رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے
ترتیب: عبدالعزیز
موبائل: 9831439068
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کئے ہیں۔ اس میں آسمان (جنت) کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیئے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا“۔ تشریح: یہ حدیث بھی نبی ﷺ کے ان خطبات میں سے ہے جو آپ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو اس مبارک مہینے کی اہمیت اور برکات سے آگاہ فرمانے کیلئے دیا کرتے تھے۔ اس میں آپ نے پہلی بات یہ بتائی کہ رمضان بڑی ہی برکت والا مہینہ ہے اور اس کے روزے امت پر فرض کئے گئے ہیں۔ اَل±بَرَکَةُ کے اصل معنی ہیں افزائش کے۔ رمضان کے مہینے کو مبارک مہینہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر بھلائیاں نشو و نما پاتی ہیں اور نیکیوں کو افزونی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس برائیاں بڑھنے کے بجائے سکڑتی چلی جاتی ہیں اور ان کی ترقی رک جاتی ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی ”اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے“۔ اس سے مراد لیلة القدر ہے، یعنی وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا، جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: انا انزلناہ فی لیلة القدرo وما ادرک ما لیلة القدر o لیلة القدر خیر من الف شہرo ”ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے“۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول انسانیت کیلئے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کیلئے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔ اس لئے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے لفظوں میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانیت کی بھلائی کیلئے وہ کام نہیں ہوا ہے جو اس ایک رات ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اس سے بہتر بڑی کثرت مراد ہے …. چنانچہ اس رات میں، جو اپنی بھلائی کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس سے لو لگائی اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کرلی …. کیونکہ اس رات میں بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کا پورا پورا احساس ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لئے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا گویا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی صحیح قدر و قیمت کا احساس موجود ہے۔ ”جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ محروم ہی رہ گیا“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس رات میں اللہ کی عبادت کیلئے کھڑا نہیں ہوتا تو گویا اسے قرآن مجید کی اس نعمتِ عظمیٰ کا احساس ہی نہیں ہے جو اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی۔ اگر اسے اس بات کا احساس ہوتا تو وہ ضروری رات کے وقت عبادت کیلئے کھڑا ہوتا اور شکر ادا کرتا کہ اے اللہ! یہ تیرا احسان عظیم ہے کہ تو نے مجھے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی ہے۔ بے شک یہ بھی تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے کھانے کیلئے روٹی اور پہننے کیلئے لباس عطا فرمایا، لیکن تیرا اصل احسانِ عظیم مجھ پر یہ ہے کہ تونے مجھے ہدایت دی اور دین حق کی روشنی دکھائی۔ مجھے تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچایا اور علم حقیقت کی وہ روشن شمع عطا کی جس کی وجہ سے میں دنیا میں سیدھے راستے پر چل کر اس قابل ہوا کہ تیری خوشنودی حاصل کرسکوں۔ پس جس شخص کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوگا وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے کھڑا ہوگا اور اس کی بھلائی لوٹ لے جائے گا، لیکن جو شخص اس رات میں ادائے شکر کیلئے خدا کے حضور کھڑا نہیں ہوا وہ اس کی بھلائی سے محروم رہ گیا اور حقیقت ایک بہت بڑی بھلائی سے محروم رہ گیا۔ تفہیم الاحادیث۔ [email protected]