۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
ہر سال 700000 سے زیادہ لوگ خودکشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
خودکشی 15-29 سال کی عمر کے لوگوں میں موت کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔
عالمی خودکشی کے 70 فیصد واقعات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں زیادہ ہوتے ہیں۔
عالمی سطح پر خودکشی کے سب سے عام طریقوں میں کیڑے مارنے والی دوا کا استعمال،پھانسی اور آتشی ہتھیار سب سے اہم ہیں۔ہر سال 703000 لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں اور بہت زیادہ لوگ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔خودکشی ایک المیہ ہے جو خاندانوں،برادریوں اور پورے ملک کو متاثر کرتا ہے اور پیچھے رہ جانے والے لوگوں پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔
انسانی جان کو حرمت حاصل ہے چاہے اپنی جان ہو یا کسی غیر کی، سور النساء آیت نمبر 29 میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ولاتقتلوا انفسکم جس کے لفظی معنی یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اس میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ کوئی ایک دوسرے کو ناحق قتل نہ کرے۔جس طرح دوسروں کی جان محترم ہے اسی طرح اپنی جان بھی محترم ہے۔ اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی اپنی یا کسی اور شخص کی جان لے۔خود کشی کرنا قانوناً جرم ہے اور یہ کبیرہ گناہ بھی ہے۔خود کشی کے بہت سے محرکات ہوتے ہیں مثلاً شوہر یا بیوی کی بیوفائی، گھریلو جھگڑے،قرض کا بوجھ اور اس کی ادائیگی میں ناکامی،طلبائ کا امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس نہیں کرنا،والدین کا بچوں سے ایک خاص ٹارگٹ حاصل کروانا اور بچوں کا اس میں کامیاب نہیں ہونا،پیار و محبت میں عاشقوں کی ناکامی اور دو پیار کرنے والوں میں سے ایک پارٹنر کا کسی اور سے شادی ہو جانا، کسی ایسے ویڈیو کلپ کا وائرل ہو جانا جس سے کسی شخص کی عزت ڈوب جانے کا خطرہ ہو،بیٹی کے بھاگ کر شادی کرنے اور سماج میں چہرہ دکھانے کے ڈر سے باپ کا خود کشی کرنا وغیرہ۔بعض لوگوں میں خود کشی کے رجحان ( Suicidal Tendency) بھی موجود ہوتے ہیں،اس طرح کے لوگ کبھی لمبی بیماری سے پریشان ہو جاتے ہیں اور تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ بعض نوجوانوں کو نوکری نہیں ملنے سے اور گھر کے لوگوں کے ڈانٹ پھٹکار سننے سے بھی خود کشی کر لیتے ہیں۔
اہم مشورات!
خود کشی سے بچنے کے لیے لوگوں کو چاہیے کہ خودکشی کے جتنے بھی محرکات یا اسباب ہیں اس سے اجتناب کیا جائے۔کسی بھی اہم کام کو کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ قرض نہ لی جائے،قرض اتنا ہی لینی چاہیے جتنا مقررہ وقت پر قرض کو لوٹایا جا سکے۔غیر ضروری پروگرام یا ناموری کے لیے قرض لے کر کام کرنا ایک احمقانہ عمل ہے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کے لیے اس کی صلاحیت سے تجاوز کرکے ٹارگٹ سیٹ نہیں کریے۔بچوں کو اس کی نجی صلاحیت اور دلچسپی کے مطابق پڑھائی لکھاء کرنے دیا جائے۔بچوں پر یہ دباؤ نہیں دینی چاہیے کہ ہر سبجیکٹ میں نوے(90) فیصد نمبر حاصل کرنی ہے۔عورتوں کو مردوں سے اور مردوں کو عورتوں سے ناجائز رشتہ قائم کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔بعض عورتیں بہت ہی گرم مزاج اور اور جذباتی ہوتی ہیں،ایسی عورتوں کے ساتھ حتیٰ الامکان کوشش یہ کرنی چاہیے کہ چھگڑا نہیں ہو،ایسی عورتیں غصہ میں رات میں کمرہ بند کرکے سو جاتی ہیں اور مرد رات بھر ٹینشن میں رہتا ہے کہ کہیں وھ کچھ کر نہ لے،اور اس کی ٹینشن اسی وقت ختم ہوتی جب وہ صبح دروازہ کھولتی ہے۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ ناجائز کام کرتے ہوئے پکڑ لیے تو بجائے خود کشی کرنے یا اپنی بیوی کو قتل کرنے کے اسے چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر خود آزاد ہو جائے اور اسے بھی آزاد کر دے۔
خود کشی کرنے والے شخص کو اس فعل بد کو انجام دینے سے پہلے سوچناچاہیے کہ اس کے کتنے بھیانک اور سنگین نتائج ہوتے ہیں۔سب سے پہلے خدکشی کرنے والا انسان کی خود کی اپنی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔اس کی دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہوتی ہے۔ایسے انسان کو لوگ بزدل اور بیوقوف سمجھتے ہیں۔اس کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں،بیوی بیوہ ہو جاتی ہے،والدین کو بڑھاپے کا سہارا ٹوٹ جاتا ہے،گھر کی معاشی حالت تباہ و بربادہو جاتی ہے،ایسے گھروں میں لوگ ازدواجی رشتہ قائم کرنا نہیں چاہتے ہیں۔جو لوگ مصیبت اور آفت سے گھبراکر خودکشی کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہییکہ ہر انسان کی زندگی میں راحت اور آفت دھوپ اور چھاؤں کی طرح آتے ہیں۔خود کشی ایسے ہی منفی اثرات کو جنم دیتی ہے۔اللہ تعالی ہم سبھوں کو اس گناہ کبیرہ سی محفوظ رکھے(آمین یارب العالمین)
خود کشی سے بچنے کا قرآنی نسخہ!
ایک بندہ مومن کو ہمیشہ اللہ تعالی کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے(سورہ الحدد، آیت نمبر 22)جو کوئی مصیبت تم کو زمین میں یا اپنی جانوں میں پہنچتی ہے وہ سب ہم نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں مخلوقات کو پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا گیا تھا۔اس زمین پر جو بھی مصیبتیں مثلاً قحط،زلزلہ،سیلاب وغیرہ اور اسی طرح خود انسان کی زندگی میں جو مشکلات اسے پیش آتے ہیں وہ سب پہلے سے طیشدہ ہیں،وہ ہوکر رہے گی اور اسے کوئی ٹال بھی نہیں سکتا،اس لیے ایک انسان جب اس طرح کی مصیبت میں اپنے آپ کو پا? تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ابتلا میں ہے اور یہ سب کچھ قانون ابتلا کے تحت ہو رہا ہے۔انسان جب اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لینا ہے تو وہ کبھی خود کشی کرنے کا ارادہ نہیں کرتا ہے۔اپنی مصیبت کے لیے انسان خود بھی زمہ دار ہوتا ہے؛ اس کا ایک غلط فیصلہ یا ایک غلط قدم اس کی زندگی تباہ کر سکتا ہے۔اس لیے انسان کو چاہیے کہ خوب سوچ سمجھ کر ا فیصلہ کرے یا قدم اٹھائے۔
آگے سورہ الحدید آیت نمبر 23 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔تاکہ تم اس پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور جو تمہیں وہ عطا کرے اس پر پھول نہ جاؤ اور اللہ تعالیٰ کسی خود پسند،فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کی زندگی میں کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان ہو جائے تو اس سے مایوس اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے اپنی جان دینی چاہیے،ٹھیک اسی طرح اگر انسان کو کوئی بڑی نعمت حاصل ہو جائے تو اس پر اترانے یا فخر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔پہلی حالت میں انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور دوسری حالت میں اللہ تعالی کا شکر کرنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ ہر انسان طبعی طور پر بعض چیزوں سے خوش ہوتا ہے بعض سے غمگین، لیکن ہونا یہ چاہئے کہ جس کو کوئی مصیبت پیش آوے وہ اس پر صبر کر کے آخرت کا اجر وثواب کمائے اور جو کوئی راحت و خوشی پیش آئے وہ اس پر شکر گزار ہو کر اجر وثواب حاصل کرے۔
خودکشی کرنے والے شخص کے اوپر جنت حرام ہے۔سیدنا حسن بصری سے روایت ہے کہ !
اگلے لوگوں میں ایک شخص کا پھوڑا نکلا۔اس کو جب بہت تکلیف ہوئی تو اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر دیا اس سے پھر خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے اس پر جنت کو حرام کیا۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ اور مشرکوں کا جنگ میں سامنا ہوا تو وہ لڑے۔ پھر جب آپ اپنے لشکر کی طرف گئے اور وہ لوگ بھی اپنے لشکر کی طرف گئے ، تو آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص تھا جس کا نام قزمان تھا ؛ وہ کسی اکا دکا کافر کو نہ چھوڑتا بلکہ اس کا پیچھا کر کے تلوار سے مار ڈالتا تو صحابہ نے کہا کہ جس طرح یہ شخص آج ہمارے کام آیا ایسا کوئی نہ آیا۔ رسول اللہ نے فرمایا وہ تو جہنمی ہے۔ ایک شخص ہم میں سے بولا کہ میں اس کے ساتھ رہوں گا ( اور اس کی خبر رکھوں گا کہ وہ جہنم میں جانے کا کونسا کام کرتا ہے کیونکہ ظاہر میں تو بہت عمدہ کام کر رہا تھا )۔ پھر وہ شخص اس کے ساتھ نکلا اور جہاں وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر جاتا اور جہاں وہ دوڑ کر چلتا یہ بھی اس کے ساتھ دوڑ کر جاتا۔آخر وہ شخص سخت زخمی ہوا اور زخموں کی تکلیف پر صبر نہ کر سکا اور جلدی مر جانا چاہا اور تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور اس کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں، پھر اس پر زور ڈال دیا اور اپنے آپ کو مار ڈالا۔ تب وہ شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا ہوا؟ وہ شخص بولا کہ آپ نے ابھی جس شخص کو جہنمی فرمایا تھا اور لوگوں نے اس پر تعجب کیا تھا،وہ سخت زخمی ہوا اور جلدی مرنے کے لئے اس نے تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور اس کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے بیچ میں، پھر اس پر زور ڈال دیا یہاں تک کہ اپنے آپ کو مار ڈالا۔ رسول اللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ آدمی لوگوں کے نزدیک جنتیوں کے سے کام کرتا ہے اور وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک شخص لوگوں کے نزدیک جہنمیوں کے سے کام کرتا ہے اور وہ انجام کے لحاظ سے جنتی ہوتا ہے۔
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا!جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نار جہنم میں اسی چیز سے اس کو عذاب دے گا۔شعبہ کی روایت میں یہ ہے جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے ذبح کیا تو قیامت کے دن اسی چیز سے ذبح کیا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے مار لے،تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کو اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ مارتا رہے گا اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لیتو وہ اسی زہر کو جہنم کی آگ میں پیتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہے گا اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا کرے گا اور ہمیشہ اس کا یہی حال رہے گا۔اس روایت پر قیاص کرتے ہوئے ہم اور آپ سمجھ سکتے ہیں ان لوگوں کا قیامت کے دن کیا حشر ہوگا جو دریا میں ڈوب کر اپنی جان دے دیتے ہیں، یا ٹرین کے سامنے آجاتے ہیں یا چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا لیتے ہیں یا ہاتھ کی رگ کاٹ ڈالتے ہیں یا پنکھا سے لٹک کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا کسی آدمی پر وہ نذر پوری کرنا واجب نہیں ہے جو اس کے اختیار میں نہیں ہے،اور مسلمان پر لعنت کرنا ایسا ہے جیسے اس کو قتل کرنا اور جو شخص دنیا میں کسی چیز سے اپنی جان لے وہ قیامت کے دن اسی چیز سے عذا ب دیا جائے گا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک تیر سے ہلاک کرلیا تھا،آپ ? نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی(کتاب الجنائز،مسلم شریف، حدیث نمبر۔88)
آخر میں!
خودکشی کرنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے درد اور مسائل کو حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور یہ کہ خودکشی ہی مسائل اور درد کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے،لیکن جان لیں کہ ہم محفوظ رہنے کے لیے،اپنی زندگی دوبارہ اچھے طریقے سے شروع کرنے کے لئے بہترین اقدامات کر سکتے ہیں اور دوبارہ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا شروع کر سکتے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہمیں کتاب اللہ کی 2 آیتیں یاد رکھنا چاہیے۔مگر انسان کو جب اْس کا رب آزماتا ہے پھر اْسے عزت بخشتا ہے اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے :میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے،اور جب اْسے وہ آزماتا ہے اور اْس پر اْس کا رزق تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے : میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔(سورہ الفجر۔آیت۔15۔16)
اللہ کی آزمائش پر اس کے صالح اور شکر گزار بندے صبر اور استقامت کے ساتھ اس کی بزرگی اور بڑائی کا بیان کرتے ہواپنی فرماں برداری اور بندگی کا ثبوت دیتے ہوئے حق پر ڈٹے رہتے ہیں۔