رمضان المبارک امن پانے اور امن دینے کا مہینہ

0
0

فتح اللہ گولن ۔ ترجمہ و تلخیص: ایاز الشیخ

رمضان کا مہینہ ہمارے افق پر اپنی دلکش اور جاذب جمالیت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جن میں روزہ ، افطاری ، سحری اور تروایح شامل ہیں ، چنانچہ اس سے وہ اپنے ساتھ مخصوص ایک پاکیزہ ماحول پیدا کرتا ہے ، جس کی بالکل الگ تھلگ اپنی ایک تاثیر ہے ، جس سے روحیں دوبارہ نیکی کا ادراک کرتی ہیں ، دل اور احساسات اور افکار صاف ہوتے ہیں اور ہر طرح کی شدت اور خشونت میں سکون آجاتا ہے ، یہاں تک کہ یہ سب باتین اس وقت ہوتی ہیں جب آدمی مسلسل تنا کا شکار ہوتا ہے ، شدت اور سختی کا غبہ ہوتا ہے اور جب مخالفت کو ایک طرح کی مہارت سمجھا جاتا ہے اور لوگ سخت جمود کی زندگی گزار رہے ہوتے ھیں ۔ دوسری جانب حقیقت واقعہ یہ ہے جس شخص کی اندر اس مبارک ماہ کے حقیقی احترام کا جذبہ ہوتا ہے وہ واضح طور پر نرمی ، لطف اور رقت کو محسوس کرتا ہے ، اس رخ سی اگرچہ ہم اس وقت ہر جہت سے منفی امور میں گھڑے ہوتے ھیں لیکن اگر ہم اپنے ارادے کا حق ادا کریں اور اس مبارک وقت کے لئے اپنے دلوں کو کھول دیں اور اس کی برکتوں پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لائین اور تعظیم اور احترام کے ساتھ متوجہ ہوں ، تو وہ ہمیں گلے لگائے گا اور ہمارے اوپر اپنے فیوضات کی موسلا دھار بارش ہمارے سر سے لے کر پاں تک برسائے گا ، او ر حدت ، غصے اور شدت پر قابو پانے میں ہماری مدد کرے گا اور اس طرح دوبارہ معاشرے پر خوشی ، طمانینت اور سکون کا ماحول چھا جائے گا ۔
کھانے پینے میں تنوع نہیں بلکہ مہمانوں کی کثرت
اب رہی بات ان کاموں کی جو اس بارے میں بجا لانے ضروری ہیں تو مثال کے طور پر کسی بلڈنگ کی فلیٹ میں رہائش پزیر شخص ( اپنی طاقت کے مطابق ) اپنی جود و سخا کا اس طرح اظہار کر سکتا ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کو افطاری کے لئے بلائے (خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب تہذیب اور علاقہ سے ہو) اور اس بارے میں ان کو مقررہ وقت سے چند دن پہلے بتلا دے اور کھانے کے بعد پہلے سے تیار شدہ معمولی سا تحفہ بھی یہ کہتے ہوئے پیش کرے کہ : آپ نے دعوت قبول کر کے ہماری عزت افزائی فرمائی اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ یہ معمولی سا تحفہ بھی قبول فرمالیں ” ۔ اگر اس کے بس میں ہو تو وہ ان کے بچوں کا دل بھی خوش کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اسکول یا یونیورسٹی میں استاد ہو ، یا کسی ادارے میں ملازم ہو تو وہ بھی بلا تفریق تمام لوگوں کے لئے اپنے گھر کا دروازہ کھول کر افطار کے دستر خوان پر انہیں بٹھا کر معاشرتی امن میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اس مہینے کو قیمتی بنائیں اور اس پر نور مبارک مہینے میں اس طرح سرمایہ کاری کریں کہ ہمارا افطاری کا دستر خوان کبھی مہمان سے خالی نہ ہو۔ جی ہاں ! افطار کے دسترخوان کو مہمانوں کی کثرت اور تنوع سے سجانا کھانوں کے تنوع سے زیادہ ضروری ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جیسے کہ آپ کو معلوم ہے : طعام الاثنینِ افی الثلاثِ ، وطعام الثلاثِ افی الربعِ ( البخاری : الاطعمہ ، 11 ، مسلم ، الاشربہ : 179 ) (دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے اور تین کا چار کے لئے کافی ہے)۔ اس رخ سے ضروری ہے کہ ہم خصوصی برکت والے مہینے رمضان میں مہمانوں کی کثرت سے پریشان نہ ہوں ۔
تصرف میں ایسا اسلوب معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان حائل دوریوں کو پاٹنے اور ان کے بارے میں پہلے سے لگائے گئے حکم سے آگے گزرنے کا ایک اہم سفارتی طریقہ ہےکیونکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی مشکلات ایسی ہیں جن کا حل سختی اور شدت سے مشکل ہو جاتا ہے ، اورکیل کانٹے سے لیس فوجی جتھے کے ذریعے ان پر غلبہ نہیں پایا جا سکتا ، مگر اس طرح ان کو حل کیا جا سکتا ہے ۔ جی ہاں ! اگر تم اپنے دل سب کے لئے کھول دو اور اپنی انسانیت کے ذریعے اپنے مخاطبین کے دلوں میں داخل ہو جا اور اپنے دلوں میں سب کے لئے جگہ بنا لو تومختلف قسم کے بغض اور حسد اور غیض وغضب اور جنگ وجدل سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں ایسی مشکلات یا بحرانوں کا بالکل کوئی وجود نہیں جن کو دھمکیوں سے حل کیا گیا ہو بلکہ دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں کے غضب میں مزید اضافہ ہوا اور انہوں نے اپنے آپ کو زیادہ حدت کے ساتھ تخریب کاری پر لگا دیا ۔
جیسے کہ ایک ترکی ضرب المثل ہے کہ قہوہ کی ایک پیالی کی خاطر چالیس سال تک کی جاتی ہے ۔ اس طرح ہماری طرف سے اپنے مہانوں کی افطار کی خاطر مدارات چالیس سال ہوگی۔ اس لئے اس رخ سے اس سخاوت اور مردانگی کا اظہار ضروری ہے جس کے نتائج بالکل مختلف ہوں گے ۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس میں رمضان کی خاص برکتوں میں سے اور کون کون سی برکتیں پوشیدہ ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم روزے اور تراویح کے ذریعے اخروی ثواب حاصل کر سکتے ہیں ، اسی طرح ہم لوگوں کے دلوں میں داخل ہو کر انتہائی اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں ۔
آسمانوں کے اوپر کی آواز کی دل میں گونج: افطار میں غیر مسلم برادران وطن کو مدعو کیا جانا چاہئے اس باہمی اعتماد اور خیر سگالی کی فضا بنتی ہے۔ افطار کے روحانی منظر سے وہ بہت متاثر ہوتے ہیں۔ یہ یہ بہترین موقعہ ہے کہ ہم انہیں دین حنیف کی روحانی و جمالیاتی دولت جس پر تمام انسانوں کا حق ہے سے متعارف کرائیں۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ غیر مسلم برادران و خواہران افطار کے بعد اذان اور باجماعت نماز سے بے حد متاثر ہوتے ہیں اور بعض توپر تم آنکھوں سے نماز کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دعوت افطار انکی سوچ کو اسلام کی طرف مائل کر دیں اور اسلام اور مسلمانوں سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کردے۔ہمیں اس بات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ کس کو معلوم ہے کہ یہ لوگ جو ہر شے میں زندگی اور تازگی محسوس کرتے ہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی جمالیات کا ادراک ایک اور انداز سے کریں اور اچانک عمودی انداز میں اپنے کمالات تک جا پہنچیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے نتیجے کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان کے سامنے ایک نہیں ، کئی باردعوت افطار کے دستر خوان بچھانے چاہئیں ۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے زمانے میں لوگوں نے اسلام کی جمالیات سے خالی زندگی گزاری ہے ، انہوں نے اسلامی اخلاق اور برتا کو چھوا ہی نہیں ، اس لئے ہمارے اوپر عائد سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی خاندانی عمارت اور ماں باپ اور اولاد کے درمیان تعلق کے اظہار اور اپنی دعوتوں اور سخاوت کے ذریعے اسلام کی حقیقی تصویر کو عیاں کریں ۔ اس لئے کچھ لوگ اسلام کو ایک ہوا سمجھتے ہیں تو اس تاثر کو دور کرنے کا طریقہ ان سے اختلاط اور ان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا ہے ۔ سو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس مبارک مہینے میں اس کام کو اپنے اپنے مرتبے کے مطابق معقول انداز سے مشورے ، عقل ، معقولیت اور منطقیت کا خیال رکھتے ہوئے انجام دیں ۔
کوئی بھی عمل رمضان کے عمل کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ اللہ تعالی نے ہم پر جو بھی عبادت فرض کی ہے اور ہمیں اس کا مکلف بنایا ہے وہ ہماری ادائیگی کے مطابق ایک مختلف شکل اپنائے گی اور اللہ تعالی کے ہاں ہمارے حق میں گواہی دے گی ۔ چنانچہ جتنا ہم مغفرت کے مہینے رمضان کو خوش کریں گے ، اس کی گواہی ہمارے حق میں اتنی ہی قوی اور ترو تازہ ہوگی، اگر ہم نے اس فضیلت والے مہینے کام میں لایا تو وہ جاتے جاتے جدائی کے وقت اللہ تعالی کے ہاں ہمارے حق میں گواہی دے گا اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں باب الریان سے داخل ہونے کا امیدوار بنا دے ۔ اس وجہ سے ہمیں ان عبادتوں کی پوری پوری قدر اور تعظیم او راحترام کرنا چاہئے جو اللہ تعالی نے ہم پر فرض کی ہیں، اور ساتھ ہی بہترین طریقے سے ان سے فائدہ بھی اٹھانا چاہئے ۔انسان کو معلوم ہو جائے کہ کون سے اعمال اس پر آخرت میں نعمتوں کی بارش کا سبب تھے ، تو یہ بات ان نعمتوں کے بعد اس کی خوشی کو اور بھی چار چاند لگا دے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خالق سبحانہ وتعالی کا سرگوشی کرتے ہوئے یوں شکرادا کرے کہ : اے میرے رب تیری حمد و ثنا ہے ! تونے مجھے پہلے عمل کرنے کا شرف بخشا اور پھر بعد میں اس کے ثواب سے عزت افزائی فرمائی ۔
جی ہاں ! انسان آخرت میں اپنے روزے کو اچھی طرح پہچان لے گا ، وہ اس بھوک ، پیاس اور نماز تراویح کی تھکن ، سحری کے لئے اٹھتے وقت اپنے بپھرے ہوئے جذبات اور افطاری کے دسترخوان پر اپنی سخاوت کو ایسی شکل میں دیکھے گا جو عالمِ آخرت کے مطابق ہوگی اور ان ساری خوشیوں سے محظوظ ہو گا ۔
بعض عبادات اور نیکیوں کو اپنے مخصوص اوقات اور حالات کی وجہ سے اہمیت حاصل ہو جاتی ہے، اس طرح رمضان میں ہر عبادت اور نیکی بجا لائی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود رمضان میں اعمال کی قیمت مزید بڑھ جاتی ہے اور لوگ رمضان کے دوران بالکل مختلف انداز سے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔ اس لئے کوئی بھی روزہ رمضان کے روزے کو پہنچ سکتا ہے اور نہ کوئی بھی نفل نماز رمضان میں نماز تروایح کے درجے کو ۔ اس طرح دیگر راتوں کی سحری ، رمضان کی سحری کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ افطار سے قبل اذان کا انتظار رمضان کے علاوہ اذان کا انتظار کے برابر ہو سکتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ رمضان کے علاوہ بندے کو ملنے والے اعمال کا اجر رمضان کے اعمال کےاجر کے برابر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے رمضان میں رہ جانے والے عمل کے خلا کو کوئی بھی عمل پر نہیں کر سکتا ۔ سو اس حقیقت کو دل کی گہرائی سے سمجھنے والے مسلمان رمضان کے رخصت ہونے پر ایک عجیب قسم کا فراق محسوس کرتے ہیں اور ان کو اگلے رمضان کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور ہمیں کیا معلوم ان کے اس شوق کی وجہ سے ان کو ایک اور رمضان کا ثواب بھی مل جائے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا