یہ ہند کا کسان ہے
وطن کی اس سے شان ہے

سبھوں کا اس سے مان ہے
ہے محنت اس کی آبرو

مہان ہے مہان ہے
یہ ہند کا کسان ہے
(کسان)
جب گائوں اور کسان کا ذکر ہوتا ہے تو اس کی مناسبت سے ہندی آمیز الفاظ ان کی شاعری میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اجنبی یا کھر درے ہیں۔ حقیقت کا بیان اخلاص کے ساتھ ہوتو الفاظ اسی طرح جذبات میں گھل مل کر شیروشکر ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے نصابی ضرورت کے تحت جتنی بھی نظمیں لکھی ہیں وہ بھی بڑے کام کی اور معلومات میں اضافہ کرنے والی ہیں۔
٭٭٭
اوس بنتی ہے بچّو برستی نہیں

دن کے جلوے میں کچھ اس کی ہستی نہیں
رات میں جب رطوبت زیادہ بڑھے

تو دھرتی پہ شبنم کی چادر بچھے
(شبنم)
تم نے قطب تارا جو دیکھا

اس کو کہتے ہیں دھرو تارا
قطب شمالی اس کا ٹھکانا

نہیں بدلتا مقام یہ اپنا
(قطب تارا)
سورج میں مادے کی حالت پلازمہ ہے

پوچھو یہ آج ہم سے کیسی ہے اور کیا ہے
ہاں گیس سے زیادہ ہلکی پلازمہ ہے

بچّو یہ تیز گرمی کی خود ہی رہنما ہے
سورج کی روشنی سے بنتا ہے بھاپ پانی

لیتی ہے جنم بچّو! بادل کی پھر کہانی
(سورج)
کہکشائیں دو بڑی ہیں کرلو بچّو ان کو یاد

دودھیا پٹی بڑی ہے اینڈرو دومیڈا کے بعد
دودھیا پٹی میں اک ملین ستارے پائو گے

اینڈرو میڈا میں بھی لاکھوں نظارے پائو گے
کہکشاں کے فاصلے لمبے بہت ہیں جان لو

ناپتے ہیں ان کو نوری سال میں بچو سنو
(کہکشاں)
یہ فیکٹری میں وزن اٹھاتا ہے لوہے کا

یہ ڈائنمو میں دیتا ہے حرکت کا خود پتا
دھرتی کو میگنٹ کا اک روپ جانیے

ہم کو یہ جکڑے رکھتی ہے یہ بات مانیے
(مقناطیس)
ہند دریائوں کا ملک ہے دوستو

حسنِ قدرت کا تم اس کو مسکن کہو
(ہمارے دریا)
ہے دریائوں کا ایک سنگم سمندر

لبھاتا ہے دن کو بہت اس کا منظر
سمندر پہ سورج کی ہے مہربانی

سمندر نے چادر ہے بادل کی تانی
(سمندر)

المادة السابقة
المقالة القادمة
spot_imgspot_img
%d bloggers like this: