spot_img

ذات صلة

جمع

 افسانچے

 

 

 

محمدیوسف رحیم بیدری ، بیدر ،کرناٹک۔ موبائل

:9141815923

۱۔ خالی ہاتھ
وہ بھاگابھاگااسکے پاس پہنچا۔ بڑبڑا تابھی جارہاتھا۔ ’’کہاں ہو بھائی نظر ہی نہیں آتے ؟ ہماری گلی آنا چھوڑ دیاکیا؟‘‘
اس نے اپنی ٹووہیلر پوری طرح روک دی اور آنے والے سے کہا’’کچھ نہیں آیاہے صاحب ، سب کچھ Empty ہے ‘‘ آنے والے کاجوش یکایک سرد ہوکر رہ گیا۔ لیکن اس کے دوسرے ہی پل آنکھیں حلقوں سے باہر نکل آئیں۔ وہ چیخنے لگاتھا’’ تم بھی اس کے ساتھی ہو، میرے ساتھ خطرناک کھیل کھیلاجارہاہے۔ میں جھکوںگانہیں۔ میں اس کے ہر ظلم کوگوارا کروں گااور ۔۔۔۔‘‘ اس نے چہرا جھکاکر دھیمے لہجہ میں کہا ’’اسکے مکتوب کاانتظار کروں گا‘‘ دور کہیں کوئی ہلکے سروں میں اکرم نقاش کی غزل گنگنا رہاتھا ؎
آج پھر برہم ہوئے
ڈاکیے پر ڈاک پر

۲۔ الیکٹرال بانڈ
الیکٹرال بانڈ کاقصہ پورے ملک میں جاری وساری تھا۔ کروڑوں ، ار بوں روپئے بانڈ کی شکل میں سیاسی پارٹیوں کودئے گئے تھے۔ کون سی پارٹی نے کتناچندا اس بانڈ کے توسط سے وصول کیاتھا ، یہ سامنے آنا باقی تھا۔ سپریم کورٹ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کوحکم دے رہی تھی کہ تمام کے تمام الیکٹرال بانڈ کی اطلاعات عدالت میں جمع کردی جائے ۔
ملک کاایک عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ ’’الیکٹرال بانڈ‘‘بھی کوئی چیز ہوگی۔سابق میں’’ فورٹی پرسنٹ پے سی ایم ‘‘ محدود پیمانے پربحث کاموضوع بناتھالیکن الیکٹرال بانڈ بچہ بچہ کی زبان پر تھا لیکن صوفی ایاز کے لئے اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ دلچسپی اسلئے نہیں تھی کہ صوفی ایاز کو رقم ، پیسہ ، دولت ، ذخیرہ اندوزی ، رقم وصولی ، رشوت ، چندااور کمائی وغیرہ سے کوڑی بھی لینا دینانہیں تھا۔
مگر پورا ملک الیکٹرال بانڈ کادرست قصہ جانناچاہتاتھالہٰذا اس میں مصروف تھا اورشاید تنہا صوفی ایاز ہی ایسا شخص تھاجو سوچ رہاتھاکہ میں نے جو’’اُخروی بانڈ‘‘ داخل کیاہے ، کیاوہ رب کے ہاں کل کلاں کو قبول ہوگا؟

۳۔ اونلی اڈمن
بلاوجہ بہت زیادہ تکلیف تھی، بے ضرر اردو صحافیوںسے جو ،اردو اساتذہ کے کچے چٹھے اپنے اخبارات میں شائع نہیں کرتے تھے۔اردو اساتذہ کی فاش غلطیوں پرانھیں کبھی ٹوکا ٹاکابھی نہیں تھا۔
ان کے ’’بی سی اوٹا‘‘ میں غبن کے قصے بیان نہیں کئے تھے۔پڑھائی چھوڑ کر اسکول کے باہر اساتذہ کے گھومنے گھامنے کو ان بے ضرراردو صحافیوں نے نظر انداز ہی کیاتھا۔
اس کے باوجود بھی اردو اساتذہ کی ملک گیر تنظیم کی مقامی شاخ نے اردو صحافیوں کو واٹس ایپ گروپ سے بے وجہ نکال پھینکنے کی کوشش کی ۔ جب کسی بھی طرح نکالا جانا ممکن نہ ہوسکاتو اپناگروپ اونلی اڈمن بناکر رکھ دیا۔سناہے تب سے اُس گروپ میں دھول اڑرہی ہے۔

۴۔ گلی ونگر
عشق درد اور تکلیف سے عبارت تھا۔ عاشق اورمعشوق نے عشق کی مریدی چھوڑ دی ۔ اوراپنے اپنے راستے ہولئے ۔ کسی نے کیاخوب کہاہے ؎
ایک گلی سنسان ہوئی
ایک نگر اندھیارا ہے (اکرم نقاش)

۵۔ ملک کامستقبل
انتخابات کا بگل بج چکاتھا۔ اور سبھی پر اپنی اپنی انا غالب آتی جارہی تھی۔ امیدوار بھی جھکنے تیار نہیں تھااور ووٹر یہ سمجھنے سے قاصر تھاکہ اس کااور ملک کابہی خواہ کون ہے؟چند سرپھرے وہ تھے جو اپنے ، اپنے خاندان اور ملک کے انجام سے بے خبر سانڈ اور گینڈا بنے پھررہے تھے۔
نرمی مفقود تھی۔ ہر طرف ہم جیت رہے ہیں کانعرہ بلند ہواکرتاتھا۔ جب نتائج آئے تو پتہ چلاکہ جیتنے والے جیت گئے لیکن سوال یہ تھاکہ اب ملک کاکیاہوگا؟
تصویر منسلک ہے

spot_imgspot_img
%d bloggers like this: