دستک

0
0

 

 

 

ڈاکٹرعبدالمجید بھدرواہی
:8825051001

کسی نے دروازے پر زور سے دستک دی مجھے پہلے ہی غصہ تھا کیونکہ میرا اور بیوی کاجھگڑا قریباً ایک گھنٹہ سے چل رہا تھا ۔ایسے میں کسی کے بے وقت دروازہ کھٹکھٹا نے سے غصہ اور زیادہ ہو گیا ۔
میں تیز تیز قدموں سے دروازہ کی طرف لپکا اور دروازے پر کھڑے آدمی سے پوچھا
’’ہاں بھائی۔ کیا بات ہے ۔ کیوں صبح سویرے پریشاں کرتے ہو۔‘‘
’’ہٹے کٹے ہو۔ بھیک مانگتے شرم نہیں آتی ہے ۔ کوئی کام دھندہ کیوں نہیں کرتے۔‘‘میں نے تڑاخ سے دروازہ بند کیا اور اندر چلا آیا۔
اندر آکر تھوڑی دیر کے بعد میرا غصہ ٹھنڈاہوگیا۔ سوچاکہ میںنے توسوالی کو کچھ بولنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔
ویسے تو یہ شخص دیکھنے میں صحت مند نظر آرہاتھا۔ مگر ہوسکتا ہے کوئی اور وجہ ہو۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
میں نے پھٹ سے دروازہ پھر کھولا۔
اس شخص کو آواز دے کرواپس بُلا لیا کیونکہ۔ وہ ابھی زیادہ دور نہیں چلا گیا تھا۔
تھوڑے توقف کے بعد وہ واپس پلٹا
میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔’’بابا جی! معاف کرنا۔ میں دراصل کسی وجہ سے غصّے میںتھا۔اسی لئے آپ سے بھی بڑی بے رخی اور بدتمیزی سے پیش آیا ۔‘‘
پھر اس کو اندرLawn میں بڑی عزت کے ساتھ بٹھایا اور نوکر کو چائے لانے کے لئے کہا۔
’’چائے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔اس شخص نے کہا۔
’’نہ میں بھکاری ہوں اور نہ کوئی چندہ مانگنے والا۔ نہ جانے اس دروازے کے پاس پہنچ کر کیوں میرا ہاتھ بے خیالی میں اٹھ گیا اور دروازے پر دستک دے ڈالی۔‘‘
’’خیر! چائے پئیں اور مجھے معاف کریں۔ ‘‘
آپ کہاں سے ہیں۔ اس سے پہلے آپ کو اس طرف کبھی نہیںد یکھا ۔
یہاں کس جگہ رہتے ہیں ۔‘‘میں نے دریافت کیا
اب جب آپ نے پوچھ ہی لیا تو سنو…… میں فلاں شہرمیں ٹھیکیداری کرتاتھا۔ شادی کے کچھ دنوں بعد ہی ہم میاں بیوی میںان بن ہوگئی۔ ہمارے درمیان روز جھگڑے ہوتے رہے ۔ ہروقت شوررہتاتھا ۔ جتنا وقت بھی گذرا وہ بڑی کشمکش میں گذرا۔ہمارے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔میں نے بیگم کے کہنے کے مطابق بیٹے کومقامی انگلش میڈیم سکول میں داخل کروایا ۔ تب بھی اہلیہ کے مزاج میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہ آئی ۔ میںنے سکول کے ایڈمیشن انچارج کو منت سماجت کرکے کہاکہ وہ اس بچے کا خاص خیال رکھے ۔ بلکہ میں نے اس کوصاف صاف کہہ دیاکہ ہمارے گھریلو ماحول کا اس ننھی جان پر برا اثر نہ پڑے اسی لئے میں یہ ذمہ واری آپ پر ڈالتاہوں۔ امید ہے آپ اس کو اپنا ہی بچہ سمجھ کر خاص توجہ دیں گے ۔‘‘
جب کسی طورمیری اہلیہ نے اپنارویہ نہ بدلہ اور زندگی کو اجیرن بنا دیا ۔تب ہم دونوںنے علاحدگی اختیار کرنے کو ہی ترجیح دی ۔ بات عدالت تک پہنچی۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق بچہ ماں کے پاس رہا۔
طلاق اور بچہ کے فیصلہ کی وجہ سے میں بہت دل برداشت ہوا۔ شہر میں بڑی شرمندگی اٹھانا پڑی ۔ میں کس کس کے سامنے اپنی صفائی دیتا ۔
آخر کار میں نے وہ شہر ہی چھوڑ دیا اور یہاں چلا آیا۔
مجھے اپنے بیٹے کو ملنے کی اجازت نہ تھی ۔ مگر میں پتہ کرتا رہتاتھاکہ وہ کس کلاس میں ہے۔ کتنے نمبرات حاصل کررہاہے۔
اس کے استاد امتیاز حسین صاحب نے بیٹے کا خاص خیال رکھا۔ وہ ہرکلاس میں اچھے نمبرات لیکر ایک ایک کلاس چڑھتا گیا اور پھرمیٹرک کے بعد کس کالج میں داخل ہوامعلوم نہ ہو سکا۔
اُدھر بیٹے نے میٹرک پاس کیا اِدھر امتیاز حسین صاحب بھی ریٹائر ہوگئے ۔
وہ بھی اسی شہرمیں منتقل ہوگئے ۔ یہ ان کا آبائی شہر تھا۔ یہاں ان کا بہت بڑا مکان تھا۔
ایک دن جمعہ مبارک کی نماز کے بعدہم دونوں کی ملاقات ہوگئی ۔ہم مل کر بہت خوش ہوئے۔
امتیاز صاحب مجھے اپنے گھر لے آئے وہاں ہم نے دکھ درد کی باتیں کیں۔باتوںباتوں میں میں نے ان سے پوچھا کہ گھرمیں اور کون رہتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ وہ اکیلے ہی ہیں کیونکہ انہوںنے شادی نہیں کی ہے۔
بھائی صاحب۔ میںنے تو شادی کی تھی۔ روزانہ کے جھگڑوں کی وجہ سے طلاق ہوگئی۔ میں اسی وجہ سے وہ شہر چھوڑ کر اس شہر میں منتقل ہوا۔
یہاں آنے کے ہفتہ دس دن کے بعد ہی امتیاز صاحب کی طبیعت بگڑنے لگی۔ وہ بڑی تیزی سے کمزور ہوتے گئے ۔
میں نے ان کی کافی خدمت اور تیماداری کرنا شروع کی۔ کبھی اس ہسپتال تو کبھی اس ہسپتال ۔ مگر ان کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بس میںاپنا فرض نبھاتا گیا۔‘‘ اس شخص نے اپنی یہ روداد سنائی۔
’’یہ استاد کس سکول میں تھے ؟‘‘ میں نے پوچھا
’’Daffodilسکول گرین کالونی ‘‘۔ اس شخص نے جوابدیا
ارے ! میں بھی تو اسی سکول میں پڑھتا تھا۔ ہونہ ہو۔ یہ وہی ٹیچر ہوں گے جن کے حوالے میرے والد نے مجھے کیاتھا۔ اور جنہوں نے میری رفاقت اور شفقت کی تھی۔ وہ بہت ہی نیک آدمی تھے ۔ مجھے ان سے ملاقات کا بڑا شوق ہے۔ میں نے کہا
’’کیا آپ مجھے ان کے پاس لے جائیں گے۔ ‘‘
’’چلو ابھی چلتے ہیں۔‘‘ اُس شخص نے کہا
وہاں پہنچ کر ہم نے ایک دوسرے کوپہچان لیا ۔ میں نے اپنے استاد کے ماتھے کو بار بار چوما۔ ان کے گلے ملا ۔ امتیاز صاحب بھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے !جنہوں نے تمہیں سکول میں داخل کرنے کے لئے لایا تھا اور میرے حوالے کیاتھا۔یہ وہی شخص ہے۔
واقعی اللہ جو چاہتا ہے جب چاہتاہے اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کردکھاتا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
اس موقع پر والد صاحب کا دل باغ باغ ہوگیا ۔اُنہوں نے صرف اتنا ہی کہاکہ یہ دراصل شفقت پدری ہی تھی جس نے ان کو دستک دینے کے لئے مجبور کیا تھا۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا