عام انتخابات2019میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے تاریخی جیت حاصل کی اورملک بھرنے متحدہوکروزیراعظم نریندرمودی کوووٹ دیا،اِسی طرح ریاست جموں وکشمیرسے بھاجپااپنی تینوں نشستوں پرقبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہی نہیں رہی بلکہ اوربھی بہترکارکردگی کامظاہرہ کیاگیااورجموں صوبہ کی دونشستوں سے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے،لیکن بھاجپاسے کامیابی دہرانے والے اُمیدواروں کویہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ انہیں عوام نے ووٹ نہیں دیابلکہ ووٹ نریندرمودی کودیااوربھاجپاکودیا،اور یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جگل کشور شرمااور ڈاکٹر جتیندرسنگھ کے ناموں کااعلان ہونے کے بعد سے ہی بھاجپاحامیوںاورعام لوگوں میںایک غصہ ضرور تھالیکن وہ مودی کے ہاتھوں مجبورتھے، جگہ جگہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عام لوگوں نے ایم پی سے متعلق پوچھے جانے پریہی کہاکہ ایم پی صاحب توکبھی یہاں آئے ہی نہیں البتہ چناوی مہم میں آجاتے ہیں، ووٹ مانگنے آجاتے ہیں، جگل کشورشرماکیخلاف کافی غصے وناراضگی کامظاہرہ کیاگیالیکن ساتھ ہی لوگوں نے یہ کہاکہ وہ ووٹ ضائع نہیں کرناچاہتے اور مودی کووزیراعظم بنانے کیلئے انہیں اپناووٹ بھاجپاکوہی دیناہے،اگریوں کہاجائے کہ ان اُمیدواروں کو لوگوں نے ووٹ ’جوتے مارمارکر‘دئےے توغلط نہ ہوگاکیونکہ ان کی کارکردگی پرسوال اُٹھائے گئے، ان کی پانچ برسوں کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار دی گئی، خطہ پیرپنجال کے اور چناب کے عوام خاص طورپربھاجپاسے منتخب دونوں ارکان پارلیمان سے نالاں نظر آئے لیکن مرکزمیں ایک مضبوط سرکاراور وزیراعظم نریندرمودی کوپھر سے دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب کرنے کے جذبے کیساتھ لوگوں نے بھاجپاکوووٹ دئےے، بھاجپاکے اودھمپور۔کٹھوعہ سے کامیاب ہونے والے ڈاکٹر جتیندرسنگھ نے جس طرح کٹھوعہ میں صحافیوں کودھکے مارے، بدتمیزی کامظاہرہ کیا، وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے، اس قدر غرور میں چُورہوناحیران کن ہے، ایک سلجھے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم پی وپی ایم اومیں وزیرمملکت ہونے کے باوجود بات کاسلیقہ طریقہ نہ سیکھ پاناانتہائی افسوسناک ہے،اب انہوں نے بلاشبہ بھاری اکثریت کیساتھ کامیابی حاصل کی ہے لیکن وہ ووٹ انہیں نہیں بلکہ وزیراعظم مودی کوملے ہیں، وہیں جموں پونچھ نشست سے کانگریس اُمیدوار رمن بھلہ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے واضح کیاکہ ان کامقابلہ بھاجپااُمیدوارسے نہیں تھا، بھاجپااُمیدوار مقابلے میں ہی نہیں تھا، بلکہ ان کامقابلہ براہ راست مودی صاحب سے تھا، ان کی بات میں بھی دم ہے، اب بھاجپاکے دونوں نومنتخب ارکان پارلیمان کو اپنی شبیہ سدھارنے کیلئے محنت کرنی چاہئے، مودی کے نام پر اپناوجود برقرار رکھنے کے بجائے عوام کے کام کریں، عوام میں اپنی موجودگی درج کرائیں اور عوام سے رابطے بحال وبرقرار رکھیں۔