از قلم : مدثر آحمد ، مدیر ۔ روزنامہ آج کاانقلاب ۔ شیموگہ
9986437327
اردو زبان کا ایک محاور ہ ہے کہ اندھا کیا چاہے ۔ دو آنکھ ، اسی طرح سے آج کل کرناٹک میں سیاست کا ایسا ناٹک دیکھنے کو مل رہاہے جو عام لوگوں کی نظر میں تشویش کی بات ہے لیکن جانکاروں کی نظر میں یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ ریاست کے سینئر کانگریسی لیڈرو سابق ریاستی وزیر آر روشن بیگ نے الیکشن سے قبل کانگریس پارٹی کے تئیں اپنی برہمی کااظہار کیا تھا اور انہوںنے کہا تھا کہ مسلمان کانگریس پارٹی کے ذرخرید غلام نہیں ہیں اور نہ ہی بندھوا مزدور ہیں ۔ کرناٹک میں الیکشن ختم ہونے کے بعد انہوںنے کانگریس پارٹی کی اندرونی کیفیت کو جس طرح سے بیان کیا اس کے بعدسے تو ریاست بھر میں ہنگامہ بر پا ہوا اور اسی ہنگامے کے ساتھ کرناٹک کی سیاست میں نئے باب کا آغاز ہونے جا رہاہے ۔ روشن بیگ نے اپنے جذبات کااظہار اس وقت کیاہے جب انہیں انکی ہی پارٹی نے نظر انداز کیا ہے اور انہیں نظر انداز کروانے کے لئے خود روشن بیگ کی قوم سے جڑے ہوئے لوگ ہی ہیں ۔ ایک طرف دوسری قومیں اپنوں کو سیاست ، تعلیم ، ثقافت اور معاشیات میں آگے لانے کے لئے اپنے مفادات کی قربانیاں دیتی ہیں تو دوسری جانب مسلمان قوم میں اپنوں کو ہی کاٹنے اورتوڑنے کا کام نہایت مکاری کے ساتھ انجام دیا جارہاہے ۔ اب روشن بیگ نے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کی پول کھول دی ہے ، اس پر سوشیل میڈیا سمیت سیاسی گلیاروں میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں ، منفی و مثبت ارادے پیش کئے جارہے ہیں ۔ روشن بیگ کانگریس میں رہتےہیں یا نہیں ، روشن بیگ جے ڈی یس میں جاتے ہیں یا نہیں ، روشن بیگ بی جے پی کا دامن تھامتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس پارٹی میں مسلمان حقیقی طور پر بندھوا مزدوروں کی طرح جی رہے ہیں ، انکی اس پارٹی میں ووٹ بینک کے علاوہ اور کوئی اوقات نہیں ہے ۔ الیکشن کے موقعوں پر انہیں یاد کیا جاتاہے ۔ الیکشن کے موقعوں پر ان سے مزدوری کروائی جاتی ہے اور جب عہدے دینے کا وقت آتاہے تب انہیں نظر انداز کردیا جاتاہے تو ایسی پارٹی میں جب بغاوت کا اعلان ہورہاہے تو کانگریس کے دوسرے لیڈران خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں ؟۔ کانگریس کے وہ تمام لیڈران اپنے ضمیر کو گوارہ بنا کر بتائیں کہ کیا انہیں وہ حقوق دئے جارہے ہیں جو دوسری قوموں اور ذاتوں کو مل رہے ہیں ؟۔ انہیں سوائے اقلیتی شعبے کے عہدوں کے اور کسی عہدے کے لائق نہیں سمجھاجاتاہے ۔ انہیں عہدے دینے کی بات آتی ہے تو صرف وقف بورڈ اور اردو اکادمی کا راستہ دکھایا جاتاہے اور یہ وہ عہدے ہیں جس میں چنے تو ہیں لیکن دانت نہیں ہیں ۔ سوائے سی یم ابراہیم کے اور کسی سیاسی لیڈر نے روشن بیگ کے خیالات کی تائید نہیں کی ہے ۔ سی یم ابراہیم اور روشن بیگ کے علاوہ کانگریس میں اور بھی کئی مسلم لیڈران ہیں مگر انہوںنے اف تک نہیں کیاہے اور سب کی یہی کوشش ہے کہ کیسے بھی روشن بیگ کا پتہ کٹ جائے ، انکے بعد ہم ہی بادشاہ ہونگے ۔ جو مسلم لیڈران کانگریس میں ہیں وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں مسلمانوںنے اپنا قائد بنایا ہے ، انکی شناخت مسلمانوں سے ہے ، اگروہ مسلمان نہ ہوتے تو انہیں کانگریس کا کتا بھی نہیں پوچھتا ۔ کانگریس میں ٹاپ ۔ ٹو ۔ باٹم ۔ مسلمانوں کا سیاسی و سماجی استحصال ہوتاآیاہے ایسے میں مسلمانوںنے کبھی بھی اس پارٹی پر دبائو ڈالنے کے لئے پہل نہیں کی ۔ صرف الیکشن کے موقعوں پر علماء عمائدین اور سماجی تنظیموں کے ذمہ داران وفد وں کی شکل میں جاکر کانگریس کے سینئر لیڈروں سے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے اپنے نمبر بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بات حقوق کی آتی ہے تو سب بھیگی بلی بن کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ روشن بیگ بھلے ہی اپنے مفاد کی خاطر آواز بلند کررہے ہیں لیکن انکی بات میں سچائی ہے اور اس سچائی کو مسلمانوں کو قبول کرنا ہوگا ۔ یڈویورپا پر جب ہائی کمان سے شکنجہ کسا گیا تھا اسوقت نہ صرف لنگایت سماج کے لوگ انکے ساتھ کھڑے ہوئے تھے بلکہ انکے مٹھوں کے سوامی اور پجاری باقاعدہ طورپر بی جے پی کی ہائی کمان پر دبائو ڈالتے رہے کہ وہ یڈویورپا کو انکے حقوق سے محروم نہ رکھیں ، لیکن ہمارے یہاں مثال ایسی ہوچکی ہے کہ ایک بادشاہ کے بیمار پڑھتے ہی جس طرح سے شہزادے اگلے حکمران بننے کے لئے آپسی رسہ کشی کرتے ہیں اسی طرح سے روشن بیگ کے ہٹنے کے بعد انکا مقام حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ کوئی اگلا حج کمیٹی کا صدر بننے کی خواہش ظاہر کررہا ہے تو کوئی شیواجی نگر سے اگلا یم یل اے بننے کا دعویدار ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت پروان چڑھے تو کیسے چڑھے ؟۔ روشن بیگ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملائینگے، ان کے اس بیان پر شدیدمنفی تبصرے پیش کئے جارہے ہیں ۔ جب کوئی ندی کے پاٹھک پر کھڑے ہوکر یہ کہے کہ میں خود کشی کرنے جارہاہوںتو اسے بچانے کے لئے لوگ منت سماجت کرتے ہیں ، اسے بچانے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں نہ کہ اسے دھکا مارکر ندی میں گرا دیا جاتاہے ، اب روشن بیگ نے یہ کہا ہے کہ میں بی جے پی کو جاسکتاہوں تو ایسے وقت میں ملت کے ذمہ دار ،علماء جنہوںنے روشن بیگ کے دور اقتدار میں ہر ممکن فائدہ اٹھایا ہے وہ اب کیوں اپنی زبانیں نہیں کھول رہے ہیں ؟۔ سب سے بڑا المیہ ہماری ان تنظیموں کا ہے جنہوںنے الیکشن کے وقت ریاست بھر کے اضلاع و حلقوں کا دورہ کرتے ہوئے کانگریس کے حق میں ووٹ دینے کی گزارشیں کی تھی ، گزارشیں کیا فتوئے کی طرح احکامات جاری کئے تھے وہ بھی اب کانگریس ہائی کمان پر دبائو ڈالنے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ انہیں کیا اگلے الیکشن تک انہیں کوئی اور اسپانسر مل جائیگا اور وہ پھر ملت کے نام پر دوروں پر نکلیں گے ۔ سوشیل میڈیا پر کچھ لوگ ویڈیوز جاری کررہے ہیں اور کچھ واٹس اپ اور فیس بک پر روشن بیگ پر بدترین تبصرے کررہے ، کیا کبھی ڈی کے شیوکمار کے تعلق سے اسکی قوم نے کبھی کوئی تذکرہ کیا ہے ؟۔ جس وقت یڈویورپا اپنے مفادات کی خاطر انہیں جنم دینے والی بی جے پی کو چھوڑ کر کے جے پی کی تشکیل دی تھی تو کیا اسوقت لنگایتوں نے یڈویورپا کو بر ابھلا کہا تھا ؟۔ اس وقت تک لنگایتوں نے جم کر یڈویورپا کی تائید کی تھی مگر ہماری قوم کو کیا ہوگیا ؟۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ مسلمان روشن بیگ کے ساتھ بی جے پی کو جانے کا عزم کریں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس پارٹی سے روشن بیگ کا تعلق ہے اس پارٹی پر دبائو ڈالیں کہ پارٹی میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیاں بند کریں ۔ جب لیڈروں کو ہی یہ لوگ انکا حق دینے سے کتراتے ہیں تو آگے چل کر عام مسلمانوں کو کیا حق دینگے ؟۔اگر ہم سمجھتے ہیں کہ کانگریس ہی ہماری سیاسی بقاء کا واحد ذریعہ ہے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے ، ہم نے کانگریس کو اپنے خون کا گروپ سمجھ رکھا ہے ۔ سب انسانوں میں اے ، بی، او گروپ کا خون ہوتاہے لیکن ہم مسلمانوں کے پاس "سی ” گروپ بھی ہے وہ ہے کانگریس گروپ ۔ اور ہم ایک طرح سے کانگریس کو لے کر ذہنی غلام بن چکے ہیں ۔ جب بغاوت کی چنگاری اٹھی ہے تو اس چنگاری سے آگ لگاکر تباہی بھی مچائی جاسکتی ہے یا پھر اسی آگ کی چنگاری سے مستقبل کو روشن بھی کیا جاسکتاہے ۔ حالیہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کی ہی مثالیں لیں ۔ کس طرح سے کانگریس پارٹی نے مسلمانوں کو نظر انداز کردیا تھا ؟۔ کرناٹک کے ڈی سی یم ڈاکٹر جی پرمیشور نے یہ بیان دیا تھا کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کے لئے مجبوری ہے اور انکے پاس متبادل سیاسی ذریعہ نہیں ہے ۔ ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہم مسلسل دھتکارے جارہے ہیں لیکن دھتکارنے والے کا دامن چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ ہمارے منہ پر تھوکا جارہاہے اور ہم اسی تھوک سے منہ صاف کررہے ہیں ۔ بہتر ہے کہ مسلمان موجودہ حالات میں کانگریس پر دبا ئو ڈالیں کہ وہ صرف ووٹ بینک نہیں ہیں بلکہ انہیں بھی حق دیا جائے ۔ رہی بات بی جے پی سے خوف دلانے کی ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ
ؔ ان اندھیروں کا جگر چیر کے نور آئے گا ۔ ۔۔تم ہو فرعون ، تو موسیٰ بھی ضرور آئیگا ۔
مسلمانوں کو بی جے پی کے خوف سے خوفزدہ کرنے والی کانگریس صرف اتنا چاہتی ہے کہ مسلمان اسے چھوڑ کر نہ جائے ، جس طرح سے شعلے فلم میں گبر سنگھ کا ڈائیلاگ ہے کہ چپ ہو جابچے ورنہ گبر آجائیگا ، اسی طرح سے کانگریس مسلمانوں کو یہ کہہ کر خوف میں مبتلا کرتی رہی ہے کہ چپ ہوجا مسلمان ورنہ مودی آجائیگا ۔ کانگریس ماضی بھی بی جے پی سے بہتر نہیں ہے ،لیکن یہاں اس پر تبصرہ کرنے کے بجائے ہم اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ مسلمان اپنی سیاسی بقاء کی خاطر دوسروں کو قربانی کا بکر ابنانے سے بہتر اپنوں کی حفاظت کرنے کے لئے آگے آئیں ، اگرروشن بیگ کے قدم برہمی کی وجہ سے بہکے ہوئے ہیں تو ان قدموں کو مضبوطی دے کر انہیں واپس لائیں اور انکے حق میں آواز اٹھائیں یہ وقت کی ضرورت ہے ، ورنہ آج روشن بیگ تو کل سی یم ابراہیم ، پرسوں یو ٹی قادر اسکے بعد تنویر سیٹھ ، یو ں ہی سلسلہ چلتا رہے گا اور مسلمان ہر بار دھوکہ کھاتے رہیں گے آخر میں کہیں گے کہ ہمارا کوئی رہبر نہیں ہے اور ہم سیاسی قیادت سے محروم ہیں ۔ ایسے حالات پر ہی شاید حفیظ میرٹھی نے ایک غزل کہی تھی جس کے اشعار کچھ یوں ہیں ۔
ؔ اندھیروں سے ڈرے کیوں دل ہمارا
بہت روشن ہے مستقبل ہمارا
شہید جستجو ہوکر تو دیکھیں
پتہ پوچھے گی خود منزل ہمارا