گوجرقوم خواب غفلت میں مبتلا،انتظامیہ خاموش تماشائی
محمدعامرکھٹانہ ،جموں
رابطہ نمبر۔9622512673
حال ہی میں سوشل میڈیاپروائرل ہوئی ویڈیوجس میںگوجربکروال ہوسٹل ڈوڈہ میں طلباء کومرغابناکرایک ٹیچر پٹائی کرتاہواصاف دکھائی دیتاہے اوران طلباکاجرم صرف اتناہے کہ ہوسٹل کے زیرتعلیم طلبانے اپنے حقوق کیلئے آوازبلندکی اوریہ مانگ کی کہ ان کیلئے حکومت کی طرف سے جومراعات وسہولیات دی جارہی ہیں انہیں ان تک پہنچایاجائے لیکن ہوسٹل انتظامیہ نے انہیں سہولیات مہیاکرانے کے بجائے اپنے حقوق کیلئے آوازبلندکرنے والے طلباء کوہی تشددکانشانہ بناڈالا ۔یہ ویڈیویہ پیغام دیتی ہے کہ گوجربکروال ہوسٹلوں میں زیرتعلیم غریب طلباء کوسہولیات مہیانہیں کی جاتی ہیں اوربڑے پیمانے پرہوسٹلوں کیلئے آنے والی رقومات خردبردہوتی ہیں۔ویڈیووائرل ہونے کے بعدچائلڈپروٹیکشن ٹیم نے حرکت میں آکرمعاملہ گوجربکروال مشاورتی بورڈکے نوٹس میں لایاجس کے بعدبورڈکے عہدیداران نے بچوں کی مارپیٹ کرنے والے ٹیچرکومعطل کرنے کے احکامات جاری کئے جوکہ خوش آئندقدم ہے ۔ڈوڈہ ہوسٹل کامعاملہ گوجرقوم کوغفلت کی گہری نیندسے جاگ کرہوسٹلوں میں زیرتعلیم طلباء کی طرف معقول توجہ کرنے کی دعوت فکربھی دیتی ہے ۔گوجرہوسٹلوں کی خستہ حالی کی بات جب چل ہی نکلی ہے توجمو ں کے گوجربکروال بوائزاورگرلزہوسٹلوں کی صورتحال سے متعلق چندسطوردرج کرنے کی جسارت کررہاہوں تاکہ گوجربکروال مشاورتی بورڈاوروزارت قبائلی امورکے اعلیٰ حکام ہوسٹلوں کی بدانتظامی دورکرنے کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات اٹھاسکیں۔ 1975 میں عیدگاہ روڈپرقائم ہواگوجربکروال بوائز ہوسٹل جموں ایک ایسامرکزہے جہاں پرگوجربکرقوم کے 125 بچے بیک وقت زیرتعلیم ہیں۔ہوسٹل ہذا عیدگاہ روڈ پرواقع ہے تاہم 1975ء سے آج تک ہوسٹل ہذاسے پڑھ کرفارغ ہونے والے طلباء کی بڑی کھیپ آج سرکاری ملازمت حاصل کرچکی ہے اوربیشترسابق طلباریاستی حکومت کے مختلف محکموں میں اہم عہدوں پرتعینات ہوکرخدمات انجام دے رہے ہیں۔گوجربکروال بوائزہوسٹل جموں میں آج تک قوم کے ہزاروں غریب وپسماندہ علاقوں کے بچوں نے تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کوروشن بنایایہ باعث فخربات ہے ۔یہاں سے تعلیم حاصل کرچکے طلباکی زندگی خوشحال ہونے کی ایک بڑی وجہ اس ہوسٹل کے گزشتہ دورکانظم ونسق تھاجواب مفقودہے ۔اگریہ کہاجائے کہ ماضی میں یہ ہوسٹل گوجربکروال قوم کے بچوں کیلئے ایک مثالی ہوسٹل تھالیکن یہ ہوسٹل نہایت ہی روبہ زوال ہے ۔جب تک یہ ہوسٹل صرف غریب بچوں اورجموں ضلع کے طلباء تک محدود تھاتب اس کی حالت کافی بہترتھی لیکن آج بدقسمتی سے یہ ہوسٹل زوال کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف رواں ہے ۔جس ہوسٹل سے کبھی قوم کے غریب بچے ڈاکٹریاانجینئر ،یااورکوئی دیگراعلیٰ افسربن کرنکلتے تھے لیکن آج اُسی ہوسٹل کے بچوں کامستقبل دائوپرہے۔آخرایساکیوں؟کیوں کہ جہاں غریب بچوںکوتعلیم دینے کی بات تھی آج اُسی جگہ پرسفارشات کی بناپرامیربچوں کوداخلہ دیاجارہاہے ۔جہاں پرجموں ضلع کے غریب بچوں کی بات تھی آج وہی جگہ ضلع کے باہرکے بچوں کیلئے استعمال کی جارہی ہے اورجموں کے بچوں کے حقوق پرڈاکہ ڈالاجارہاہے ۔یہاں پرایک سوال ذہن میں آتاہے کہ آخرایساکیاہوگیاکہ پچھلے پانچ سال سے ہوسٹل سے کوئی بچہ ڈاکٹریاکوئی اچھا طالب علم نہ نکل سکا۔کیااس میں کہیں ہوسٹل کے انتظامیہ کی چوک تونہیں؟کیااآج وہ سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں جوپہلے کی جاتی رہیں؟ کیاوہ آج نظامِ تعلیم نہیں رہاجوپہلے بچوں کودستیاب تھا؟۔آج توگورنمنٹ بھی کئی طرح کے وسائل پیداکررہی ہے لیکن کیافائدہ اُن وسائل کاجو کام نہ آسکیں۔پچھلے پانچ سالوں سے نہ تواتنے اچھے نتائج آئے ہیں جوپہلے اس ہوسٹل سے آیاکرتے تھے۔یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ آخرکارہوسٹل ایک مثبت منزل کی طرف کیوں نہیں بڑھ رہا؟ ۔لیکن بدقسمتی سے ہوسٹل کی انتظامیہ کی طرف سے کوئی جوابدہی نہیں دی جارہی ۔نہ ہی ہوسٹل کے وارڈن کی طرف سے کوئی والدین کی میٹنگ کرائی جارہی ہے نہ ہی والدین کوانکے بچوں کے بارے میں آگاہ کیاجاتاہے ۔کیامہینے میں ایک بار والدین کوانکے بچوں کے بارے میں آگاہ نہیں کیاجاسکتاہے ؟۔
حکومت کی عدم توجہی بھی اہم مسئلہ ہے۔جوسہولیات حکومت کی جانب سے کاغذوں میں بتائی جاتی ہے وہ زمینی سطح پرہے یانہیں ؟اس پرغورکرنے کی ضرورت ہے۔سرکاری خزانوں سے لاکھوں روپے نکلتے ہیں۔کیاوہ مناسب ڈھنگ سے صرف ہورہے ہیں یانہیں؟کیامقصدیت فوت ہورہی ہے یاخاطرخواہ نتائج برآمدہورہے ہیں۔خاص کران چیزوں پردھیان دینے کی ضرورت ہے۔جوبچے غریب ہیں لیکن ہوسٹل میں داخلہ نہیں لے سکتے ۔کیا اُن بچوں کی نشاندہی نہیں ہونی چاہیئے ؟ کیا ہرروزبچوں کوگردے (کشمیری روٹی )وہ بھی کم امکان ہوتاہے کہ تازہ ہونگے یانہیں؟۔شاید کوئی ڈاکٹرصاحب اس بارے میں بتاسکے کہ روزگرداصحت پرکیااثرات مرتب کرسکتاہے ۔اورنہ ہی ایسی ادویات ہوسٹل میں دستیاب ہیں جوغریب بچوں کوانکے علاج کے لیے فراہم کی جاسکیں۔اکثربچوں کواپنے علاج کے لیے باہرسے ادویات لانی پڑتی ہیں۔ہوسٹل کی عمارت کھنڈربن چکی ہے ۔کوئی بھی شیشہ ،دروازہ سلامت نہیں رہاہے۔یہاں تک کے بچوں کوعمارت میں رہنے سے ڈرلگتاہے ۔گیٹ کے ساتھ Waiting Room میں ایک ٹوٹی ہوئی کرسی رکھی جاتی ہے ۔کمرہ کوڑا بن چکاہے ۔یہاں یہ بات بھی بتادوں کہ گوجربکروال گرلزہوسٹل جموں کی حالت بھی بالکل بوائزہوسٹل کی طرح ہی ہے یااس سے بدترہے۔گرلزہوسٹل کے ویٹنگ روم میں نہ توکوئی پنکھاہے اورنہ ہی کوئی کرسی۔ایک کرسی ہے جوپرانے طرزکی پلاسٹک کی رسیوں سے بنی گئی ہے اورجہاں کرسی پربیٹھاجاتاہے وہ حصہ یعنی وہ پلاسٹک کی رسیاں اس میں ہیں ہی نہیں ۔رمضان کے مہینے میں جب والدین اپنی بچیوں سے ملنے جاتے تھے تووہ آدھاگھنٹے تک کھڑے ہوکربچیوں سے ملاقات کرنے پرمجبورہوتے تھے ،ساتھ ہی بچیوں کودودوماہ کے بعدصابن کی ایک ٹکی دی جاتی ہے ۔سال میں ایک یادورجسٹروں (کاپیوں) کے علاوہ نہیں دیئے جاتے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔بات ہورہی تھی بوائزہوسٹل جموں کی تواس کے ویٹنگ روم میں پنکھاتک نہیں ہے۔والدین کوبچوں سے کھڑے ہوکرملناپڑتاہے ۔ رمضان کے مہینے میں بھی کرسیاں دستیاب نہیں کرائی جاتی ہیں۔ہوسٹل کی لائبریری میں بہت سی کتابیں دستیاب نہیں ہیں جواکثربچوں کوپڑھنے کیلئے ضروری ہوتی ہیں ۔غریب بچے کو کاپیاں تک باہرسے لانی پڑتی ہیں۔بڑی جماعتوں کے بچوں کوٹیوشن کی کوئی سہولت میسرنہیں کی جاتی ۔یہاں تک کے بچے ہوسٹل سے باہرجاکر اپنی تعلیم جاری رکھتے ہیں۔نان میڈیکل اورمیڈیکل کے بچوں کوایک Subjectکی ٹیوشن فیس باہرقریباً بیس ہزار ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی ایسااستادنہیں ہے جوسب یہ کرسکے ۔ہوسٹل میں کمپیوٹرلیب توہے لیکن صرف ملازمین کے سونے کے لیے ۔آج تک کسی بچے کوکمپیوٹرنہیں سکھایاگیا۔ ہوسٹل کے ملازمین کوسفارش کی بناپرلگایاگیاہے اوروہ اپناغنڈا راج غریب بچوں پرچلاتے ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ عرصہ دس دس سالوں سے گوجربکروال ہوسٹل بوائزاورگرلزجموں میں تعینات وارڈن من مانیاں چل رہے ہیں۔
ہرسال سات سے آٹھ بچوں کوبلاوجہ نکال دیاجاتاہے اورسفارشی بچوں کوہوسٹل میں داخلہ دیاجاتا ہے ۔وارڈن کی ہرسال یہ کوشش رہتی ہے کہ آٹھویںاوردسویں سے زیادہ سے زیادہ بچے فیل ہوں کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نئے بچے داخل کرسکے۔چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے بچے چھوٹے ہوتے ہیں ان کااستحصال کیاجارہاہے ۔یہی حال گوجربکروال گرلزہوسٹل کاہے ۔ایک وارڈن کاعرصہ صرف دوسال ہوتاہے لیکن جموں کے بوائزاورگرلزہوسٹلوں میں پچھلے دس دس سال سے ایک ہی وارڈن ہیں ۔جموں میں ایسی کوئی قیادت نہیں ۔ایسی کوئی تنظیم نہیں جواس سب کیلئے کام کرے ۔سب اپنے سیاسی مفاد کے لیے کام کرتے ہیں ۔آخراثرورسوخ والے افسروں سے کون سوال کرے؟ ۔حکومت سے پرزوراپیل کرتاہوں کہ وہ گوجربکروال بوائزاورگرلزہوسٹلوں کی حالت سدھارنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے اوراگرایسانہیں کیاگیاتوغریب عوام احتجاج کاراستہ اختیارکرنے پرمجبورہوجائے گی۔