بندروںکے حملے سے زراعت متاثر

0
0
سپنا
کپکوٹ،اتراکھنڈ
بندروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہماری کاشتکاری سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے،بلکہ یوں کہیں کہ بالکل تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم جتنی بھی سبزیاں لگاتے ہیں، بندر آ کر سب کچھ تباہ کر دیتے ہیں۔ کئی بار میں اپنے بچوں کو صحن میں اکیلا چھوڑتی ہوں تو بندر آکر کاٹ لیتے ہیں۔ ہم سب خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری آمدنی کا واحد ذریعہ سبزیاں اگانا اور فروخت کرنا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ان بندروں کی وجہ سے ہمیں بھوکا رہنا پڑے گا۔ اگر انتظامیہ کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے، تو ہمیں روزگار کی تلاش میں گاؤں چھوڑنا پڑ سکتا ہے،‘‘یہ الفاظ اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے گروڈ بلاک کے پنگلو گاؤں کی رہنے والی 36 سالہ اوشا دیوی کے ہیں۔تقریباً 1950 افراد کی آبادی والے اس گاؤں میں زیادہ تر اعلیٰ ذات کے لوگ رہتے ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ لیکن جن کے پاس اپنی زمین نہیں ہے وہ یومیہ اجرت یا روزگار کے لیے دوسری ریاستوں میں چلے گئے ہیں۔ لیکن اس وقت گاؤں کا زرعی کام بندروں کے خطرے کی زد میں ہے۔ وہ کھڑی فصلوں اور تیار سبزیوں کے کھیتوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گاؤں کی ایک اور خاتون 38 سالہ کلاوتی دیوی کا کہنا ہے کہ ’’پورا گاؤں بندروں کی بڑھتی ہوئی دہشت سے پریشان ہے۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اپنی چھوٹی زمین پر بڑی محنت سے سبزیاں اگاتے ہیں۔ لیکن بندروں کا گروہ اسے مکمل طور پر تباہ کر دیتا ہے۔ ہم اپنی کاشتکاری کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی فصل تیار ہوتی ہے، بندر اسے جڑوں سے ہی تباہ کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر انتظامیہ نے اس مسئلے پر جلد قابو نہ پایا تو گاؤں والوں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
وہیں23 سالہ بھکتی کہتی ہیں، ’’بندروں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان دیہاتیوں نے بندروں کو بھگانے کی مہم بھی شروع کی تھی۔ اس کے لیے گڑوڑ بلاک کے دیگر گاؤں کے لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں احتجاج کیا تھا۔ لیکن آج تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بندروں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف تباہی مچا رہے ہیں تو دوسری طرف وہ جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینک رہے ہیں جس کی وجہ سے پورا ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ بندر کھیتوں میں اگنے والی سبزیوں کو مکمل طور پر خراب کر دیتے ہیں۔ ہم کچھ بھی باہر نہیں رکھ سکتے۔ نہ جانے کب تک ہمیں ان بندروں کی دہشت برداشت کرنی پڑے گی۔‘‘بندر نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ وہ گاؤں والوں پر بھی حملہ کر کے انہیںزخمی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسکول جانے والی طالبات کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گنجن، جو 11 ویں جماعت میں پڑھتی ہیں، کہتی ہیں، ’’اسکول جاتے ہوئے، بندر ہمارے بیگ چھین لیتے ہیں اور ہماری کتابیں اور نوٹ بک پھاڑ دیتے ہیں۔ ہم بندروں سے بہت ڈرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ہم پر حملہ کر کے ہمیں زخمی بھی کر دیتے ہیں۔ ہم اسکول آتے وقت ہمیشہ بندروں سے ڈرتے ہیں۔ ‘‘وہیں گاؤں کی آنگن واڑی کارکن، گوداوری دیوی کہتی ہیں، ’’پچھلے کچھ سالوں میں بندروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے سبھی گاؤں والے بہت پریشان ہیں۔ ہمارے پاس جو بھی ریکارڈ ہے، بندر انہیں چھین کر تباہ کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا کام بہت متاثر ہو رہا ہے۔ ریکارڈ کی تباہی کی وجہ سے ہمیں اعلیٰ حکام کو جواب دینا پڑتا ہے اور ضرورت پڑنے پر دوبارہ ریکارڈ تیار کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جو بندروں کی اس دہشت سے پریشان نہ ہوا ہو۔‘‘اس حوالے سے پنگلو گاؤں کے سر پنچ پون سنگھ کھاٹی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے اپنی سطح پر پوری کوشش کی لیکن بندروں کی دہشت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی زراعت تباہ ہو رہی ہے۔ بچوں کے کاٹنے کا خوف ہمیشہ رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں۔ اس کے لیے ہم نے بلاک سطح تک عہدیداروں سے بات کی لیکن کوئی مثبت حل نکلتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اب ہم نے سب کچھ حکومت پر چھوڑ دیا ہے۔ اب پتہ نہیں ہمیں اس سے نجات کب اور کیسے ملے گی؟نہ جانے ہمیں اسی طرح بندروں کی دہشت کا کب تک سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
اس حوالے سے گاؤں کی سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ بندروں کی یہ دہشت صرف پنگلو گاؤں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ گڑڑ بلاک کے دیگر دیہات میگڑی اسٹیٹ، راولیانہ، جوڑا گائوں، گگری گول اور نوگھڑ میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس بلاک کی ایک بڑی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دیہات میں کسان جہاں گندم اور دھان کی فصلیں اگاتے ہیں وہیں دوسری طرف وہ لہسن، ہلدی، کالی دال، سرسوں، لوکی، کدو، شملہ مرچ اور بیگن سمیت بڑی مقدار میں سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔ جسے بندروں کی ایک بڑی فوج تباہ کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔ بندروں کے حملوں سے بچے، بوڑھے، بچیاں اور خواتین زخمی ہو رہے ہیں۔نیلم نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ان تمام دیہات کے ہزاروں مکینوں نے بلاک ہیڈ کوارٹر پر احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ان بندروں کو یا تو پکڑ کر چڑیا گھر بھیج دیا جائے یا پھر دور جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے تاکہ انسانی آبادی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ بندروں کی بڑھتی ہوئی دہشت کی ایک وجہ ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ ایسے میں گاؤں والوں کا مطالبہ ہے کہ بندروں کی نس بندی کی جائے تاکہ مستقبل میں ان کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جا سکے۔ نیلم نے کہا کہ جب تک انتظامیہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے گی اس وقت تک مسئلے کا مستقل حل نکالنا ممکن نہیں ہے۔ انتظامیہ کو اس کی سنجیدگی کو بروقت سمجھنا ہو گا تاکہ گاؤں والوں کو مالی نقصان سے بچایا جا سکے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا