عوام ہی ملک کی مالک ہے

0
0

۰۰۰
محمد اکرم ظفیر
مشرقی چمپارن،بہار
7250130884
۰۰۰

  • سیاست کے میدان کے ہیرو عوام ہی ہوتے ہیں،وہ جسے چاہے اقتدار کی کنجی تھما دیتے ہیں اور جسے چاہے اقتدار سے بیدخل کردیتے ہیں۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر پانچ سال پر عوام کے ووٹ کی طاقت سے سرکاریں بدلتی رہتی ہیں۔2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے عوام سے مہنگائی،بیروزگاری،بدعنوانی پہ کنٹرول کی بات کہہ کر موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے 543 لوک سبھا سیٹ میں سے 282 سیٹیں لاکر تاریخ رقم کی تھی۔سیدھے سادے عوام کو یہ امید جاگ اٹھی تھی کہ یہ سرکار اپنے وعدے پر کھڑا اترے گی اور کیوں نہ ہو جب یکے بعددیگر اسمبلی انتخابات جیت درج کرتی ہوئی  بھاجپا نے کانگریس کو بیدخل کردیا۔کیا کشمیر، ممبئی،اترپردیش،راجستھان،ہریانہ سب جگہ بھگوا رنگ میں رنگ گیا۔مگر اس کے بعد ھندوتوا کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کبھی گئورکشا،لوجہاد،محب وطن کے نام پر اقلیتوں کو مارنا پیٹناروز کا معمول بن گیا۔ایسا ماحول بن گیا کہ شک کی بنیاد پر اخلاق،ڈاڑھی ٹوپی کی وجہ سے جنید،گئورکشا کے بہانے پہلو خان،منہاج انصاری، افرازالاسلام جیسے سینکڑوں معصوموں کو مار ڈالا گیا۔کانگریس کی ریاستی انتخاب میں کراری ہار نے سیکولر عوام کو بے چین کردیا تھا کہ کیا بی جے پی کا خواب کانگریس مکت بھارت شرمندہ تعبیر ہوجائے گاواقعی اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کے اندر جمہوریت صرف نام ہی رہ جائے گی۔ سیاست کے میدان کے ہیرو عوام ہی ہوتے ہیں،وہ جسے چاہے اقتدار کی کنجی تھما دیتے ہیں اور جسے چاہے اقتدار سے بیدخل کردیتے ہیں۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر پانچ سال پر عوام کے ووٹ کی طاقت سے سرکاریں بدلتی رہتی ہیں۔2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے عوام سے مہنگائی،بیروزگاری،بدعنوانی پہ کنٹرول کی بات کہہ کر موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے 543 لوک سبھا سیٹ میں سے 282 سیٹیں لاکر تاریخ رقم کی تھی۔سیدھے سادے عوام کو یہ امید جاگ اٹھی تھی کہ یہ سرکار اپنے وعدے پر کھڑا اترے گی اور کیوں نہ ہو جب یکے بعددیگر اسمبلی انتخابات جیت درج کرتی ہوئی  بھاجپا نے کانگریس کو بیدخل کردیا۔کیا کشمیر، ممبئی،اترپردیش،راجستھان،ہریانہ سب جگہ بھگوا رنگ میں رنگ گیا۔مگر اس کے بعد ھندوتوا کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کبھی گئورکشا،لوجہاد،محب وطن کے نام پر اقلیتوں کو مارنا پیٹناروز کا معمول بن گیا۔ایسا ماحول بن گیا کہ شک کی بنیاد پر اخلاق،ڈاڑھی ٹوپی کی وجہ سے جنید،گئورکشا کے بہانے پہلو خان،منہاج انصاری، افرازالاسلام جیسے سینکڑوں معصوموں کو مار ڈالا گیا۔کانگریس کی ریاستی انتخاب میں کراری ہار نے سیکولر عوام کو بے چین کردیا تھا کہ کیا بی جے پی کا خواب کانگریس مکت بھارت شرمندہ تعبیر ہوجائے گاواقعی اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کے اندر جمہوریت صرف نام ہی رہ جائے گی۔ مگر حالیہ گجرات اسمبلی انتخاب نے کانگریس کوحوصلہ دیا جہاں 22 سال کے بعد کانگریس نے بی جے پی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔180 رکن اسمبلی والے گجرات میں کانگریس نے 80 سیٹیں لاکر بی جے پی کی نیند حرام کردی اور عوام نے یہ پیغام دیا کہ کانگریس مکت کا خواب دیکھنا غلط ہے۔کچھ سیٹیں ایسی بھی تھی جہاں بی جے پی کے امیدوار نے دوچار ہزار کی ووٹ سے جیت درج کی۔اب جبکہ راجستھان کے ضمنی لوک سبھا اور رکن اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے زبردست واپسی کرتے ہوئے الور سیٹ سے ڈاکٹر کرن سنگھ یادو نے بی جے پی امیدوار کو قریب دو لاکھ ووٹ اور اجمیر سیٹ سے رگھوشرما نے نزدیکی کو قریب 80 ہزار ووٹ سے شکست دے کر بھاجپا کی ہوا نکال دی ہیں۔حالانکہ اسی سیٹ پر 2014 میں بی جے پی کے امیدوار نے کانگریس کے امیدوار کو لاکھوں ووٹ سے ہرایاتھا۔مغربی بنگال میں مرحوم سلطان احمد کی اہلیہ نے تاریخ رقم کرتی ہوئی چار لاکھ ووٹ سے بی جے پی کو ہرایا۔تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو2019 میں بھارتیہ جنتا پارٹی سو سیٹیں بھی نہیں جیت پائے گی اور کانگریس کی حکومت بنے گی۔کانگریس کے لئے ضروری ہیکہ منظم حکمت عملی کے تحت کام کریں۔   بہرحال!! یہ تووقت بتائے گا کہ 2019 میں کس کی جیت ہوگی۔عوام کس کو چاہتی ہیں اور کو ناکارتی ہیں کیونکہ عوام ہی ملک کا مستقبل ہوتا ہے۔اقتدار کی کنجی انہیں کے پاس ہوتی ہیں، لیکن اس کی تیاری ابھی سے ہی شروع ہوچکی ہیں۔کانگریس کے نوجوان صدر راہل گاندھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں تو بی جے پی اس بار بجٹ میں ہرغریب کوگھر دینے،اقلیتوں کے بجٹ میں اضافہ کارڈ کھیلنے کی تیاری میں ہیں۔یہ بات ظاہر ہوگئی کہ لوگوں کا اعتماد بی جے پی سے ٹوٹ رہا ہے۔ملک میں جو نفرت کی فضا قائم ہے اس سے جنتا بخوبی ہورہے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا