ریاست جموں وکشمیر اور پیر پنجال کا سیاسی، مذہبی اور سماجی صورتحال کا مختصر تجزیہ

0
0

غلام سرور شاہین
سرنکوٹ پونچھ

تینوں صورتوں کو ایک خاص تناظر خاص وقت اور خاص حالات میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پریشانت کشور سیاسی مبصر ہیں، انہوں نے حال میں ہی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلم ہندوستان میں آبادی کے لحاظ سے ہندوستان اور مسلم ملکوں کے آبادی تناسب سے دوسرے نمبر ہونے پر بھی کیوں کوئی ایک رہمنا پیدا نہیں کر پائے اور ہر وقت کسی راہل گاندھی یا نریندر مودی کی تلاش میں رہتے ہیں، جبکہ کوئی مطلب کوئی بھی آدمی باشمول پریشانت کشور کبھی آپکی اپنی بات آپکے لئے بات بغیر کسی خاص انتخابی موسم یا مقصد کے نہیں کرے گا۔ سیاست سمجھنے اور پرکھنے میں وقت لگتا ہے خاصہ سیاسی تجربہ تجزیہ اور مطالعہ کرنے کے بعد سمجھ آتی ہے۔ جیسے بھاجپا کی سیاسی چالیں نہ سمجھ پانا یا دیر سے سمجھنا حال کی بہترین مثال ہے۔ جبکہ ہمیں دیکھو ہمارے رہمناؤں اور عوام کو سمجھو تو انکو ایک عام گوار آدمی بھی دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ یہ جو کر رہے ہیں وہ گاؤں کی پنچایت اور کچہری سے بڑھ کر کچھ نہیں اور انکے سارے مفادات کی اہمیت بھی ایک دوسرے کے لئے نقصان اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے بڑھ کر نظر نہیں آتی۔ تو ہم سیاسی کہاں ہیں ہم بھیڑ چال اور ہوا کیساتھ چلنے والی ریوڑ ہیں۔ گو کہ جدید ریاستی نظام جمہوریت ہے اور الگ الگ جغرافیائی، آبادی کا تناسب مختلف ہوتے ہوئے کوئی جامعہ اور مبینہ اصول سمجھنے اور طے کرنے میں کافی مطالعے تجزیہ اور آراء کمی سے پیش کرنا مشکل سمجھتا ہوں مگر جموں و کشمیر کا چونکہ آبادی تناسب اکثریت مسلمان اور مقامی جماعتوں کی موجودگی میں مسلمانوں کا اکثریتی رجحان جو سمجھ آتا ہے تو یہ کہنے میں عار نہیں ہوتی کہ مسلمان نسل خاندان علاقہ یا خون کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ فکر و نظر عقائد اور ایمان کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ فقہی بحث اپنی جگہ مگر اخلاقی قدریں اصول و انصاف اور ایماندار سیاست کی اسلام میں کثیر مثالیں ہیں۔ بلکہ سیاسی پہلو چھوڑ کر بھی ، اسلام میں نمرود کے مقابلے میں حضرت ابراہیم کا، فرعون کے مقابلے حضرت موسیٰ کا، اصہاب کہف کے مقابلے وقت کے بادشاہ کا، اور اسی طرح ہر نبی کا مقابلہ اپنے وقت کے فرعونوں کا اور خود محمد ? اور آپکے صحابہ کے مقابلے کفار مکہ کا اور کربلا میں حضرت حسین کے مقابلے یزید کا ہوا اس میں سے ایک کامن مسئلہ تھا وہ اصول کا انصاف کا اور عدل و حقانیت کا تھا جس کے مقابلے وقت کی فرعونیت کو للکار کر ذبح ہونا تو قبول تھا مگر بیعت قبول نہیں کی گئی۔ میرے لئے وہی اصول ہیں انکی روشنی میں وقت کی فرعونیت اور یزدیت پر بعیت کرنے والے اور مقابلے میں کھڑے دیکھ لیجئے اور فیصلہ خود کر لیجئے کہ کون ہے کتنا گنہ گار کہوں یا نہ کہوں۔
کوئی بھی دوسری ہندوستانی جماعت اسلامی نہیں ہے مگر مسلمانوں کی کھلم کھلا دشمن بھی نہیں رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے ریاستی تخفظات اور اکثریت پرستی کی دھن میں وہاں بھی ظلم و زیادتی ہوئی ہیں مگر وہاں آپکو بولنے کی اپنی بات رکھنے کی پوری آزادی حاصل ہوتی تھی جو جمہوری طریقہ بھی ہے۔ آپکی عبادت گاہیں، آمد و رفت اور رہن سہن قدرے مخفوظ تھا جبکہ یہاں آپ اقلیت میں ہونے کہ سبب فرقہ واریت کا شکار بری طرح ہوتے ہیں ہورہے ہیں اور سرکاری پشت پناہی سے مذید ہونگے۔ ایسے میں موجود صورتحال کے پیش نظر کوئی دائیاں بازوں یا سنٹر(کانگرنس وغیرہ )نظریہ والی سرکار ہی ہندوستان اور اسکی اقلیت کے حق میں صحیح نظر آتی ہیں۔
کوئی بھی سرکار انتظامی طور پر اور ریاستی ترقی، خوشحالی اور خیر خواہی کیلئے کوشاں ہونا اسکی ذمہ داری ہوتی ہے جو شاید بھاجپا بھی ہو۔ مگر جہاں سوال ہے مسلم اقلیت کی وجودی تخفظ کا تو اسکا انکار کرنا(ہر جماعت مسلمانوں کی دشمن ہے لہذا بھاچپا بھی اسی طرح ہے یا زیادہ خیر خواہ ہے) اپنے مفاد بچانے کیلئے ایسا ہی ہے جیسے دن میں روشنی ہونے کا انکار کرنا۔ جہاں اسلامی نقطہ نظر کی بات ہے اگر کوئی حضرت امام حسین کا کربلا والے موقف کے خلاف ہو اور اسلام سے محبت رکھتا ہو آپ اسے کیا سمجھتے ہیں۔اسلام کے نزدیک تو وہ یزید ہی ہے۔ اب کوئی اپنی یزدیت پسند نظریہ کو کسی بھی طرح صحیح ثابت کرے تو اس کربلا کا خیر و شر کا متن اور مقصد ختم تو نہیں ہوجائے گا۔ باقی کون پارٹی اچھی تھی کون سی ہے اسکو بحث کئے بغیر مسلمانوں کا ابھی مجموعی حال دیکھ لو تو جواب خود مل جائے گا۔
چونکہ سیاسی شعور اور آگاہی مجموعی بیداری، مثبت اقدام اور ملی ترقی اور قدروں کا خیال رکھتا ہے ایسے میں سیاسی آگہی اور شعور کی عدم موجودگی میں سماجی قدریں خود دست و گریباں ہیں۔ کشمیری کشمیری کا دشمن ہے تو وقتی اور ذاتی مفاد پر ہے پہاڑی گجر تصادم ہے تو وہ ایس ٹی مراعات کی حق و مخالف مفاد پر ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کون حق دار کون نہیں لیکن اگر پہاڑی طبقہ سچ میں ST کو اپنا حق سمجھتا ہے تو حق کی طرح ریاست سے حقوق کی مانگ کیوں نہیں کررہا تھا؟ (جیسے کیسان اپنا حق مانگ رہے ہیں مگر وہ باجھپا کی نوکری یا شرائط پر تو نہیں کررہے یا یہ تو نہیں کہہ رہے کہ اگر ہماری مانگیں پوری ہوئی تو ہم بھاچپائی ہونگے یا ووٹ دیں گے اسلئے ہماری مانگیں پوری کرو) کیوں جونک در جونک پہاڑی سیاسی طبقہ بھاجپا میں داخل ہورہا ہے؟ اگر حق ہے تو وہ حکومت کی شرائط کیوں پھر تو حقداری کے اصولوں پر ہونا چاہیے۔
اور یہی صورتحال گجروبکروال سیاسی گروہ کے چند لوگوں کی ہے جو عرصے سے گجر و بکروالوں اس نام پر بیوقوف بناتے رہے کہ وہ بھاجپا کا دامن تھام لیں ایس ٹی مراعات مخفوظ رہیں گی جبکہ یہ خالص آئینی تقاضا اور حق ہے۔
مذہبی اعتبار سے بھی دیکھئے تو صاف نسلی تعصب سماجی تفریق ذات کے نام پر قبیلے کے نام پر علاقہ کے نام پر زبان کے نام پر وغیرہ کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ یہ سیاسی باشعور سماجی قدرداں اور مذہبی ایماندار معاشرے نہیں ہوتے اور اسلئے ہم وقت کی تیز ہوا کی لپیٹ میں ریوڑ کی طرح ہانکے جارہے ہیں اور جاتے رہیں گے جب تک کہ خود احتسابی کے آئینے میں ہمیں اپنا آپ اسطرح صحیح نظر آتا رہے گا۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا