spot_img

ذات صلة

جمع

"لمحوں کی دھول” از رباب عائشہ

۰۰۰
تبصرہ نگار : پروفیسر خالدہ پروین
۰۰۰
انسان کا ظاہر اس کے باطن کا عکاس جبکہ تحریر شخصیت کی آئنہ دار ہوتی ہے۔ اصناف میں افسانہ، ناول، مضامین سفر نامہ اور اسلوب میں مدلل، سنجیدہ اور فکاہیہ انداز انسان کی اسی باطنی شخصیت، سوچ وفکر کے عکاس ہوتے ہیں۔ نسلوں کا رکھ رکھاؤ اور خاندانی مزاج اور لب ولہجہ انسان کے روزمرہ میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
آج زندگی کا کوئی شعبہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جہاں خواتین مصروفِ کار نظر نہ آتی ہوں لیکن آج سے پانچ یا چھے دہائیاں پہلے صورتحال مختلف تھی۔ تعلیم یافتہ خواتین خال خال دکھائی دیتی تھیں۔ تعلیم وتدریس اور طب کے علاوہ تمام شعبہ جات صنفِ آہن کے لیے مخصوص تھے۔ ایسے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے شعبہ صحافت کے پرخار راستے پر کسی خاتون کا قدم رکھنا معمولی بات نہ تھی۔ اس خارِ زار پر چلتے ہوئے اپنا آپ منوانا جودت طبع اور شخصی مضبوطی کی دلیل ہے۔ 08 ستمبر 1966ء میں جنگ اخبار سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کرنے والی محترمہ رباب عائشہ کا شمار پاکستان کی اولین خواتین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ رباب عائشہ ایک محبِ وطن صحافی اور انسانیت کا درد رکھنے والی حساس اور ہمہ جہت شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ ایک بیوی، ایک ماں اور ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے اپنی تمام ذمہ داریوں کو باخوبی نبھایا۔
صحافتی ادب کے علاوہ رباب عائشہ متعدد کتابوں کی خالق بھی ہیں جن میں "زندگی اور زاویے” ، "میں نے پاکستان بنتے دیکھا”، "مثالی مائیں”، "سدا بہار چہرے”، "خاک کے آس پاس” ، "ترکی کے قصے اور کہانیاں” ( انگریزی سے ترجمہ) ، اور "اطفالِ ادب” کے تحت بچوں کے لیے لکھی جانے والی متعدد کتابیں شامل ہیں۔
2024ء میں شائع ہونے والی محترمہ رباب عائشہ کی خودنوشت "لمحوں کی دھول” خود نوشت کے ادبی سرمائے میں ممتاز مقام کی حامل ہے۔ جس کی انفرادیت اس کا ادبی اسلوب ہے۔ خوب صورت سرِ ورق کی حامل "لمحوں کی دھول” کو کھولتے ہی شاعرانہ انداز میں عنوانات "پس منظر سے پیش منظر تک”، "یادوں کے حاشیے میں میرا گھر سجا ہوا”، "گزرے دنوں کی یاد برستی گھٹا لگے”، "قرطاسِ دل پر لکھی ہوئی چند عبارتیں”، "حیرت کدہ زیست کے آثارِ روز و شب ” ، "فہم سے ماورا” تجسّس کو ابھارتے ہوئے توجہ کا باعث ٹھہرتے ہیں۔
مصنفہ کے نزدیک رشتے اور خاندان کس قدر اہمیت کے حامل ہیں اس کا اظہار "لمحوں کی دھول” میں اول تا آخر جابجا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے باب میں خاندان کے تذکرے سے شروع ہونے والی یہ محبت ہر رشتے اور ہر تعلق میں پھیلی دکھائی دیتی ہے۔ وہ رشتہ نانا آفتاب عمر ہوں یا دادا امیر احمد، والد عقیل احمد کا تذکرہ ہو یا والدہ عائشہ عقیل کا، امی کی خالہ زاد الطاف فاطمہ ، نشاط فاطمہ کا ہو یا تایا زاد حمیدہ حسین اختر رائے پوری کا۔ بھائی طارق عقیل، عامر عقیل اور حارث عقیل ہوں یا بہنیں نگار اور شمع، شوہر ضیغم کی بات ہو یا بچوں آفتاب اور نور کی ہر سو احساسِ محبت اور تفاخر محبت پھیلا دکھائی دیتا ہے۔
ہر انسان اپنے بچپن کی سنہری یادوں میں تسکین پاتا ہے۔ رباب عائشہ بھی اپنے گھر، اپنے بچپن ، اپنے اہلِ محلہ اور اقدار و محبت کی خوب صورت یادوں میں گم دکھائی دیتی ہیں جہاں سے جنم لینے والی وسیع المشربی، محبت اور احترامِ انسانیت پوری زندگی حاوی رہتے ہیں۔
رباب عائشہ ایک باہمت خاتون ہیں جنھوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ ہمت اور جرت سے کیا۔ جنگ اخبار سے پچپن برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ حاصل کرنے کے بعد نوائے وقت اخبار میں شمولیت اور وہاں کے پیشہ وارانہ رویے کے تلخ و شیریں تجربات ، خبریں اخبار میں شمولیت اور وہاں کی انتظامیہ کے ہمدردانہ رویے کا بیان بہت عمدہ ہے۔ مصنفہ کے تجربات سے اداروں کے نام اور معیار کے بْعد کو بہت عمدگی سے واضح کیا گیا ہے۔
ہر انسان جہاں بچپن اور زندگی کا طویل عرصہ گزارتا ہے وہاں کے چپے چپے سے محبت فطری ہے۔ مصنفہ نے بڑی محبت سے راولپنڈی شہر کی تاریخ واہمیت اور موجودہ حالات کا اعداد و شمار کے ساتھ موازنہ، گلی محلوں ، سڑکوں، نالوں اور دیگر مقامات کا ذکر کیا ہے۔ چائنہ مارکیٹ کی وجہ تسمیہ کا بیان تاریخی نوعیت اور جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے۔ راولپنڈی سے جڑی یادوں کا بیان شخصیات اور مقامات کے لیے تجسّس اور محبت کے فروغ کا باعث ہے۔
اتار چڑھاؤ زندگی ا حصہ ہیں جن سے فرار ممکن نہیں البتہ ڈٹ کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ رباب عائشہ کا کردار ایک ایسا ہی کردار ہے جو نہ تو ریٹائرمنٹ سے پیدا ہونے والے مسائل سے پریشان ہوتا اور نہ ہی شوہر ضیغم کی بیماری سے حوصلہ ہارتا ہے، نہ اداروں کا پیشہ وارانہ رویہ انھیں کمزور کر پاتا ہے۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا مقصد انھیں اطفال ادب کی طرف مائل کرتا ہے اور رحمتِ ربّی کامیابیوں سے ہمکنار کرتی چلی جاتی ہے۔
وفاداری اور انسانیت رباب عائشہ کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے یہی وجہ ہے کہ ہر معاون شخصیت کے لیے ان کے دل میں احترام موجود ہے اور ہر کمزور اور بے بس کے لیے دردِ دل۔
رباب عائشہ صرف ایک صحافی یا ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں ان کے جذبات، ان کے احساسات، ان کی سوچ وفکر، ان کے تجربات، ان کا تجزیاتی انداز اور ان کی حق گوئی اور بے باکی، پیشہ وارانہ اخلاقیات قاری کی سوچ کو نئی نہج عطا کرتے ہیں۔ ادبی خاندانی تعلق سے ادب ، اقدار اور روایات کے چشمے بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ وطن کی محبت اور انسانیت کا درد ان کی صبح وشام میں اور ارد گرد واقعات میں بکھرا دکھائی دیتا ہے۔ باب "حیرت کدہ زیست کے آثارِ روز و شب” میں اس کی جھلک جا بجا دکھائی دیتی ہے۔
لمحوں کی دھول کی نمایاں خوبی اس کا ادبی اسلوب ہے۔ ہر انسان کی زندگی اور واقعات اس کی ذات کے لیے اہمیت رکھتے ہیں لیکن اسلوبِ بیان اور زبان اسے دوسروں کے لیے دلچسپ اور پر اثر بنا دیتے ہیں۔ رباب عائشہ کے اندر موجود ادیبہ کبھی منظر نگاری اور کبھی مکالمہ نگاری کے ذریعے، کبھی حلیہ نگاری اور کبھی شخصی اوصاف کے ذریعے، کبھی موازنے کا انداز اپناتے ہوئے اور کبھی بامحاورہ زبان کا جادو جگاتے ہوئے قاری کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتی ہیں کہ آغاز کے بعد اختتام سے پہلے کتاب سے دوری ممکن نہیں ہو پاتی۔
مجموعی طور پر خود نوشت "لمحوں کی دھول” ہمت و حوصلے کی ایک ایسی داستان ہے جو قاری کو ناسازگار حالات میں بھی آگے بڑھنے کا درس دیتی ہے۔ مالی مشکلات میں وسائل میں اضافے کے لیے کوشاں رہنے کی رغبت دلاتی ہے۔ خدا پر توکل اور دردِ انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ مشکلات اور اطمینان دو متضاد چیزیں ہیں لیکن "لمحوں کی دھول” میں رباب عائشہ صاحبہ کا اطمینان وسکون اس بات کا مظہر ہے کہ حق گوئی کا راستہ مشکل ضرور ہے لیکن خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار راہِ راست پر چلنے والوں کے لیے اللّٰتعالیٰ نئے راستے نکالتا اور راہیں ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔ جس کا مظہر کتاب کا آخری باب "آخری پڑاؤ” ہے۔ جس میں مصنفہ نے اپنی گذشتہ اور موجودہ زندگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

spot_imgspot_img
%d bloggers like this: