یوگیتا
چورسؤ،اتراکھنڈ
’’لوگ اپنے گھر کاکچرا گدھیروں (نہر) میں پھینکتے ہیں اور پھر کتے اس کچرے کو گھروں تک لے آتے ہیں۔ بعض اوقات حیض میںاستعمال شدہ سنٹری پیڈ بھی گدھیروں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ اس سے بہت بدبو پیدا ہوتی ہے۔ کتے کچرا جہاں تہاں پھیلا دیتے ہیں۔ وہ پیڈ یہاں اور وہاں یا گھروں میں لے آتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت زیادہ مچھر اور بدبو پھیلتی ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے 45 سالہ کلاوتی دیوی کا، جو اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے گروڈ بلاک کے پنگلو گاؤں کی رہنے والی ہے۔ کلاوتی دیوی کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں لوگ صفائی ستھرائی کے بارے میں بالکل بھی آگاہ نہیں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ انتظامیہ صفائی کے بارے میں کھیال نہیں رکھتی ہے، لیکن حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے کتنی ہی صفائی مہم چلائی جائے، جب تک کہ لوگ خودصفائی کا خیال نہیں رکھتے، خود اپنے گھروں کی صفائی نہیںکرتے ہیں، گاؤں کے ارد گرد صفائی نہیں رکھی جائے گی، گاؤں میں کسی بھی قسم کی صفائی مہم کا کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا۔‘‘درحقیقت دیہی علاقہ اپنی خوبصورتی اور ہریالی کے لیے جانا جاتا ہے۔ جہاں قدرت کا حسن نظر آتا ہے۔ جہاں ماحول صاف ستھرا رہتا ہے۔ لیکن پنگلو گاؤں میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ماحول مسلسل آلودہ ہو رہا ہے۔ یہ گاؤں گڑوڑ بلاک سے تقریباً 22 کلومیٹر دور پہاڑوں کی گود میں واقع ہے۔ اس اونچی ذات والے گاؤں کی آبادی 1950 ہے اور شرح خواندگی تقریباً 85 فیصد ہے۔ اس کے باوجود اس گاؤں کے لوگ صفائی کے حوالے سے کچھ خاص باشعور نظر نہیں آتے ہیں۔ گاؤں میں کچرا ڈالنے کے لیے ڈسٹ بن بھی دستیاب نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ گھر کا کوڑا کرکٹ گدھیروں میں پھینک دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں گاؤں کی 32 سالہ خاتون اوشا دیوی کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں بہت گندگی ہے اور صفائی کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے، لوگ ندی اور گدھیروں میں کچرا پھیلاتے ہیں جس کی وجہ سے پینے کا پانی بھی گندا ہو جاتا ہے، وہ پانی جانوروں کے بھی پینے کے قابل نہیں رہتا ہے، اگر کوئی مویشی اس پانی کو پی لے تو اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے۔اوشا دیوی کا ماننا ہے کہ یہ کچرا گاؤں والے خود پھیلاتے ہیں۔ ان میں صفائی کے بارے میں شعور کی کمی کی وجہ سے وہ صفائی کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔گاؤں کی 28 سالہ چاندنی کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں کچرا ٹھکانے لگانے کی کوئی مناسب سہولت نہیں ہے، جس کی وجہ سے لوگ ادھر ادھر کچرا پھیلاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ گڑھا بنائیں گے اور پھر اس میں کچرا ڈالیں گے، لیکن کوئی ایسانہیں کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے پورے گاؤں کا ماحول آلودہ ہو رہا ہے اور لوگ بالخصوص بچے بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔اس کچرے کی وجہ سے ہوا میں بھی بدبو پھیلی ہوئی ہے۔اگر حکومت اور پنچایت نے توجہ نہ دی تو بہت جلد گاؤں میں بیماری کا پھیلاؤ بڑھ جائے گا۔ 22 سالہ نوجوان سپنا کھاتی کہتی ہیں، ’’پنگلو گاؤں کے آلودہ ماحول کے لیے انتظامیہ، پنچایت اور گاؤں والے سبھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اگر کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے تو لوگوں میں بھی صفائی کی طرف عزم نہیں ہے۔وہ بھی جہاں تہاںکچرا پھینکتے ہیں۔گاؤں میں اگر کوئی ڈسٹ بن بھی ہے تو وہ گھروں کے قریب نہیں بلکہ دور سڑک پر ہے جہاں صرف دکاندار ہی کچرا پھینکتے ہیں۔گاؤں میں کچرا پھینکنے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گاؤں کے بیچوں بیچ ایک جگہ ڈسٹ بن بنا دیا جائے تو کچھ صفائی ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔‘‘
تاہم گاؤں والوں کے بیان کے برعکس پنگلو کے سرپنچ پان سنگھ کھاٹی کا کہنا ہے کہ پنچایت کی جانب سے پورے گاؤں میں چھوٹے ڈسٹ بن تقسیم کیے گئے ہیں، لیکن گاؤں کے لوگ ان میں کچرا نہیں ڈالتے اور جہاں تہاںکچرا پھینکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اردگرد کی جگہیں گندگی زیادہ پھیلتی ہیں۔ وہی کچرا پھر کتوں اور پالتو جانوروں کے ذریعے ادھر ادھر پھیلا دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مزید گندگی پھیلتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف آگاہی ہے۔ انتظامیہ یا پنچایت خواہ کوئی بھی انتظام کر لے، اگر لوگ خود صفائی سے آگاہ نہ ہوں تو کوئی بھی انتظام کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔وہیں سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ صفائی ایک ایسا موضوع ہے جو قانون کے ذریعہ نافذ نہیں ہو سکتا ہے یا اس کے لئے ہنٹر نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف لوگوں کی بیداری پر منحصر ہے۔ جب تک گاؤں والے خود اس کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ پورے ملک کو کچرے سے پاک بنانے کے مقصد سے مرکزی حکومت نے 02 اکتوبر 2014 کو سوچھ بھارت ابھیان شروع کیا تھا۔
یہ ایک قومی سطح کی مہم ہے جس کا مقصد نہ صرف سڑکوں کو بلکہ گلیوں کو بھی صاف ستھرا بنانا ہے۔ اس مہم نے شہروں اور دیہاتوں کو کچرے اور آلودگی سے پاک بنانے کا کام کیا ہے۔ پچھلے نو سالوں میں اس مہم نے نہ صرف ملک کو صاف ستھرا بنانے کا کام کیا ہے بلکہ لوگوں میں صفائی کے بارے میں بیداری بھی پھیلائی ہے۔ اس کے باوجود اگر پنگلو جیسے گاؤں میں یہ مہم کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے تو نہ صرف انتظامیہ اور پنچایت بلکہ سماجی سطح پر بھی سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صاف اور سبز دیہات کے ذریعے ہی سوچھ بھارت ابھیان کا مقصد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)