جہیز کی وجہ سے شادی بیاہ ایک بہت بڑی لعنت بن گئی ہے

0
0

قیصر محمود عراقی

جہیز ہمارے معاشرے کا ایک اہم سماجی مسئلہ ہے جس نے شادی جیسی چیز کو مشکل بنادیا ہے۔ اچھے خاصے گھرانوں کی تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار لڑکیاں محض جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔ اس سماجی مسئلے نے معاشرے کو بری طرح سے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کے خلاف آواز تو کبھی کبھی بلند ہوتی آئی ہے لیکن اس فضول رسم کا معاشرے سے خاتمہ نہیں ہوسکا۔جہیز حقیقت میں ایک لعنت سے کم نہیں ہے لیکن ایک لڑکی کی زندگی کی خوشی کیلئے اسے ضروری سمجھا جاتا ہے ، خیال کیا جاتا ہے کہ جتنی ایک جہیز والی لڑکی کی سسرال میں عزت ہوتی ہے اتنی بنا جہیز والی کی نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ماں باپ اپنی بیٹی کی خوشی کیلئے اپنی جان تک لگا دیتے ہیں، اکثر گھروں میں بیٹی ابھی دس سال عمر کو پہنچتی نہیں اور ماں باپ بیٹی کے جہیز کی اشیاء جمع کرنا شروع کردیتے ہیں، حتیٰ کہ بیٹی کے جوان ہونے تک کافی حد تک جہیز جمع بھی کرچکے ہوتے ہیں۔ جہیز ایک خطرناک کیڑے اور ناسور کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سماجی زندگی کی ہڈیوں کو گھلاتا جارہا ہے، جس کا ہمیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں، رسم جہیز نے اپنے ساتھ سماجی تباہ کاری وبربادی کا جو نہ تھمنے والا طوفان برپا کیا ہے اس نے برصغیر ہند وپاک کے معاشرے کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ آج ہماری سوسائٹی جہیز کی وجہ سے جن مصیبتوں میں گرفتار ہوتی جارہی ہے وہ مختلف النوع ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی ضرر رساںپہلوئوں پر محیط ہے۔
آج جہیز کے نام پر ملت کی بے گناہ بیٹیوں کو جس طرح ہراساں کیا جارہا ہے وہ انسانیت کا بڑا ہی شرمناک پہلوہے، روزانہ صبح صبح آپ جب اخبار کی ورق گردانی کرتے ہیںجو جلی حرفوں میں دل دہلانے والی سرخیاں زیارتِ نگاہ بنتی ہیں کہ فلاں جگہ کم جہیز لانے کے جرم میں بدن پر تیل ڈال کر آگ لگادیا گیا تو فلاں مقام پر گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیااور فلاں جگہ جہیز کے بھیڑیوں کی ایذاں رسانی سے تنگ آکر عورت کے خود ہی گلے لگا لیا۔ جہیز کے بھیڑیے سے چھٹکارا پانے کیلئے بہت سے والدین اپنی لخت جگر کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور انسانی بھیڑیے انہیں جیتے جی کوٹھوں کی سولی پر بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، اس طرح کے واقعات سے آج کل کے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ آخر کب تک اس جہیز کی وجہ سے بیٹیوں کا سکھ چین اور ان کی زندگی چھینی جاتی رہیگی؟ کب تک جہیز نہ ہونے کی صورت میں لڑکیاں بال سفید کرکے بیٹھی رہینگی؟ کب تک والدین مجبور ہوکر لمبی چوڑی رقم ، بنگلہ ، کار، بائیک اور گھر کا سارا ساز وسامان دیکر دولہے میاں کے والدین کی ہوس پوری کرینگے؟ افسوس ہمارے معاشرے میں جہیز کی وجہ سے شادی بیاہ ایک بہت بڑی لعنت بن گئی ہے، لڑکی کی شادی کا وقت آتا ہے تو ماں باپ گہری سوچ میں مبتلا ہوجاتے ہیں، امیروں کی بات چھوڑدیں ، ان کے پاس تو دولت ہے جس سے سب کچھ ہوسکتا ہے، بے چارہ اوسط آمدنی کا باپ اور بھائی جہیز کہاں سے پورا کرے۔ اس فکر میں ماں باپ خودکشی کرتے دکھائی دیتے ہیں، بیٹیاں گھر پر جہیز کے بغیر بیٹھی رہ جاتی ہیںاور والدین ان کی خوشیاں پوری کرنے کی تمنا لئے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
قارئین حضرات! بات تو اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جہیز کی لعنت کو آج کل دنیا کی نمود ونمائش کا اہم ترین حصہ بنادیا گیا ہے، لوگ جہیز دینے میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی فکر کرتے ہیں، دوسری طرح جہیز کی ڈیمانڈکرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم جہیز کی ڈیمانڈ نہیں کرتے ، ہمیں کچھ نہیں چاہئے، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، بس آپ اپنی بیٹی کو اپنی خواہش اور استطاعت سے جو گفٹ کرنا چاہے کرسکتے ہیں، یہ رٹے ہوئے الفاظ ہیں جو ہمارے معاشرے میں اسی(۸۰) فیصد لالچی اور پست ذہنیت کے لوگ جہیز کی آڑ میں حسب ذائقہ دہراتے رہتے ہیںاور بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیںجو کم جہیز والی لڑکی کو اپنے گھر لانے میں توہین سمجھتے ہیں، وہ اس لئے کہ انہیں تو اپنی بہوکے جہیز کی نمائش کرنی ہوتی ہے، یہ دکھانا ، بتانا ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی ایک بڑے گھرانے میں شادی کی ہے اور بعض اوقات ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو منھ مانگے جہیز لیتے ہیں اور صاف لفظوں میں بول دیتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ چاہئے ، مثال کے طور پر ہمیں فرنیچر نہیں ایک بنگلہ دے دے، دوسرا کوئی سامان نہیں نقد رقم دیدیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو زبان سے تو بول دیتے ہیں کہ ہمیں یہ نہ دیں وہ نہ دیں ، لیکن حقیقت میں ان کے دل کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ دوسروں کی طرح ان کی بہو بھی جہیز میں سامان لاد کر ائے ، خالی ہاتھ نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹی بھی چاہتی ہے کہ اس کے پاس ہر چیز ہو اور اس کے ماں باپ کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹی جہیز میں سب کچھ لیکر جائے ۔ ماں باپ اپنا کل سرمایہ لگاکر اپنی بیٹیوں کو جہیز کے ساتھ اس لئے رخصت کرتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں ہمیشہ خوش رہیں۔
قارئین محترم! جہیز ایک ایسی آگ ہے جو بے شمار خواتین اور فیمیلیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ آج خواتین زندگی کے ہر شعبے میں آگے آرہی ہیں اور نام بھی کما رہی ہیںتو پھر انہیں جہیز کے نام پر کیوںکچلا جارہا ہے؟ ایسے میں آئیں! ہم مل جل کر جہیز کے خلاف جہاد کریںاور خود سے بھی جہیز نہ لینے کا عہد کریں، کیوں کہ یہ رسم ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے جسے اب ہم سب کو ختم کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس برائی کا خاتمہ کریں ، اس رسم کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی عہد کرنا ہوگا کہ وہ جہیز دینگے اور نہ لینگے، یہ شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے ، جس کی وجہ سے سماج میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ نوجوان چاہیں تو اس گھناونی رسم جہیز کو ختم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، مسلمانوں میں جو لوگ بااثر ، دین دار اور قومی جذبہ رکھنے والے ہیں انہیں حتمی طور پر اس جہیز کی لعنت کے خلاف صف آراں ہونا پڑیگا اور خصوصاً نوجوانوں کو اس راہ میں قربانی دینی پریگی اور جہیز خوروں کو مانگنے سے روکنا پڑیگا تاکہ بہت ساری دوشیزائیں بن بیاہی اپنے والدین کے کمزور کاندھوں پر بوجھ بن کر بیٹھی نہ رہ جائیں۔ تو آئیں ہم سب جہیز کی اس لعنت سے توبہ کریں اور اپنے اپنے گھروں کو نمونہ عمل بنائیں۔
گریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا