بے سہارا معذور لڑکی آخر کس کے سہارے جیے گی؟

0
0

مشتاق احمد ملک
منڈی، پونچھ

معذور افراد کے حقوق کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کہ معذوری کے شکار افراد کے لیے آزادانہ زندگی گزارنے اور معاشرے میں مکمل اور یکساں طور پر حصہ لینے کیلئے رسائی ایک شرط ہے۔ عالم طور پر کچھ لوگ معذوروں کے لئیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں تو وہیں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی معذور ہے تو وہ یقیناً دوسرے پر بوجھ بنے گا یا بنے گی جو کہ درست نہیں ہے۔اکثر لوگ محسوس کرتے ہیںکہ جو لوگ معذور ہوتے ہیں وہ اپنی پوری زندگی دوسروں پر بوجھ بنے رہتے ہیں جب کہ سچ یہ ہے کہ معذوروں میں صحیح تربیت، صحیح مواقع اور صحیح کوشش نہ صرف انہیں خود انحصار بنا سکتا ہے بلکہ وہ معاشرے میں بھی مساوی زندگی گزار سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی تقریباً 15 فیصد آبادی یعنی ایک عرب سے زائد افراد کسی نہ کسی طرح سے معذوری کا شکار ہیں۔جنہیں عموماً نظامی اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی سماجی اور معاشی حیثیت کو متاثر کرتی ہے، جو تشویشناک ہے۔ اکثر معزور افراد صحت کی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ وہ مطلوبہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں روزگار کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔یاد رہے کہ معذوری میں جسمانی اور ذہنی معذوری دونوں شامل ہیں۔ بنیادی طور پر اگر ہم معزوری کی بات کریں تو عام طور پر درجہ ذیل مسائل میں مبتلا افراد کو معذوری کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ جیسے وہ لوگ جو بنائی یا مکمل طور پر اندھا پن کے شکار ہیں، جن لوگوں کو بولنے یا سننے میں دشواری ہوتی ہے یا جو بالکل بول یا سن نہیں سکتے ،وہ لوگ جو کسی بیماری جنسیاتی، یا حادثے کی وجہ سے جسمانی معزوری کا شکار ہیں اور چلنے پھرنے یا عام زندگی گزارنے سے قاصر ہیں ۔ایسے لوگوں جو ذہنی معذوری کا شکار ہوتے ہیں یعنی سیکھنے، پڑھنے، یا دوسروں کے ساتھ رابطہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
عام طور پر معزوری کو ناکامی اور بیکاری کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ جس کی نظر یا سماعت نہیں ہے اس نے کبھی موسیقی نہیں سنی یا قدرتی مناظر نہیں دیکھے۔ جب زندگی کبھی مشکل بھی ہوتی ہے ہمیں اس میں جینے کی عادت ہوتی ہے۔ معذوری کی وجہ سے انسان غم کا شکار ہو سکتا ہے اور یہاں تک کے خودکشی کے بارے میں سوچ سکتا ہے ۔ویسے تو معذوروں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں ان تمام معذوروں پر کوئی توجہ مرکوز نہیں کی جاتی، ایسا کیوں؟ بہت سے والدین غربت کی وجہ سے اپنے معذور بچیوں کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے مشکل کام ان لڑکیوں اور خواتین کو ماہواری کے دوران ہوتا ہے۔ ایسی خواتین بچیاں اور بچہ جو کسی بھی معذوری کا شکار ہیں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ان کے لئے ایسی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا تا کہ یہ تمام خواتین اچھی صحت کے ساتھ اس ملک کی خدمت کرتی رہیں ۔معذوری کی بے شمار کہانیاں ضلع پونچھ سے آپکو سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ وہی میں آپکو ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی پنچایت لوہل بیلہ کے ایک گاؤں ڈوگاں، لوہل بیلہ کی شمیم اختر دختر محمد عبداللہ شیخ سے ملواتا ہوں۔جس کی عمر پینتیس سال ہے۔ شمیم اختر ایک معذور لڑکی ہے جو چلنے، پھرنے اور بولنے سے بلکل ہی قاصر ہے۔اتنا ہی نہیں اس کا قد بھی بہت چھوٹا ہے۔اس کے والد اور والدہ دونوںکا انتقال ہو گیا ہے – اس نے کوئی پڑھائی نہیں کی ہے۔ اس کا ایک بھائی ہے جس نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ غریبی کی وجہ سے اس کا بھائی آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔ اس کے بھائی کی شادی ہو چکی ہے وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ رہ رہا ہے۔
اس وقت شمیم اختر کا کوئی بھی سہارا نہیں ہے۔ وہ اپنی بیوہ بہن کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کی بہن نوجوان عمر میں ہی بیوہ ہو چکی ہے جس کا ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ان تمام کی شادیاں ہو چکی ہیں آج ان کی بہن اپنے لڑکے اور اپنی بہو کے ساتھ میں رہ رہی ہے اور شمیم اختر بھی انہیں کے ساتھ رہتی ہے۔والدین کے انتقال کے بعد ان کی دیکھ بال ان کی بیوہ بہن ہی کرتی ہے۔ شمیم اختر صرف اپنی بہن کی مدد سے اپنے گھر میں تھوڑا سا چل سکتی ہے۔ ان کے دونوں گردوں کے اندر پتھری بھی ہے جس کی وجہ سے ان کو بہت زیادہ تکلیف ہے۔کسی طرح اپنی حالت بیاں کرتے ہوئے شمیم اختر کہتی ہیں کہ ایک تو میرا قد چھوٹا تھا اور اوپر سے میرے والد غریب بھی تھے جس کی وجہ سے میں پڑھائی نہیں کر سکی۔ قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے میری شادی بھی نہیں ہو سکی ۔ میں اکثر بیمار رہتی ہوں۔ میرا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے طرح طرح کے تانے مارتے ہیں۔ آج میں اپنی بیوہ بہن کے ساتھ رہتی ہیں جو بے سہارا ہے۔ میری بہن لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کسی بھی قسم کی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے ۔میں تو خود چل پھر بھی نہیں سکتی ہوں۔ میری بہن کے سوا میرا اور کوئی بھی سہارا نہیں ہے۔کب تک میں اس اپنی بہن پر بوجھ بن کر رہوں گی۔ میری بہن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ میرا علاج کر وا سکے ۔ شمیم اختر کہتی ہیں کہ اگر حکومت مجھے مفت اعلاج کے لیے کچھ امداد دے تو میرا آپریشن ممکن ہو پائے گا۔ گردوں کے اندر پتھری ہونے کی وجہ سے میری جان خطرے میں ہے ۔میرے ساتھ کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ میری انتظامہ اور محکمہ سماجی بہبود سے اپیل ہے کہ میرے لیے کچھ وسائل مہیا کیے جائیں تا کہ میری جسمانی بیماری دور ہو سکے۔ وہ کہتی ہے کہ معاشرے میں نوجوان لڑکیوں کیساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ اسکول ہو، کالج ہو، یونیورسٹی ہو، گھر ہو، یا کوئی اور ادارہ ہو ہر جگہ نوجوان لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا مزاق اڑائے جاتے ہیں۔مجھ جیسی معذور لڑکیاں جو بول نہیں سکتی، سن نہیں سکتی، چل پھر نہیں سکتی یا جن کا قد چھوٹا ہو معاشرے میں اکثر جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں ان کی بڑی بہن حاجہ بیگم کہتی ہیں کہ میرے والدین کی وفات کے بعد میں اپنی معذور بہن کو اپنے ساتھ لے آئی۔میں خود بیوہ ہوں، میں اپنی بہن کی بیماری کے ساتھ اپنا گھر مشکل سے چلاتی ہوں ، میں لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کر کے اپنے گھر کا خرچ چلاتی ہوں۔ شمیم کوجب میں اس حالت میں دیکھتی ہوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میرے پاس اتنے وسائل اور پیسے نہیں ہیں کہ میں اپنی بہن کا علاج کروا سکوں۔ میں مشکل سے دو وقت کی روٹی مہیا کرتی ہوں ۔بہت سی اسکیمیں آئیں لیکن انہیں ان اسکیموں کا کوئی فائدہ نہیں ملا ۔اسے اس وقت علاج کی سخت ضرورت ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ اس کے دونوں گردوں میں پتھری ہے جس کی وجہ سے یہ اکثر بیمار رہتی ہے ۔ چل پھر بھی نہیں سکتی ہے۔ میں اسے اپنے گھر کے اندر سے اٹھا کر باہر لے جاتی ہوں۔ اس کو بہت ساری مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری سرکار سے یہی مودبانہ گزارش ہے کہ میری بہن کو مفت علاج کروایا جائے تا کہ یہ جلد صحت یاب ہو جائے ۔حکومت کو میری بہن کے لیے اچھے اقدامات کرنے چاہئیں ۔اس سلسلے میں مقامی چوکیدار مہمد اسلم بتاتے ہیں کہ محترمہ شمیم اختر جن کا تعلق میرے گاؤں ڈوگیاں وارڈ نمبر 5 سے ہے،وہ بچپن سے ہی معزوری کی حالت میں ہے ۔پہلے وہ تھوڑا چل پھر سکتی تھی۔ لیکن اب یہ بلکل چلنے پھرنے سے قاصر ہو چکی ہے۔ اس کی پرورش اس کی بہن کر رہی ہے جو کہ خود بھی بیوہ ہے۔ یہ اپنی زندگی مشکلات سے گزار رہے ہیں۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ بہت ہی کم ہے۔ اس کی بہن خود لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گھر چلاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کے اس معذور لڑکی کے لیے اچھے اقدامات کئے جائیں ۔ انتظامہ اور محکمہ سماجی بہبودکی طرف سے اس کا مفت آپریشن کروایا جائے تا کے یہ بھی چلنے کے قابل ہو سکے ۔
اسی تناظر میں مقامی پینچ سلیمہ اختر کا کہنا ہے کہ معذور افراد کیلئے نقل و حرکت ٹیکنالوجی، معلومات اور عوامی مقامات تک رسائی کا حق عوامی زندگی میں حصہ لینے کے لئے حق سمیت دیگر بہت سے حقوق کی تکمیل کیلئے شرط ہے۔ لیکن مجھے یہ حالت کہیں نظر نہیں آتی ہے۔
اس وقت اسے علاج کی سخت ضرورت ہے۔ میں چاہتی ہوں کے معذور افراد کو ان کا حق دیا جائے لیکن معذور افراد کو ان کے حقوق نہیں دئیے جاتے ہیں۔ معذور خواتین کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے انہیں مناسب ازدواجی شراکت دار کے طور پر مسترد کر دیا جاتا ہے یا کام کی جگہ پر غلط شبیہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ معذور لڑکیاں اکثر تعلیم حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔ مثال کے طور پر معذور بچیوں کے خصوصی اسکولوں میں بھی عموماً لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ معذور خواتین کو ملازمت کی کوئی تربیت حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے۔ انہیں جسمانی جذباتی اور جنسی استحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے خاندان والے بھی انہیں صرف اس صورت میں چاہتے ہیں جب وہ ان کے لیے قیمتی صابت ہوں ۔میں چاہتی ہوں کے شمیم اختر کو حکومت کی طرف سے مفت علاج اور دیگر تمام ضروریات زندگی کی فراہم کی جائیں تا کہ یہ معذور لڑکیاں بھی دیش کی آواز بنے دیش کا دورہ حصہ بن سکیں ۔اگر ایسے ہی جنسی اور معذوری کا شکار رہی تو پھر دیش کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گا۔
اس لئے ہماری موجودہ حکومت کو چاہیے کے معذوروں کے حقوق جلد از جلد فراہم کئے جائیں تا کہ انہیں دوبارہ کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پینچ سلیمہ اختر کا کہنا ہے کہ معذور لڑکیوں کو معاشرے میں غلط نظریہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو تانے مارے جاتے ہیں اور کچھ افراد ان کو بوجھ سمجھتے ہیں ایسا کرنا بالکل غلط ہے۔ ہم سب کو مل کر ایسی تمام چیزوں کا معاشرے سے خاتمہ کرنا ہوگا تا کہ ایسے تمام معذور افراد آسانی سے اپنی زندگی گزار سکیں۔ہمیں اس بات کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایک بے سہارا معذور لڑکی کس کے سہارے جیے گی؟(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا