ہندوستان کا بجٹ، اب نئے سفر کا آغاز

0
0

مولانا محمد نعمان رضا

ہندوستان کا سالانہ یونین بجٹ ہر برس نئے سال کے دوسرے ماہ کی پہلی تاریخ کو مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ امثال بھی لوک سبھا انتخابات ۲۰۲۴ء سے پہلے مودی حکومت کی دوسری میعاد کا آخری بجٹ یکم فروری کو پیش کیا گیا۔ وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں ۲۵۔ ۲۰۲۴ء کا عبوری بجٹ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس” کے منتر کے ساتھ پیش کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سال ۲۰۲۷ء تک ترقی یافتہ بھارت کو ہدف تک پہنچنے اور ناری شکتی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے، سروائیکل کینسرکی روک تھام کے لیے ویکسینیشن کی جائے گی۔ مزید کہا کہ مالیاتی خسارہ ۲۵۔ ۲۰۲۴ء میں جی ڈی پی کا ۱ئ۵؍ فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔ وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ ہدف حاصل کر لیا جائے تو ہندوستانی معیشت دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن جائے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے عبوری بجٹ کو جامع اور اختراعی قرار دیا اور کہا کہ بجٹ میں۲۰۲۷ء کے ترقی یافتہ بھارت کی ضمانت ہے۔ اورمرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے عبوری بجٹ کو کسانوں کیلئے وقف بتاتے ہوئے کہا:یہ ملک کے کسانوں کیلئے خوشی اور خوشحالی کے نئے مواقع لے کر آیا ہے۔
بجٹ کی اہمیت کیوں؟

بجٹ کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کا تعلق ملک کے تمام سرکاری پروگراموں اور پالیسیوں سے ہوتا ہے، حیات کے دیگر شعبے بھی اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ بجٹ کا اثر ہر طرح کی صنعت اور کاروبار پر ہوتا ہے۔ عوام کی بات کریں تو پسماندہ طبقے، متوسط طبقے اور اعلیٰ طبقے کے علاوہ معاشی اعتبار سے سماج کا خوشحال طبقہ بھی بجٹ سے امیدیں لگائے رکھتا ہے۔ چھوٹے بڑے صنعت کاروں اور کاروباریوں کو بھی بجٹ کے آنے کا انتظار رہتا ہے اور وہ بجٹ میں پیش کی گئی پالیسیوں نیز ٹیکس سے متعلق تفصیلات کے مطابق آنے والے سال کے لیے اپنا کاروباری منصوبہ بناتے ہیں۔ ہر برس یکم فروری کو پیش کیا جانے والا بجٹ ایک ہفتے یا ایک ماہ کی مشقت کا نتیجہ نہیں ہوتا، قریب پانچ چھ ماہ قبل سے بجٹ بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ وزارت مالیات پہلے بجٹ بنانے کے عمل سے جڑے افراد اور اداروںکو سرکلر جاری کرتی ہے۔ پھر میٹنگ کا دور شروع ہوتا ہے۔ آنے والے سال کے لیے اخراجات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ حکومت کی آمدنی و نقصان پر گفتگو ہوتی ہے۔ محصول و اخراجات کی جانچ ہوتی ہے۔ اگر آنے والے سال میں زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے تو اسے کم کیسے کیا جائے، اس پر غور کیا جاتاہے۔ معیشت سے جڑے اس طرح کے کئی اہم نکات پر گہرائی سے غور و فکر کے بعد بجٹ کا مسودہ تیار کیا جاتا ہے اور اسے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اسی لیے بجٹ اتنا اہم ہوتا ہے۔
بات جب بجٹ کی اہمیت پر ہوگی تو تیز رفتاری سے ۲۰۲۴ء کے اہم نکات بھی دائرہ گفتگو میں آئیں گے۔ ہم یہاں پر ۲۵ ؍ اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
(۱)پی ایم آواس یوجنا (دیہی) کے تحت تین کروڑ مکانات کا ہدف جلد ہی حاصل کیا جائے گا۔(۲) اگلے پانچ سالوں میں دو کروڑ اضافی مکانات کا ہدف۔(۳)۴۰؍ہزار عام ریلوے ڈبوں کو ‘وندے بھارت’ کے معیار میں تبدیل کیا جائے گا۔(۴)چھتوں پر سولر سسٹم لگانے سے ایک کروڑ خاندانوں کو ہر ماہ ۳۰۰؍یونٹ تک مفت بجلی ملے گی۔(۵)ہرخاندان کو سالانہ ۱۵؍ ہزارسے ۱۸؍ ہزار روپے کی بچت کی امید ہے۔(۶)ریاستوں کو ۵۰؍سالہ بلاسود قرض کے طور پر ۷۵ ؍ہزارکروڑ روپے کی فراہمی۔(۷) ایک لاکھ کروڑ روپے کے ۵۰؍ سالہ سود سے پاک قرض کے ساتھ ریسرچ اینڈ انوویشن فنڈ قائم کیا گیا۔(۸)ڈیپ ٹیک ٹیکنالوجی کو مضبوط کرنے اور خود انحصاری کو تیز کرنے کے لیے ایک نئی اسکیم۔(۹)مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا۴ئ۳؍ فیصد۔(۱۰)۲۰۳۰ء تک ۱۰۰؍ٹن کی کوئلہ گیسیفیکیشن اور لیکیفیکیشن کی صلاحیت قائم کی جائے گی۔(۱۱)سی این جی اور پی این جی میں سی بی جی کا اختلاط لازمی ہے۔(۱۲)مشہور سیاحتی مقامات کی مجموعی ترقی کے لیے ریاستوں کی حوصلہ افزائی کرنا، عالمی سطح پر ان کی برانڈنگ اور مارکیٹنگ کرنا۔(۱۳)دستیاب سہولیات اور خدمات کے معیار کی بنیاد پر سیاحتی مراکز کی درجہ بندی کا فریم ورک۔(۱۴)تمام آشا کارکنان، آنگن واڑی کارکنان اور معاونین آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت صحت کی دیکھ بھال کی حفاظت میں شامل ہیں۔(۱۵)ٹیکس کی وصولی ۲۴.۲۳؍ لاکھ کروڑ روپے۔(۱۶)کل اخراجات کا نظر ثانی شدہ تخمینہ ۹۰.۴۴؍لاکھ کروڑ روپے۔(۱۷)ریونیو وصولی بجٹ کا تخمینہ۰۳.۳۰؍ لاکھ کروڑ روپے۔(۱۸)مالی سال۲۴۔ ۲۰۲۳ء کے لیے مالیاتی خسارے کا نظرثانی شدہ تخمینہ ۸ئ۵؍ فیصد ہے۔(۱۹)قرض لینے کے علاوہ کل رسیدیں اور کل اخراجات کا تخمینہ بالترتیب ۸۰ئ۳۰؍ لاکھ کروڑ روپے اور ۶۶ئ۴۷؍ لاکھ کروڑ روپے ہے۔(۲۰)ٹیکس وصولی کا تخمینہ ۰۲ئ۲۶؍لاکھ کروڑ روپے ہے۔(۲۱)ریاستوں کے سرمائے کے اخراجات کے لیے ۵۰؍سالہ بلاسود قرض کی اسکیم اس سال بھی ۳ئ۱؍لاکھ کروڑ روپے کے کل اخراجات کے ساتھ جاری ہے۔(۲۲)۲۵۔ ۲۰۲۴ء میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا ۱ئ۵؍ فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔(۲۳) خوردہ کاروباروں کے ممکنہ ٹیکس کے لیے ٹرن اوور کی حد کو ۲ ؍کروڑ روپے سے بڑھا کر ۳ ؍کروڑ روپے کر دیا گیا۔(۲۴) پیشہ ور افراد کے لیے ممکنہ ٹیکس کی حد ۵۰ ؍لاکھ روپے سے بڑھا کر ۷۵؍ لاکھ روپے کر دی گئی۔(۲۵) ریٹرن فائلنگ کو آسان بنانے اور پہلے سے بھرے ہوئے ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات کے ساتھ انکم ٹیکس ریٹرن کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے نیا ۲۶؍اے ایس فارم۔
بجٹ پیش ہونے کے بعد جس طرح سے حکومت کے وزرا اور حکمراں جماعت کے لیڈران اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، اس سے بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہندوستان سے غربت، بے روزگاری، نا خواندگی، بیماری سب کا خاتمہ ہو گیا ہے اور ہندوستان آج سے ایک ایسے نئے سنہرے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں معیشت اور صنعت کی ترقی کے تمام ثمرات کا بہاؤ ملک کے غریب اور محنت کش عوام کی طرف ہوگا، کسی نو جوان کو روزگار کیلئے خوار نہیں ہونا پڑے گا اور نہ کسی کو خالی پیٹ سونے کی نوبت آئے گی، نہ کوئی علاج سے محروم ہوگا اور نہ جہالت کے اندھیرے میں رہے گا۔ لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ اس بجٹ میں نہ تو تعلیم کا ذکر ہے اور نہ ہی غریب مزدوروں کیلئے کسی گنجائش کا اعلان کیا گیا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بنیادی سوالات کا جواب بھی اس بجٹ
میں نہیں مل رہا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کیلئے رقم میں معمولی اضافہ افراط زر کے مقابل کتنا ٹکاؤ ثابت ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ترجیحی خاندانوں کیلئے مفت اناج اسکیم کی مدت میں اضافہ کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کامیاب کوشش ضرور کی گئی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا ملک کئی لاکھ کروڑ روپے کا قرض دار ہے۔
کسی بھی ملک کے بجٹ کا تعلق اس کے بڑے صنعت کاروں اور کاروباریوں سے بڑا گہرا ہوتا ہے، اس لیے دیکھنے والی بات یہ بھی ہوگی کہ ملک کا صنعتی طبقہ ۲۰۲۴ء کے بجٹ پر کن آرا کا اظہار کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا جا چکا ہے۔ اہل اقتدار اسے بہترین بجٹ بتا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیںکہ اس میں سماج کے سبھی طبقوں کا خیال رکھا گیا ہے جبکہ اپوزیشن پارٹیاں اس میں خامیاں گنوا رہی ہیں۔
ٹی وی چینلوں پر زور دار بحثوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات بھی سیاسی نظریات کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے نظریات کے مطابق وہ بجٹ کی تعبیر و تشریح کر رہے ہیں اور اسے غلط اور صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس بجٹ نے کس کو کیا اور کیوں دیا، اس سے متعلق عوام کو خود گہرائی سے سوچنا چاہیے اور یہ طے کرنا چاہیے کہ یہ بجٹ ان کے لیے کیسا ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا