۹۲ ویں برسی یوم شہادت ۔۔!میر واعظ مولوی محمد فاروق

0
0

 

شگفتہ خالدی

دنیا کے نقشے میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں کوئی مسئلہ نہ ہو ۔یہ دنیا ہے اور اس میں مختلف ذہن و دل کے افراد رہتے ہیں ۔ان میں کسی کے بھی خیال کسی دوسرے سے نہیں ملتے ۔ملکوں اور خطوں میں علیحدگی کی تحریکیں بھی ہیں ۔ان تحریکوں کی بنیاد پر کئی ممالک وجود میں بھی آگئے ۔کئی ممالک نے طاقت کے زور پر عوامی تحریکوں کو کچلنے اور انہیں ختم کرنے کی بھی کوشش کی لیکن اس کے باوجود عوامی تحریک نے اپنا اثر دکھایا ۔ جہاں فوری طور پر تحریکیں دبا دی گئی ہیں وہاں سے بھی راکھ میں دبی چنگاری موجود ہے ۔عوامی تحریک کو کسی بھی طور طاقت کے زور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ہاں انہیں وقتی طور پر دبایا جاسکتا ہے ۔کشمیر میں بھی تقسیم ہند کے وقت سے ہی عوامی تحریک جاری ہے ۔جو نوے کی دہائی تک کسی بھی طور پرتشدد نہیں تھی ۔نوے کی دہائی میں دنیا میں جابر قوتوں نے کئی تندیلیاں لائی ۔کئی فرضی واقعات اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ انجام دے کر اس بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف جارحانہ کارروائی کا جواز تراشا گیا ۔ایسا واقعہ وادی کشمیر میں بھی ہوا جب یہاں کی ہر دلعزیز شخصیت میر واعظ مولوی محمد فاروق کو ان کے گھر میں ہی شہید کر دیا گیا ۔ان کے قتل میں نامعلوم افراد کو استعمال کیا گیا اور الزام عسکریت پسندوں کی باہمی چپقلش کے سر تھوپ دیا گیا ۔ہم کئی بھی بار لکھ چکے ہیں کہ جب حکومتیں عوامی تحریکوں سے خائف ہو جاتی ہیں تو وہ انہیں ختم کرنے کیلئے انسانیت سے گر کر بے گناہوں اور معصوموں کا خون بہا کر اس کا الزام تحریک پریا مزاحمت کاروںپر ڈال دیتی ہیں ۔اس کے لئے فرضی تنظیمیں بھی وجود میں لائی جاتی ہیں ۔لیکن کیااس طرح کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں ؟یہ ایک سوال ہے جو حکومتوں کے سامنے ہمیشہ رہنا چاہئے ۔لیکن حکومتیں طاقت کے غرور میں ایسے سوالات پر کبھی غور ہی نہیں کرتیں ۔انہیں تو بہر صورت اپنے اقتدار کی طاقت سے تحریکوں اور مزاحمت کو دبانے کاخبط سوار ہوتا ہے ،جس سے خون خرابہ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔
میر واعظ مولوی فاروق کی برسی پر وادی میں ہمہ گیر اور مکمل ہڑتال رہتا ہے جس سے نظام زندگی پوری طرح مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے ۔ہڑتال کی صد فیصد کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ میر واعظ مولوی محمد فاروق سے وادی کے عوام کے جذبات وابستہ ہیں ۔وادی کے لوگ اپنے مذہبی و سیاسی رہنماﺅں سے کتنا لگاﺅ رکھتے وہ ہڑتال کی کامیابی سے ہوتا ہے ۔کشمیر کی آزادی کے رہنماﺅں نے اس موقع پر عید گاہ چلو کا نعرہ بھی دیتے ہیں ۔کشمیر کے عوام اپنے رہنماﺅں کے ایک اشارے پر گھروں سے نکل پڑتے ہیں چنانچہ حکومت و انتظامیہ کی طرف سے کرفیو جیسے حالات پیدا کرکے عید چلو تحریک کو ناکارہ کردیا جاتا ہے۔لوگوں کو گھروں میں بند رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے سنسان سڑکوں پر صرف فوجیوں کی گاڑیاں ہی دوڑتی رہیں ۔میر واعظ کوئی عام فرد نہیں تھے وہ وادی کشمیر کی ایک معروف شخصیت تھے۔ انہوں نے ساری عمر اسلام کیلئے وقف کی تھی اور وہ وادی کے عوام کو دین سے جوڑنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔انہوں نے دین اسلام کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی وادی کے عوام کو بیدار کیا جہاں مدتوں سے مسلمانوں کی اکثریت ایک ہندو راجا کی غلامی میں اپنی شناخت کھو رہے تھے اور سیاسی طور پر جن سے زبانیں چھین لی گئی تھیں ۔میر واعظ جیسے دین کے علمبرداروں نے عوام کو سیاسی اور دینی پسماندگی سے باہر لاکر ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کی کامیاب کوشش کی۔اوپر لکھا جاچکا کہ جب حکومت کسی تحریک یا کسی تحریکی شخصیت سے خائف ہو جاتی ہے تو وہ ایسی شخصیت کو راستے سے ہٹانے کی سازشیں کرتی ہے ۔پرامن تحریک کو بے اثر دیکھتے ہوئے وادی میں جب عسکری تحریک کا آغاز نوے کی دہائی میںہواتو اس کو کچلنے کیلئے اور پر امن تحریک کے علمبرداروں کے اثرات کو زائل کرنے نیز عوام میں خوف و دہشت پیدا کرنے کیلئے حکومت کی ایماءپر سلامتی دستوں نے مزاحمت کاروں کو پکڑنے یا مارنے کے بہانے عوام پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے ۔ان مظالم میں نوجوانوں کی بیجا گرفتاریاں ،فرضی انکاﺅنٹرمیں نوجوانوں کا قتل اورعوام کے دلوں میں
دہشت بٹھانے کیلئے عام طور پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوا ۔
سلامتی دستوں کی مذکورہ بالا جبر اور ظلم وستم کیخلاف وادی کی سرکردہ شخصیت نے آواز اٹھائی ان میں نمایاںطور پر میر واعظ مولوی محمد فاروق،جنوبی کشمیر کے میر واعظ قاضی نثار ،ایڈووکیٹ جلیل اندرابی ،عبد الغنی لون کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ درجنوں ایسے سیاسی ودینی رہنما تھے جنہوں نے سلامتی دستوں کی انسانیت سوز حرکتوں اور درندگی و ظلم کیخلاف جد وجہد کی اور جنہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے آواز اٹھائی انہیں مشکوک حالت میں قتل کردیا گیا ۔ان کو قتل کرنے کیلئے انہی نا معلوم افراد کا سہارا لیا گیا جن کے بارے میں آج تک عوام نہیں جان پائے کہ یہ لوگ کون تھے انہیں وادی کشمیر کی عوامی شخصیت و رہنماﺅں سے کیا پر خاش تھی ۔اس کے علاوہ کئی صحافیوں جن میں مشتاق علی اورآصفہ جیلانی شامل ہیںکو بھی بارودی دھماکوں کے ذریعہ قتل کردیا گیا ۔اس طرح سے سرکردہ شخصیات اور تحریک سے جڑے افراد کو مشتبہ حالت میںقتل کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔میر واعظ مولوی فاروق کو 21 مئی 1990 میں انکے گھر میں نامعلوم افرادنے گولیوں کی برسات کرکے لہو لہان کردیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاکر وہیں جام شہادت نوش فرماگئے۔یہاں بھی نامعلوم افراد کا سہارا لیا گیا ۔حکومت کی جارحانہ اور حقوق انسانی کی بدترین پامالی والی پالیسی دیکھئے کہ جب میر واعظ کی میت جنازے صورت میں حول کے راستے سے لے جائی جارہی تھی تب ہندوستانی سلامتی دستوں نے جنازے پر فائرنگ کرکے درجنوں افراد کو وہیں پر شہید کردیا ۔آج تک حکومت نے اس پر اپنے موقف کو واضح نہیں کیا کہ جنازہ میں شامل افراد پر کیوں گولی چلائی گئی ۔اتنی سفاکی اور انسانیت سوز حرکتیں دنیا کے کسی گوشے میں کسی حکومت یا اس کے سلامتی دستوں نے نہیں کی ہوگی۔ مولوی فاروق ایک امن پسند اور دیندار شخصیت تھے وہ کوئی عسکریت پسند نہیں تھے اس کے باوجود ان کے ساتھ حکومت اور انتظامیہ نے اتنی درندگی کا مظاہرہ کیوں کیا؟کیا ظلم یا نا حق کیخلاف آواز اٹھانے والوکے ساتھ اس طرح حیوانیت کا مظاہرہ کرکے حکومت اوراس کے سلامتی دستے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ عوام کو بیدار کروگے اور انہیں ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا سکھاﺅگے تو اس کی یہی سزاہے ؟ ڈاکٹر قاضی نثار ،ایڈووکیٹ جلیل اندرابی یہ حقوق انسانی کے خاموش مجاہد تھے انہوں نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا صرف حقوق انسانی کی بدترین پامالی کیخلاف لکھنے والے تھے یہ لوگ کوئی عسکریت پسند نہیں تھے ۔پھر انہیں کیوں قتل کیا گیا ؟حکومت ،انتظامیہ اور اس کے سلامتی دستوں کی ایسی ظالمانہ حرکتوں سے ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ وادی میں اظہار رائے کو بندوق کے بل پر دبایا جاتا ہے۔پھر بھی حکومت بیرون ملک امن کا سفیر بننے کی کوشش میں رہتی ہے اور عالمی برادری یہاں حقوق انسانی کی بدترین پامالی پر حکومت ہند پر دباﺅ نہیں ڈالتی کہ وہ وادی میں خون خرابہ ختم کرے اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو روک کر اسے بحال کرے ۔آخر کیوں عالمی برادری یہاں کے قتل و غارتگری پر خاموش ے اور یہاں کے سیاسی رہنماﺅں کو ریٹ کارپیٹ پیش کیا جاتا ہے ؟کیا اس طرح کی دورنگی اور دوغلی پالیسی سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے ؟یہ سوال وادی کے مظلوم عوام کا دنیا میں امن کے علمبرداروں سے ہے جس کا جواب تو بہر حال آج یا کل انہیں دینا ہی پڑے گا ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا