پشپا/میناکشی
باگیشور، اتراکھنڈ
’’اسکول میں اپنی سہیلیوں کو دیکھ کر، مجھے بھی لگتا ہے کہ میں اپنا پسندیدہ کھانا اور کپڑے خریدوں، لیکن مجھے اپنی خواہشات کو دبانا پڑتا ہے کیونکہ میرے والدین کے پاس روزگار کا کوئی اچھا ذریعہ دستیاب نہیں ہے، ایسے میں وہ ہمیں یہ سب کچھ فراہم نہیں کرا سکتے ہیں۔میرے والد نے 12ویں تک تعلیم حاصل کی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی نوکری نہیں ملی جس کی وجہ سے انہیں یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے جس میں آمدنی بہت کم ہے۔ایسے حالات میں ہمیں اپنی خواہشات کو مارنا ہے۔‘‘ یہ بات اتراکھنڈ کے پنگلو گاؤں کی ایک نوعمر پوجا کا کہنا ہے۔ 11ویں کلاس میں پڑھنے والی پوجا کا یہ گاؤں باگیشور ضلع کے گروڈ بلاک سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔تقریباً 1965 افراد کی آبادی والے اس گاؤں میں 85 فیصد اعلی ذات کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں کی شرح خواندگی بھی دیگر دیہاتوں سے زیادہ ہے۔ پنگلو میں خواندگی کی شرح تقریباً 86 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے باوجود گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان ملک کی دوسری ریاستوں اور میٹروپولیٹن شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے گاؤں کے ایک 65 سالہ بزرگ کیدار سنگھ کا کہنا ہے کہ’’گاؤں میں نوجوانوں کو روزگار نہیں مل پاتا، اگر انہیں روزگار مل بھی جائے تو انہیں پورے دن صرف 400 روپے اور خواتین کوصرف 250 روپے ملیںگے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔وہ پیسہ کمانے کے لیے باہر جانے پر مجبور ہیں،گائوں میں اتنی کم آمدنی کے باعث ان کا پیٹ بھی پورا نہیں ہوتا ہے۔ ان کے خاندان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں۔ایسی صورت حال میں زیادہ تر خاندانوں کے بچوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑ اکر کام پر لگا دیتے ہیں۔ ‘‘کیدار سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر گاؤں میں ہی روزگار کے مواقع میسر ہوں تو ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔گاؤں کی ایک 40 سالہ خاتون دیپا دیوی کہتی ہیں’’بچوں کو تعلیم حاصل کرانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ انہیں نوکری تونہیں ملتی ہے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ گھر میں بے روزگار بیٹھے رہے نگے۔ انہیںروزگار کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں ہوتاہے۔یہاں بہت سے لوگ شہر کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔ زیادہ تر گھروں پر تالے پڑے ہیں۔‘‘ دیپا دیوی کی شکایت ہے کہ ہمارے گاؤں کے سرپنچ کو اس کی خبر نہیں ہے۔ وہ گاؤں میں کوئی منصوبہ نہیں لاتے ہیں۔جس سے کہ نوجوانوں کو گائوں میں ہی روزگار حاصل ہو سکے۔ وہیں سیلف ہیلپ گروپس سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے۔وہیں 46 سالہ دھنا دیوی کہتی ہیں’’ گاؤں میں روزگار کے نام پر صرف زراعت سے متعلق کام بچا ہوا ہے۔ جو لوگ گھر اور خاندان کو نہیں چھوڑ سکتے، وہ یا تو اپنی چھوٹی سی زمین پر کھیتی باڑی کر کے روزی کماتے ہیں یا پھر یومیہ مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ ہم کسی نہ کسی طرح مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ہم اپنے گھر کے اخراجات بھی کھیتی باڑی سے چلاتے ہیں۔لیکن اس میں زیادہ منافع نہیں ہوتا۔کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے ٹریکٹر کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ سرمایہ کاری کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کی زیادہ تر خواتین سیلف ہیلپ گروپس میں شامل ہوتی ہیں اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ کام کرتی ہیں۔‘‘وہیں42 سالہ جشودا دیوی کا کہنا ہے کہ ’’میں اپنی گھریلو آمدنی کمانے کے لیے سویٹر بنانے کا کام کرتی ہوں، پہلے ہم کھیتی باڑی سے ہی تھوڑا سا انتظام کیا کرتے تھے، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے گاؤں میں بندروں نے تباہی مچا دی ہے۔ بڑی تعداد میںبندر تیار فصل پر حملہ کرتے ہیں اور پوری فصل کو روند دیتے ہیں، اگر کوئی انہیں بھگانے کی کوشش کرتا ہے تو سارے مل کر اس پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیتے ہیں۔ کئی بار ہم لوگ بندروں کے خوف سے بچانے کے لیے انتظامیہ سے درخواست کی اور احتجاج بھی کیا لیکن اب تک فصلوں کو بندروں سے بچانے کے لیے انتظامی سطح پر کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ گاؤں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے میرے بیٹے کو باہر جا کر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ میں ایک سیلف ہیلپ گروپ سے بھی وابستہ ہوں۔‘‘
ایک اور خاتون لیلا دیوی کہتی ہیں، ’’میرے چار بیٹے ہیں اور سب کے سب بے روزگار ہیں۔ ہم گھر میں ہلدی کی کاشت کرتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ لیکن اب بندروں کی دہشت کی وجہ سے وہ بھی ختم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف سیلف ہیلپ گروپ سے صرف قرض ملتا ہے، کوئی کام نہیں ملتا۔‘‘ 30 سالہ پوجا دیوی کا کہنا ہے کہ ’’میں نے یوٹیوب سے ٹیلرنگ سیکھ کر اپنا کاروبار قائم کیا ہے۔ میں نے اسے سیکھنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔ میرے والد ایک درزی ہیں، لیکن ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے انہوں نے مجھے یہ ہنر کبھی نہیں سکھایا۔ میرے دو بچے ہیں اور آج میرا خاندان اسی کے ذریعے زندہ ہے۔‘‘اس حوالے سے گاؤں کے سرپنچ پان سنگھ کا کہنا ہے کہ گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، نوجوان دہلی، ممبئی، سورت، امرتسر اور دیگر شہروں کے ہوٹلوں اور ڈھابوں پر کام کرنے کے لیے جا رہے ہیں، وہ بے بس ہیں۔ زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گاؤں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ گاؤں میں روزگار کی گارنٹی ’منریگا‘میں صرف ایک یا دو ماہ کام آتی ہے ۔ اس کے بعد چھ ماہ تک سارے کام رک جاتے ہیں۔ اسی لیے اب نوجوان منریگا کا کام چھوڑ کر میٹرو شہرکی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔‘‘ اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ’’پنگلو گاؤں میں خواندگی کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود روزگار کی شرح بہت کم ہے، جو کہ تشویشناک بات ہے۔ جس کی وجہ سے گاؤں میں غربت بھی بڑھ رہی ہے۔اس سے بچوں اور سب سے زیادہ نقصان نوجوان طبقے کو ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا مستقبل نہیں بنا پا رہے ہیں۔دوسری طرف دیہات میں بندروں کی بڑھتی ہوئی دہشت سے کھیتی باڑی بھی تباہ ہو رہی ہے۔جس کی جانب حکومت اور مقامی انتظامہ کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے ستمبر 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح پہلے کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ جہاں اگست 2023 میں ملک کے دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.11 فیصد تھی، وہیںصرف ایک ماہ بعد ستمبر 2023 میں یہ تعداد کم ہو کر 6.20 فیصد پر آ گئی۔ یقیناً اس اعداد و شمار کو خوشگوار کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اتراکھنڈ کے اس دور افتادہ پنگلو گاؤں میں نوجوان جس طرح سے روزگار کے لیے ہجرت کر رہے ہیں، پڑھے لکھے ہونے کے باوجود انہیں نوکری نہیں مل رہی ہے۔ایسے میں یہ سچائی اس اعداد و شمار کو آئینہ دکھا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں کہ گاؤں والوں کو اپنے گاؤں میں روزگار کے مواقع مل سکیں جس سے کہ ان کے بچوں کو اپنی خواہشات کا گلا نہ گھونٹنا پڑے۔ (چرخہ فیچرس)