۰۰۰
محمد ہاشم القاسمی
9933598528
۰۰۰
گجرات پولیس نے بروز اتوار 4 فروری ممبئی میں مقیم مفتی سلمان ازہری کو جوناگڑھ، گجرات میں نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے، ممبئی کی ایک عدالت نے اتوار کی شام ان کا ٹرانزٹ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس کو انہیں جوناگڑھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے مفتی سلمان ازہری کو 2 دنوں کے لئے گجرات پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔امکان ہے پولیس تحویل کے دوران گجرات پولیس ان سے پوچھ تاچھ کریگی۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سلمان ازہری کو پولیس حراست میں لیا گیا بلکہ اس سے پہلے 2018 میں مفتی سلمان ازہری کو کرناٹک میں تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس گاڑی میں سوار ہونے کے بعد اپنے ہزاروں حامیوں کو خطاب کرتے ہوئے مفتی سلمان ازہری نے کہا کہ ، ”جوش میں کبھی بھی ہوش نہیں کھونا چاہیے۔ حالات جیسے بھی ہوں میں آپ کے سامنے ہوں۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں کوئی مجرم نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے یہاں کسی جرم کے لیے لایا گیا ہے۔ میری تقریر کے حوالے سے جو بھی تحقیقات انہیں کرنی ہیں وہ کر رہے ہیں۔ ہم ان سے تعاون کر رہے ہیں اور آپ کو بھی کرنا چاہیے۔”
مفتی سلمان ازہری کی یہ گرفتاری ایسے وقت میں کی گئی ہے جبکہ گیان واپی مسجد کے تہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کے متعلق ایک ریٹائر ہونے والے جج نے اپنے اخری دن کے چند گھنٹے قبل ایسا متنازعہ فیصلہ سنایا ہے جس ملک کے ہر مکتبہ فکر کے علماے کرام نے اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے، جس کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور پہلی مرتبہ بیک زبان مسلم مذہبی قیادت کھل کر عدالت کے فیصلہ پر تنقید کر رہے ہیں۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری کھلا پیغام دینا چاہتے ہیں ہیں کہ چاہے ظلم کا سلسلہ کتنا ہی دراز ہو جائے ، علمائ کرام اپنی زبان بند رکھیں؟ حالانکہ یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری، اس سے پہلے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی گرفتاری، اس کے بعد مبلغ اسلام مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری ایک خاموش اعلان ہے کہ ملک کے جراء ت مند علماء کرام کے تئیں برسر اقتدار بھارتیہ جتنا پارٹی کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔
ورنہ کیا وجہ ہے کہ مفتی سلمان ازہری پر جو الزام عائد کیا جا رہا ہے ، اس سے کہیں زیادہ سنگین جرم حال ہی میں میرا روڈ کی بی جے پی ایم ایل اے گیتا جین ، کوکن کے بی جے پی ایم ایل اے نتیش نارائن رانے ، حیدر اباد کے ایم ایل اے راجہ سنگھ ، سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چانکے ، نفرتی ذہنیت کی حامل صحافی نوپور شرما اور ایسے بے شمار دیگر افراد نے کیا ہے کیا کے خلاف ایف ا ئی ار درج ہو نے اور عدالتوں کے احکامات کے باوجود ان کے خلاف کوئی ایکشن ہوا ؟ سریش چوانکے پر تو اٹھارہ سو ایف ائی ار ہیں۔ راجہ سنگھ پر درجنوں کیس ہیں ، لیکن ان کو مہاراشٹر میں داخل ہونے یا تقریر کرنے سے بھی نہیں روکا جا رہا ہے، گرفتاری تو بہت دور کی بات ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کے دور میں پارٹی لیڈران سیاسی مفادات کے حصول کے مدنظر نظام انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری انے والا حالات کے مدنظر مسلم مذہبی قیادت کی جرائت اور حوصلوں کو ٹٹولنے کی کوشش ہے۔
یہ ساری مسلم قیادت اور خاص طور پر مسلم مذہبی قیادت کیلئے ایک کھلا چیلنج ہے ، یہ واقعہ کسی فرد واحد کی گرفتاری کا معاملہ نہیں ہے۔ اس لئے اس معاملہ میں بیداری مغزی کے ساتھ غور و خوص ، ٹھوس حکمت عملی اور مضبوط لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے ملک کی بڑی تنظیموں کے درمیان اجتماعی اقدام و کارروائی کی ضرورت ہے۔