ڈاکٹر سیّد احمد قادری
8969648799
گزشتہ چند ماہ و سال کے بیانات ملک کے وزیر اعظم کا دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ ملک سے کرپشن کو شکست دینے کے لئے وہ پُر عزم ہیں۔ اپنے ملک سے کرپشن کو صرف روکنا ہی نہیں بلکہ جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومت مسلسل ملک کے بدعنوانوں پر نہ صرف کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ بدعنوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے میں بھی کسی طرح کی رو رعایت نہیں کی جا رہی ہے۔ کرپشن کے الزام میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین جیل میں ہیں ، بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو یادو کرپشن کے الزام میں سزا کاٹ کر کچھ ہی دن پہلے جیل سے بری ہوئے ہیں ، کرپشن کی آنچ سے ان کی اہلیہ ، سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی اور ان کے بیٹا سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نہیں بچ پائے اور مسلسل ای ڈی کے سمن پر دوڑ لگا رہے ہیں ۔دلی حکومت کے نائب وزیر اعلیٰ رہے منیش سیسودیا جیل میں ہیں ، عاپ کے ممبر پارلیمنٹ سنجئے سنگھ کے کرپشن جیسے ہی سامنے آئے، انھیں بھی فوراََ جیل میں ڈال دیا گیا ، دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال بھی کرپشن کے الزام میں بس جیل کے دروازے پر کھڑے ہیں ، بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بھتیجہ ابھیشیک بنرجی بھی ای ڈی کے چنگل میں ہیں ، کسی وقت بھی وہ سلاخوں کے اندر جا سکتے ہیں ،کشمیر کے گورنر رہ چکے ستیہ پال ملک کے کرایہ کے فلیٹ سمیت تیس ٹھکانوں پر چھاپے پڑ چکے ہیں۔ یہ مختصر سی فہرست تو صرف مختلف ریاستوں کے وزرأ اعلیٰ،سابق نائب وزرأ اعلیٰ اور ایک سابق گورنر کی ہے ، مختلف ریاستوں کے وزرأ اور ممبر ان پارلیمنٹ و اسمبلیوں کاذکر کرنے بیٹھوں تو پورا یہ صفحہ ہی بھر جائے گا ۔ ان چند مثالوں سے میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کرپشن کے معاملے میں کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے کو رضامند نہیں ہیں اور ہر حال میں کرپشن کی وجہ کر ملک کو بدنام کرنے والوں کو اپنی سرکاری ایجنسیوں ای ڈی، سی بی آئی ، انکم ٹیکس وغیرہ کے ذریعہ کیفر کردار تک پہنچانے پر کمر بستہ ہیں اور پھر ایسے تمام مخالفین کو ان ایجنسیوں کا خوف دکھا کر خاموش یا پھر سرنگوں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ برسر اقتدار آنے سے قبل پی ایم مودی کی مختلف تقاریر میں یہ نعرہ ضرور رہتا تھا کہ ’’ نہ کھاؤنگا اور نہ کھانے دونگا‘‘اسی نعرہ پر وہ اب بھی ’قائم‘ ہیں ۔ اب میں پرانی باتوں کو دہرانے کے بجائے حالیہ چند برسوں میں پی ایم مودی کے کرپشن مخالف بیانات پر آتا ہوں ۔ گزشتہ 27 ؍ اکتوبر 2020 ء کو ’’ویجیلنس اور انسداد بدعنوانی ‘‘ کے موضوع پر منعقد قومی کانفرنس میں اپنی افتتاحی تقریر میں بھی مودی نے کرپشن کے خلاف اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ آج ہندوستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے ، جہاں بدعنوانی کی روک تھام کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ شکایت بس اتنی ہے کہ بدعنوانیوں کی خبر تو میڈیا کے ذریعہ پہنچتی ہے لیکن جب بدعنوانی کے خلاف سخت کاروائی وقت پر ہوتی ہے تو ہمیں ایسی مثالوں کو بھی پیش کرنا چاہئے۔ اس سے سماج کے نظام میں اعتماد بڑھتا ہے اور بدعنوان لوگوں میں ایک پیغام بھی جاتا ہے کہ بچنا مشکل ہے ۔ میری اپیل ہے کہ ’’ ہندوستان بنام بدعنوانی ‘‘کی لڑائی میںوہ ہمیشہ کی طرح ہندوستان کو مضبوط کرتے رہیں اور بدعنوانی کو شکست دیتے رہیں ‘۔ وزیر اعظم کی اس دھمکی بھری تقریر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بدعنوانی کے معاملے میں کتنے حساس ہیں اور اسی لئے وہ کرپشن کے ضمن میں زیرو ٹالرنس کی بھی بات کرتے ہیں ۔ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب انھوں نے گزشتہ 2023 ء کے ستمبر ماہ میں نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کہا تھا کہ’ ’ ہماری قومی زندگی میں کرپشن ، ذات پات اور فرقہ پرستی کی کوئی جگہ نہیں ‘‘۔ اس ایک جملے میں پی ایم مودی نے کتنی ’اہم‘ بات کہی ہے اور جن کے معنی و مطلب کے ہر پہلو پر غور و فکر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ سال رواںکی یکم فروری کو متحدہ عرب امارات میں ’’ورلڈ گورنمنٹ سمٹ ‘‘ میں بھی پی ایم مودی نے کرپشن کے متعلق اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ ہمیں صاف ستھری اور کرپشن سے پاک حکومتوں کی ضرورت ہے ‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ایم مودی اور ان کی حکومت ،بدعنوانیوں سے اتنا ہی دور ہے جتنا ایک عادی شرابی مئے خانہ سے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جیوں جیوں دوا کی ۔ ایک طرف پی ایم مودی بہت واضح طور پر ملک سے بدعنوانیوں اور بدعنوانوں کو اکھاڑ پھیکنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب آج کی تاریخ میں یعنی 2023 ء میں ہمارا ملک کرپشن کے معاملے میں 180 ممالک کے مقابلے 93 ویں مقام پرپہنچ گیا ہے ، جبکہ2022ء میں یہ 85 ویں پائدان پر تھا ، یعنی بدعنوانی کے معاملے میں ہمارے وزیر اعظم کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہمارا ملک کرپشن کے معاملے میں ترقی کی راہ پر تیزی سے چل نکلا ہے ۔ یوں تو بیرون ممالک میں اپنے ملک کی بدعنوانی کے تعلق سے شرمسار کرنے والی مثالیں بھری پڑی ہیں جن کا ذکر کرنا میں وقت کی بربادی سمجھتا ہوں ۔بس ایک مثال بی بی سی ، لندن کی پیش ہے جو اس نے 2017 ء میں اس چینل کی ڈپٹی لیڈر Chati Narula نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں بی جے پی وہ سیاسی پارٹی ہے جو دنیا کی سب سے کرپٹ پارٹی ہے ۔ ایسے میں لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر ہمارے وزیر اعظم بدعنوانیوں کے اتنے مخالف ہیں تو پھر عالمی سطح پر ایسی شرمندہ کرنے والی باتیں کیوں کر سامنے آتی ہیں اور ان خبروں کی سرکاری سطح پر تردید بھی نہیں ہوتی ہے ۔ اب کیاکہا جائے کہ ایسی اور نہ جانے ایسی کتنی خبروں سے ہمارے ملک اور مودی حکومت کو پشیمانی اٹھانی پڑتی ہے ۔ اب یہی دیکھئے کہ مہاراشٹر میں جس اجیت پوار کے آبپاشی معاملے کے کرپشن کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب اجیت پوار جیل میں ’ چکّی پیسنگ۔۔۔۔چکّی پیسنگ ۔۔۔ان کے اس جملے کا یہ اثر ہوا کہ اجیت پوار اتنے شرمسار ہوئے کہا اپنے تمام کرپشن کو دھونے کے لئے کمل چھاپ واشنگ مشین میں غوطہ لگا نے پر مجبور ہوئے اور جب وہ اپنے کرپشن سے پاک ہو گئے تو پھر انھیں بی جے پی نے گلے لگاتے ہوئے ان کی پشیمانی کے صلہ میں انھیں مہاراشڑ حکومت کا نائب وزیر اعلیٰ ہی بنا دیا ۔ اسی طرح مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوہان ، کانگریس میں رہتے ہوئے آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی گھوٹالہ میں ملوث پائے گئے تھے اور وہ بھی اپنے گھوٹالہ پر ’نادم‘ ہوئے اور بی جے پی کی واشنگ مشین میں اپنے پاپ کو دھونے کے لئے چھلانگ لگانے پر مجبور ہوئے اور یہاں سے جب وہ پاک صاف ہو کر نکلے تو صلہ میں انھیںراجیہ سبھا کی ممبر شپ عطا کی گئی ۔ مہاراشٹر کے ہی چھگن بھجول کو ہی لے لیجئے ، یہ بھی مہاراشٹر سدن گھوٹالہ میں دو سال کی سزا بھگتنے کے بعد انھیں اپنی’ غلطی‘ کا احساس ہوا اور وہ بھی کمل برانڈ واشنگ مشین میں اپنے گناہ دھونے کے لئے داخل ہوئے اور جب گناہ دھل گیا تو انھیں بھی صلہ میں وزارت سونپی گئی ۔ شرد پوار کے بہت قریب رہے پرفل پٹیل سول ایویشن منسٹر رہتے ہوئے جتنے کرپشن کئے تھے اور 272 کروڑ روپئے تلوار کو دئے تھے ایسے کئی معاملے میں قریب تھا کہ وہ کال کوٹھری میں جاتے لیکن انھیں بھی اپنی’ غلطی‘ کا احساس ہوا اور وہ بھی کرپشن سے پاک پارٹی کے شرن میں گئے اور انھیں کمل چھاپ صابن سے نہا دھو کر دودھ سی سفیدی لا کر کرپشن کو نفرت کرنے والی پارٹی میں جب آگئے تو انھیں بھی نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی کی خلعت عطا کی گئی، نرائن رانے کی بھی مثال سامنے ہے انھوںنے بھی گھوٹالے میں کافی شہرت پائی اور انھیں بھی واشنگ مشین میں دھو دھلا کر پاک صاف کیا گیا اور پھر مرکز کی وزارت کے تخت پر بٹھایا گیا۔ میرا خیال ہے کہ مہاراشٹر سے کرپشن کو شکست دینے کی ا تنی مثالیں کافی ہیں، مذید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب ہم مہاراشٹر کے بعد بنگال کا رخ کرتے ہیں ۔ بنگال کے شوبیندو ادھیکاری نے جب ٹی ایم سی میں رہتے ہوئے شاردا گھوٹالہ ، ناردا اسٹنگ آپریشن میں ملوث پایا گیاتب یہ بھی زیادہ تاخیر کئے بی جے پی کی پناہ میں آ گئے اور اپنی غلطیوں پر شرمسار بھی ہوئے نتیجہ میں ان پر ای ڈی نے مہربان ہوتے ہوئے جہاں کئی معاملوں میں کلین چٹ دی وہیں دوسرے کچھ معاملے میں کیس پنڈنگ رکھا ۔انھیں بھی ہر معاملے میں کلین چٹ دے دی جاتی لیکن ٹی ایم سی کے مکل رائے نے جیسی غیر اخلاقی حرکت کی اس نے ای ڈی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور کر دیا ورنہ بی جے پی کے رہنمأ تو ایسے معاملے میں دریا دلی دکھا ہی رہے ہیں ۔ دراصل ٹی ایم سی کے نیتا اور سابق وزیر ریل مکل رائے کو شاردا گھوٹالہ میں نومبر 2017ء میں کمل کی چھاؤں میں آتے ہی ان کا خیر مقدم ہی نہیں کیا گیا بلکہ بی جے پی کی رونق بڑھانے کے صلہ میں انھیں جلد ہی سی بی آئی سے شاردا معاملے میں انھیں ایمانداری کی سند بھی عطا کر دی گئی اور انھیں بڑا انعام دینے کے لئے انھیں بنگال میں ہونے والے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کمل کھلانے کی ذمّہ داری بھی دی گئی لیکن بنگال کی دیدی ۔۔او دیدی نے بی جے پی کو ایسی پٹخنی دی کہ سب کے سب چارو خانے چت ہو گئے ایسے میں مکل رائے کو اپنی سیاست کی کشتی بھنور میں ڈوبتی نظر آئی اور وہ 2021 ء میںدیدی سے معافی تلافی کرتے ہوئے ایک بار پھر دیدی کے شرن میں آ گئے ۔ مکل رائے کی راہ کو اپناتے ہوئے ٹی ایم سی کے سوون چٹرجی نے بھی یہی کام کیا اپنے گھوٹالہ کی بدنامی کو لے کر 2019ء میں آئے اور اپنی پاک دامنی کی سند لے کر پھر 2021 ء میں ٹی ایم سی میں چلے گئے ۔ کرناٹک میں ابھی اسمبلی انتخاب سے قبل جو کچھ دیکھا گیا اور وہاں کے لوک آیوکت جسٹس بی ایس پٹیل کا وہ بیان یاد کیجئے جو انھوں نے بی جے پی کے ایک نیتا کے گھر سے کروڑوں روپئیے ملنے کے بعد کہا تھا ، لیکن بچارے پٹیل صاحب اب بغلیں جھانک رہے ہیں ۔ مدھیہ پردیش میں ایک مرکزی وزیر کے بیٹے نے جس طرح اپنے گھر میں روپئے کے دھیر لگائے تھے وہ منظر بھی لوگ ابھی بھولے نہیں ہونگے ۔ کرناٹک کے یودیرپپا ہوں یا مدھیہ پردیش کے شیو راج سنگھ چوہان ،ان دونوں نے بھی ہمارے وزیر اعظم کو کافی شرمسار کیا ہے اور ان کے کرپشن کی شہرت دور دور مثال بنی ہوئی ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما جو کانگریس میںگھوٹالہ باز کہلائے اور بی جے پی کی بہتی ندی میں نہا دھو کر ایسا دھلے کہ انھیں صلہ میں آسام کا وزیر اعلیٰ ہی بنا دیا گیا ۔ دوسری پارٹیوں میں کرپشن کے الزامات سے بری ہونے کے لئے بی جے پی جیسی ’پاک دامن‘ پارٹی میں شامل ہونے اور کلین چٹ پانے کی خواہش رکھنے والے بلکہ کامیاب ہونے والوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ میں کہاں تک اعداد و شمار پیش کروں ۔ ادھر کانگریس ہو ، ٹی ایم سی ہو یا دیگر حذب اختلاف پارٹیاں، یہ سب وزیر اعظم مودی کی بے حد شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ان کے بدنام زمانہ اور کرپشن میں ڈوبے کچڑوں کو اپنی پارٹی شامل کرکے ان کی پارٹی کو مسلسل صاف ستھرا کرنے میں منہمک ہیں ۔
لیکن اِدھر ہمارے وزیر اعظم مودی ملک کے بدعنوانوں کو ان کے سابقہ کرپشن کے رکارڈوں کو صاف ستھرا کر انھیں صلہ دینے میں مصروف رہے اوراُدھر کرپشن کی مصیبت نے خود ان کے در پر دستک دے دی ۔ انتخابی بونڈ پر سپریم کورٹ نے جس طرح اس معاملے کا پردہ فاش کیا ہے اسے سن کر ہر شخص انگشت بدنداں ہے کہ حکومت کے زیر نگرانی اتنا بڑا گھوٹالہ ؟ اب غور کیجئے کہ الیکٹورل بونڈ کے نام پر جس طرح چندہ کا دھندہ چل رہا تھا وہ ناقابل یقین ہے لیکن پھر اندھ بھکتوں کی ایک بات یاد آتی ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے اور واقعی یہ ممکن ہو ا۔ ملک میں پھیلی ہزاروں بڑی کمپنیوں میں بہت ساری کمپنیوں کو کبھی ای ڈی سے ، کبھی انکم ٹیکس سے اور کبھی سی بی آئی سے ڈریا ادھمکا یا گیا اور انھیں خوف زدہ کرکے ان سے کروڑوں روپئے کا چندہ وصولا گیا ۔ چندہ کی رقم اکیلے بی جے پی کے پاس 92% جمع کی گئی ہے اور یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ملک کی صرف تیس کمپنیوں نے 335 کروڑ کی رقم الیکٹورل بونڈ کے نام پر صرف بی جے پی کو دیا ہے ۔ ابھی اس گھوٹالے پر سے کئی راز کے پردوں کا ہٹنا باقی ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دراصل ایسے پیسوں سے ممبر پارلیامنٹ و اسمبلی کے خرید فروخت کر حکومت گرانے اور بنانے کا چکر کافی دنوں سے چل رہا ہے ۔ ابھی ابھی راجیہ سبھا میں ہونے والے انتخاب میں کئی ریاستوں میں جس طرح کراس ووٹنگ کی خبریں آ رہی ہیں وہ چونکانے والے نہیں ہیں اس لئے کہ ایک طرف جہاں کہا جاتا ہے کہ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے وہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بی جے پی دنیا کی سب سے دولت مند پارٹی ہے ۔ کہا جاتاہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہ سب کچھ خرید سکتا ہے اور اس وقت حکومت کے پاس دولت کے انبار کے ساتھ ساتھ ای ڈی ، انکم ٹیکس ، سی بی آئی وغیرہ بھی ہے پھر ان کی کامیابی پر کس طرح شک کیا جا سکتا ہے اور اس سال ہونے والے لوک سبھا کے انتخاب میں 370 پار بھی ممکن ہے لیکن اگر سپریم کورٹ مذید ہمت کرے تو الیکٹورل بونڈ سے بھی بڑے گھوٹالوں پر سے دہ فاش ہوسکتا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے گھوٹالوں سے عوام اب بہت زیادہ خفا نظر آ رہے ہیں کہ ان کی بھوک پیاس ،روزگار، مہنگائی ، تعلیم و طبی خدمات پر دھیان دینے کے بجائے حکومت نے صرف اپنی تجوریوں کو بھرنے اور اقتدار پر اپنا قبضہ رکھنے میں مصروف ہے ۔ ( مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)