نتیش بچائو، بہار بچائو

0
0

 

 

 

ڈاکٹر ایم اعجاز علی
یونائیٹیڈ مسلم مورچہ

ایک بار پھر سے نتیش کمار گٹھ بندھن کو چھوڑکر این ڈی اے میں چلے گئے، جہاں ان کے ساتھ اوپندر کشواہا اور رام ولاس پاسوان کی پارٹیاں بھی بہار میں بی جے پی کے ساتھ پہلے سے ہیں۔ اب وہ کیا سوچ کر ان کے ساتھ گئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے، لیکن ایسا کرنے سے بہار کے مسلمان ان سے ناراض نظر آرہے ہیں۔ چونکہ مسلم سماج بی جے پی کو ایک نظر بھی دیکھنا نہیں چاہتے، اس لیے ایسا ہورہا ہے ورنہ نتیش کمار کے بہار میں کاموں کی سراہنا سبھی کرتے ہیں۔ حالانکہ ہماری سمجھ سے انہوں نے صحیح قدم اٹھایا ہے اور اپنے ساتھ اقلیتوں کے فائدہ کے لیے ہی اٹھایا ہے۔ یہ مشق پہلی نظر میں آپ کو الٹا لگے گا لیکن غور کریں گے تو اس کے پیچھے ایک حکمت چھپی ہوئی ہے۔ دیکھئے اس وقت ملک کا جو ماحول بن چکا ہے، اس میں موجودہ وزیراعظم ہند ایک طاقت ور لیڈر کے طور پر دیکھے جارہے ہیں اور بی جے پی کا سلوک ایک ’گرم دَل‘کی طرح ہے۔ اس کے ساتھ ہی 22؍جنوری 2024ء کے بعد ہم لوگ ’’ایودھیا کے بعد کے بھارت‘‘ میں داخل ہوچکے ہیں، جہاں سنگھ پریوار کا سیاسی غلبہ چھاگیا ہے۔
یاد رکھئے کہ اس غلبے کو حاصل کرنے میں سنگھ کے لیڈروں کو تقریباً سو (100) برس لگے ہیں اور اس عرسے میں اس جماعت نے بے لوث ولگاتار محنت کی ہے اور ابھی بھی گائوں گائوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس جماعت اور اس کی سیاسی غلبے کو یکایک زیرکردینے کی بات سوچنا بھی عقل سے پرے ہے۔ حالانکہ بڑی سے بڑی طاقت کو بھی اسی دنیا میں زیر ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے، لیکن اس کے لیے وقت اور حکمت دونوں لگانا پڑتا ہے اور یہ کام قدم بقدم ہوتا ہے یکایک نہیں۔
اس چنائو میں بی جے پی کو ہرانا تقریباً ناممکن لگتا ہے، کیوں کہ ایک طرف اپوزیشن والے ساری طاقت جھونکیں گے وہیں دوسری طرف سرکاری دل بھی تو کرسی بچانے کے لیے ساری طاقت جھونک دے گی۔ مسلمانوں کو حکمت کے ساتھ خاموشی سے کام لینا ہے۔ ہماری سمجھ سے بہار میں نتیش کمار کو اس بار پھر سے مضبوط رکھنا ہوگا۔ 2019کے چنائو میں انہیں 17 سیٹیں ملی تھیں اور 40سیٹوں میں سے 39سیٹیں این ڈی اے نے جیتی تھی۔ تقریباً اسی جیسا رزلٹ اس بار بھی آنے کا چانس بنا ہوا ہے۔ اگر نتیش کمار این ڈی اے میں نہیں جاتے تب بھی بھاجپا اس کوشش میں لگی رہتی کہ 2019 جیسا رزلٹ اس بار بھی آئے، جس کے لیے اس کی کوشش پہلے سے جاری ہے۔ اب اگر جنتادل یونائیٹیڈ 16-17 سیٹوں پر جیت جاتی ہے تو پھر بہار کی اتنی سیٹیں بھاجپا کے کوٹے سے کم ہوں گی۔ مطلب یہ کہنے کا ہے کہ جب بھاجپا کو ہی سرکار بنانا ہے تو پھر اسے اکیلے مضبوط ہونے دینے سے بہتر ہے کہ این ڈی اے مضبوط ہو۔ یاد کیجئے واجپئی کی سرکار 1999 سے 2004 تک لگاتار رہی لیکن وہ اپنی خاص الخاص ایشوز کو نافذ نہیں کرسکی، کیوں کہ ان کے ساتھ جدیو، بسپا، ترنمول، ٹی ڈی پی، انا ڈی ایم کے جیسی کئی علاقائی پارٹیاں تھیں، جن کے نظریات سنگھ سے الگ تھے۔ لہذا انہیں ’کامن منیمم پروگرام‘‘ کے تحت سرکار چلانی پڑی تھی۔ حالانکہ اٹل بہاری واجپئی کی بھی شعلہ بیانی مشہور رہی ہے۔ جن سنگھ سے لے کر بی جے پی تک کو فروغ دینے میں اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی کا اہم رول رہا ہے اور اس لیے کس حربے کا استعمال کیا جاتا رہا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ لیکن اپنے 5-6 سالوں کی حکومت وہ نہیں کرپائے جس کی ذمہ داری لے کر ساری زندگی تحریک چلاتے رہے تھے۔ بعض موقعوں پر تو ان علاقائی پارٹیوں سے ایسے نکتوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا جو سنگھ کے لیے ناقابل قبول تھے، لیکن کرنا پڑا۔
2024 کے چنائو میں یہی حکمت ہونی چاہئے کہ پہلے کیسے مودی سرکار کو واجپئی سرکار کی سح پر لایا جائے۔ اس کے لیے بہار میں نتیش کمار کو مضبوط رکھنا ضروری ہے۔ جدیو کے سیٹوں کو چھوڑکر باقی سیٹوں پر عوام کسے ووٹ دیں گے یہ وہاں کے لوگوں پر چھوڑا جاتا ہے، لیکن جدیو کے خلاف اگر راجد، کانگریس یا کمیونسٹ بھی ہو وہاں بھی انہیں ہراکر جدیو کو جتانا ہوگا۔
حالانکہ سیاسی طور پر یکطرفہ سوچ رکھنے والے یہ دلیل دیتے پھر رہے ہیں کہ جدیو جیت کر پھر تو بی جے پی کو ہی مضبوط کرے گا۔ شایدایسی سوچ رکھنے والے یہ اب بھی نہیں مان رہے ہیں کہ ملک میں بی جے پی یا سنگھ پریوار اس وقت بہت مضبوط حالت میں ہیں۔ اس سے زیادہ مضبوطی انہیں اور کیا چاہئے۔ حالانکہ ایسے لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ اس وقت سارے ایڈمنسٹریشن، سارے آئینی ادارے، ساری ایجنسیاں، ساری میڈیا پر مرکزی حکومت کا دبدبہ ہے اور انہیں ذرائع سے حکومت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ صرف ووٹ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو عام لوگوں کے پاس ہے۔ لیکن اکثریت کے ذہن کو بھی تو سنگھ پریوار ایودھیا، گیان واپی، این آر سی، یو سی سی جیسے حساس ایشوز کو سامنے لاکر اپنی طرف موڑنے کا انتظام کرہی چکی ہے۔ تبھی تو وزیراعظم ہند نے پارلیمنٹ تک میں این ڈی اے کو 405اور بھاجپا کو 370دلانے کا دعویٰ کردیا ہے۔
ایسی صورت حال میں ہماری خاموشی حکمت کو فی الوقت یہی ہونی چاہئے کہ این ڈی اے کی اس حکمت عملی کو پہلے کیسے واجپئی کی این ڈی اے والی حکمت عملی میں تبدیل کی جائے تاکہ ’’گرم دَل‘‘ کے ٹمپریچر میں کمی آئے۔ انہیں یکایک ٹھنڈا کرنے کی بات سوچنا بھی بے کار ہے۔ ملک کی سیاسی حالت کو اب ہم Selfish سے ہی من مطابق بناسکتے ہیں، Crisis سے نہیں۔ اس لیے یہاں ’’نتیش بچائو، بہار بچائو‘‘ کے فارمولے کو اپنانا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی۔ اسی فارمولے کو ان مختلف صوبوں میں اپنانا چاہئے جہاں کی علاقائی پارٹی واجپئی صاحب والے این ڈی اے میں شامل تھی۔
9431016479

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا