ممتاز احمد چوہدری
راجوری(بکوری)
7051363499
اللہ تعالٰی نے انسان کو دنیا میں سب سے اعلیٰ رتبہ عطا فرمایا ہے۔ انسان انتہائی بے صبر اور گناہ گار ہوتا ہے خود کو آلاہ سمجھ کر اپنے اصلی مقصد کو بھول جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی انسان کی نیت کو نہیں دیکھتا وہ اس کی عبادت کو نہیں دیکھتا، بس بن مانگے عطا کرتا ہے۔ اس کے مقدر میں جو لکھا ہوا ہے وہ اس کو ضرور دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی جب انسان کو پیدا فرماتا ہے، جب انسان ایک لوتھ کی شکل میں دنیا پر آتا ہے۔ تو وہ اس کی زندگی کا تمام مال و دولت اس کے مقدر، میں جو بھی ہے اس کے ساتھ بیجھتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کے امتحان لیتا رہتا ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ میرا بندہ مجھے کس حال میں یاد کرتا ہے۔ وہ اس کو وقت دیتا رہتا ہے۔ اس کی ازمائش کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے جو انسان کے۔ مقدر میں لکھا ہے وہ اس کو ضرور ملے گا۔ لیکن انسان جو بھی کر لے جب اللہ کی مرضی ہوئی وہ تب ہی عطا کرے گا۔ وقت سے پہلے انسان جو کچھ بھی کر لے کھبی نہیں مل سکتا۔ اب جبکہ انسان کی پہچان زبان ہوتی ہے وہ جو اس کی پہچان ہوتی ہے۔ مگر زبان کا کیا کسی مزہب سے کوئی تعلق ہے؟ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ زیادہ تر اپنی ماں بولی بولتا ہے۔ پھر استہ استہ دوسری زبانوں کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ زبان انسان کی ایک پہچان ہے۔ مگر وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ کس طرح بولتا ہے وہ نرم مزاج۔ میٹھی باتیں کرتا ہے جسے ہر کوئی پسند کرے۔ مگر اس لحاظ سے ہر گز نہیں کہ وہ کون سے مزہب سے تعلق رکھتا ہے۔ انگریزی اس وقت دنیا میں ہر جگہ بولی جانے والی زبان ہے۔ ایجوکیشن میں ہر ہر جگہ انگریزی کا استعمال کیا جاتا ہے پھر کیا انگریزی بولنے والے سب لوگ انگریز ہوئے، نہیں ہر گز نہیں۔ جس طرح سے میں سوچتا ہوں کسی زبان کا مزہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر افسوس کہ ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو زبانوں کو بھی مزہب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ اگر اسلام مزہب کی کتاب قرآن پاک غربی زبان میں آیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اگر گیتا ہندو مزہب کی عظیم کتاب اگر سنسکرت میں ہے تو وہ زبان صرف ہندووں تک محدود نہیں رہ سکتی۔ اج کے زمانے میں اکثر ہندی اور آردو کو مزہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ جس کے چلتے ملک کی یکجہتی اور اپسی بھائی چارے میں بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ اور لفظوں اور نعروں کو بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ جو کہ برائے راست ملک کی شان پر اثر ہے۔ اگر ایک لفظ کو دو زبانوں میں بولا جائے تو اس کا الگ الگ مطلب نکالا جاتا ہے۔ اور اسی سے دنگے فسادات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی قومی زبان ہندی ہے مگر کہیں اگر ملک کے آ عین کی کسی لفظ یا نعرے کو اردو میں بیان کیا جائے تو وہ اس کو ایک خلافت سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کے مسلمانوں کو اردو زبان کی وجہ سے بہت سارے لوگ مسلمانوں سمجھتے ہیں جن کا تعلق ہندو مزہب سے ہے۔ اگر کوئی دوسرے مزہب کا آدمی پنجابی زبان بولتا ہے تو اسے سردار کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی اور مزہب سے تعلق رکھنے والا ہندی بولتا ہے تو اسے ہندو سمجھا جاتا ہے۔ اور زبانوں کو یہاں تک تقسیم کیا گیا ہے کہ لوگوں کی شخصیت پر اثر ڈال دیا گیا ہے۔ اگر کوئی کوئی علاقہی زبان بولتا ہے تو اسے ان پڑھ اور غریب سمجھا جاتا ہے۔ مثال اگر کوئی گوجری زبان پہاڑی زبان یا کوئی دوسری قومی سطح کی زبان بولتا ہے تو اسے کمزور غریب اور ان پڑھ سمجھا جاتا ہے۔ تو اگر کوئی ہندوستان میں رہ کر بھی انگریزی بولتا ہے تو اسے پڑا لکھا عقل مند اور سمجھدار مانا جاتا ہے۔لیکن یہ نہیں سمجھا جاتا کہ زبان ایک انسان کی ثقافت اور پہچان ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اسطرح کے کئی واقعات پیش آئے جن سے یہ ثابت ہوا کے یہاں زبان کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہندوستان کا نعرہ ہے۔۔ جے ہند۔۔ یہ ہندی زبان کے لفظ ہیں۔ جن کا مطلب ہے ہندوستان کے جے ہو یعنی واہ واہ ہو۔ ملک کی تعریف میں لکھے۔ جاتے ہیں۔ مگر ان ہی لفظوں کو اگر اردو زبان میں بولا جاتا ہے۔” ہندوستان زندہ باد "”تو اسے خلافت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں زبانوں میں ملک کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ ان ہی دو لفظوں کو لے کر ہندوستان میں مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔ کے یہ ملک کے خلاف ہیں۔ اور انہیں پاکستان جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ دوسرے مذہب کے لوگوں کی اور سے۔ ان لفظوں کی وجہ سے بہت سارے لوگ کو نشانہ بھی بنایا گیا۔ 2017میں آر۔ ایس ایس کے لوگوں نے ہریانہ کی ایک مسجد میں امام پر جان لیوا حملہ کیا۔ اس بار بار یہ بولنے پر مجبور کیا جا رہا تھا کہ بھارت ماتا کی جے بول۔۔۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ دھرتی ماں کی واہ واہ۔۔ مگر ہندوستان کے کانوں میں یہ لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی کسی کو زبردستی کوئی چیز نہیں کروا سکتا۔۔ یعنی کہ زبردستی کرنا ہماراے آعین اور قانون میں معنہ ہے۔۔ پھر اسلام مذہب بھی اسی چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ زمین یعنی دھرتی کو ماں کہا جائے۔ کیونکہ اس دھرتی پر بہت سارے ظلم اور تشدد ہوتے ہیں یہ زمین بہت سارے لوگوں کو کھا جاتی ہے طوفانوں کی وجہ سے کروڑوں لوگوں اس زمین میں دب جاتے ہیں۔ اور جب اسلام مذہب کے اندر کسی کو دفن کیا جاتا ہے تو وہ بھی زمین کے اندر ہی دفناتے ہیں۔ اسلیے جو ظالم ہو ظلم کرے وہ ماں نہیں ہو سکتی۔ مگر ہندو مذہب کے اندر اس کو ماں کہا جاتا ہے۔ اسی لیے لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دھرتی کو ماں کہے۔ لیکن اگر اردو زبان میں ہندوستان زندہ باد کہا جائے تو اس کا مطلب الگ نکال دیا جاتا ہے۔ ان ہی لفظوں کی وجہ سے کٹھوعہ میں گوجر بکر وال تبکہ سے تعلق رکھنے والے معذور لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان پر ہاتھا پائی بھی کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں یہ لفظ نہ کہنے والے لوگوں کو ملک کے خلاف بتایا جاتا ہے۔ اور انہیں پاکستان جانے کو کہا جاتا ہے۔مگر یہ سب ان لوگوں کا کام ہے جو جاہلیت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسطرح کے لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے ہمیں دنیا کے سامنے (بقیہ صفحہ9پر۔۔کیا مذہب)
شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ اگر اس بات کو دور کیا جائے زبانوں کو مذہب سے دور رکھا جائے تو ملک کے پہچان بن جائے اور دنیا میں سب سے بڑے جمہوری نظام والے ملک کو لوگ سلام پیش کرئیں۔ لیکن ہمارے یہاں بس مندر مسجد پر سیاست کرنا۔ گائے پر سیاست کرنا مذہب کے نام پر سیاست کرنا بس اسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن جو ہمارے ملک کی اصلی پہچان ہے اسے پاش پاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ زبانوں کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہندوستان کیسنسکرتی کے خلاف ہے۔ اور ہمارے بڑوں نے ہمیں جو سبق سکھیا تھا اسے دن با دن چھوڑا جارہا؛ ہے۔ ہم تب دنیا کے سامنے مثال پیش کر سکتے ہیں جب ہم ایک ہو کر امن چیناپسی اپسی بھائی چارے کو کی بات کرئں گے۔ کندھے سے کندہ ملا کر چلیں گے۔ اور زبانوں کو مذہب کے ساتھ جوڑنا چھوڑیں گے۔ یاد رہے زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اگر کوئی الگ الگ زبان بوتا ہے تو یہ اس کی طاقت ہے اس کی عقل مندی ہے۔ زبانیں صرف زبانیں ہوت ہیں۔ اور ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر راحت اندوری فرماتے ہیں کہ۔۔۔
جو آج صاحب ِمسند ہیں کل نہیں ہوں گے،کرائے دار ہیں زاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔
یعنی کہ ہندوستان سب لوگوں کا ہے اس میں سب کا حق ہے۔ اور ہر ہر مذہب کے جوانوں نے اس ملک کی آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے اور اس ملک کے لیے شہید ہوئے ہیں۔۔