مذاکرات کے بغیر کوئی دوسرا متبادل نہیں

0
0

ہند۔ پاک اعتماد سازی کے اقدامات اٹھائیں، ہم ہر سطح پر تعاون دینے کے لئے تیار: میرواعظ عمر فاروق
یواین آئی

سرینگرحریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور اس کو طاقت و قوت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے پاس مذاکرات کے بغیر کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔میرواعظ نے ہندوستان اور پاکستان سے کشمیر سے متعلق اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ حریت قیادت ہر سطح پر تعاون دینے کے لئے تیار ہے۔ تاہم انہوں نے جہاں بی جے پی حکومت کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کا مشورہ دیا وہیں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو سراہتے ہوئے کہا کہ موصوف نے بارہا مذاکرات کی خواہش ظاہر کی۔حریت کانفرنس (ع) چیئرمین اتوار کے روز یہاں راجباغ میں واقع حریت صدر دفتر پر منعقدہ سمینار بعنوان ‘ہند پاک کشیدگی کے تناظر میں مذاکراتی عمل کی اہمیت’ کے دوران صدارتی خطاب کررہے تھے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیر اہتمام یہ سمینار ہفتہ شہادت کی تقریبات کے سلسلے میں شہید ملت میرواعظ مولانا محمد فاروق، شہید حریت خواجہ عبد الغنی لون، شہدائے حول اور جملہ شہدائے جموں کشمیر کو ا±ن کی قربانیوں پر خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔میرواعظ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور کشمیر بھی ‘چین پاکستان اقتصادی راہداری’ جیسے منصوبے کا حصہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ راستے کھلیں، لوگوں کے درمیان روابط بڑھیں اور آپس میں تجارت ہو۔حریت چیئرمین نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات کی وکالت کرتے ہوئے کہا ‘ہم امید کرتے ہیں ہندوستان کی سیاسی قیادت یہ بات سمجھ لے گی کہ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور اس مسئلے کو طاقت اور قوت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جاسکتا’۔انہوں نے کہا ‘دونوں ممالک کے پاس بات چیت کے بغیر کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت بالخصوص وزیر اعظم عمران خان نے پلوامہ واقعہ کے بعد اپنے رویے سے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ بات چیت کے خواہاں ہیں۔ عمران خان نے برملا یہ بات کہی کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کشمیر کیا چاہتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ یہ ایک نئی تبدیلی ہے۔ یہ ایک نئی سوچ ہے’۔میرواعظ نے ہندوستان اور پاکستان سے کشمیر سے متعلق اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ حریت قیادت ہر سطح پر تعاون دینے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں ہندوستان اور پاکستان کے ارباب اقتدار کےساتھ مذاکرات کے کئی دور کئے ان کے سامنے اپنی تجاویز رکھیں اور اگر آج بھی دونوں ممالک کی قیادت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بامعنی مذاکراتی عمل کا راستہ اختیار کرتی ہے تو حریت قیادت اپنا بھرپور تعاون دینے کے لئے تیار ہے۔انہوں نے کہا ‘ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری قابل ذکر ہیں، میں ہندوستان اور کشمیر بھی شامل ہو۔ راستے کھلنے چاہیں۔ لوگوں کے درمیان روابط اور آپسی تجارت بڑھنی چاہیے۔ یہ اعتماد سازی کے ایسے اقدامات ہیں جن کی بدولت حوصلہ بڑھ سکتا تھا۔ ان کو دیکھ کر یہاں کے نوجوان اور لیڈرشپ بھی کہتی کہ کچھ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں’۔ان کا اس پر مزید کہنا تھا ‘اس وقت نوجوانوں میں بہت غصہ اور مایوسی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی لیڈرشپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقدامات اٹھائیں۔ ہم ہر سطح پر اپنا تعاون دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہم نے من موہن سنگھ صاحب، واجپئی صاحب اور مشرف صاحب کو بتایا تھا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے اعتماد پیدا ہو’۔میرواعظ نے ہندوستان میں بننے والی نئی حکومت سے بہتر کی آس لگاتے ہوئے کہا ‘ہندوستان میں جو بھی نئی حکومت بنتی ہے ہمیں امید ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اختیار کی گئی گذشتہ پانچ سال کی پالسیوں کا محاسبہ کرے گی’۔ انہوں نے موجودہ بی جے پی حکومت پر کہا ‘ہم حکومت ہندوستان بالخصوص موجودہ بی جے پی سرکار سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لائے۔ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں کیا جاتا ہے تب تک امن قائم ہوگا نہ معاشی ترقی ہوگی’۔میرواعظ نے ریاست کی موجودہ صورتحال کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے کشمیر میں ہر طرف مار ڈھاڑ، کارڈ اینڈ سرچ آپریشنز کی آڑ میں پکڑ دھکڑ، قتل و غارت، حتیٰ کہ مزاحمتی سیاسی قیادت کی پ±ر امن سرگرمیوں پر بھی طاقت کے بل پر پابندیاں اور قدغنیں عائد کی جارہی ہیں اور یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ کشمیریوں کی آواز کو دبایا جائے۔انہوں نے کہا ‘یہاں کی نوجوان نسل کو طاقت کے بل پر پشت بہ دیوار کیا جارہا ہے ان کے لئے سیاسی مکانیت مسدود کردی گئی ہے اور یہ ہندوستان کی ظلم و جبر سے عبارت کارروائیوں کا نتیجہ ہی ہے کہ یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان، سکالر، اور ڈگری یافتہ طالب علم ملی ٹینسی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کئے جارہے ہیں کیونکہ ان میں ایک غصہ اور مایوسی ہے۔ ہمارا نوجوان صرف ظلم و جبر کی وجہ سے ہی تشدد کا شکار ہورہا ہے’۔میرواعظ نے ریاستی کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہاں کے عوام کے درد اور مشکلات کا احساس کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی کےساتھ ادا کریں۔ان کا کہنا تھا ‘آج کشمیریوں کی چوتھی نسل مصروف جد وجہد ہے اوریہ مسئلہ ملٹری مائٹ سے عبارت پالیسی سے حل کرنے کی سوچ خود ہندوستان کے آئین میں درج جمہوری اقدار کی نفی کرتی ہے۔ جموں کشمیر میں ہند نواز مقامی سیاسی تنظیموں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہاں کے عوام کے درد اور مشکلات کا احساس کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی کے ساتھ ادا کریں اور ان کی جانب سے ہمدردی کے بول محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کےلئے ہی استعمال نہ ہونے چائیں’۔میرواعظ نے شہید ملت، شہید حریت، شہدائے حول اور جملہ شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ قربانیاں ہمارا اثاثہ ہے اور ان قربانیوں کی ہر حالت میں حفاظت کی جائے گی۔سمینار میں جن سرکردہ حریت قائدین اور دانشوروں نے موضوع کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ا±ن میں پروفیسر عبد الغنی بٹ، بلال غنی لون، مولانا مسرور عباس انصاری، انجینئر ہلال احمد وار، سمپت پراکاش، غلام حسن میر، جعفر کشمیری، طارق احمد ڈار، سید علی گیلانی کے نمائندے اویسی شامل ہیں جبکہ سمینار کی نظامت کے فرائض مولانا ایم ایس رحمٰن شمس نے انجام دیئے۔ اپنے خطاب میں پروفیسر عبد الغنی بٹ نے مزاحمتی قیادت کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہ قیادت کا فرض ہے کہ وہ اس قوم کو صیح راستے پر لگائیں۔ انہوں نے کہا عالمی سطح پر حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور ان تبدیلیوں کے تناظر میں ہم کو وہ راستہ اختیار کرنا چایئے جو ہمیں اپنی منزل سے ہم کنار کرے۔پروفیسر عبدالغنی نے کہا کہ ہم کو اعتدال پسندی سے عبارت پالیسی اختیار کرنی چائے اور ہندوستان اور پاکستان کی قیادت کو اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں موثر اور جرات مندی سے عبارت پالیسی اپنانی چائے۔ انہوں نے کہا کہ جملہ تحریکی تنظیموں کو کل جماعتی حریت کانفرنس میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے تاکہ ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکے۔مولانا عباس انصاری نے اپنے خطاب میں شہید قائدین اور جملہ شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن ہمیں اس بات کا عہد کرنا چایئے کہ ان شہیدوں نے جس نصب العین کے لئے اپنی جانیں قربان کیں اس کو منطقی انجام تل لےجانے کےلئے ہمیں ہر سطح پر اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ اتحاد کے قائل رہے ہیں اور اگر کچھ لوگ حریت سے باہر ہیں تو ان کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔بلا ل غنی لون نے اپنے خطاب میں کہا کہ حریت کانفرنس کی قیادت ہمیشہ اتحاد کی داعی رہی ہے اور موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ ہم اپنے قائد اور حریت چیئرمین میرواعظ صاحب کو اپنے بے مثال تعاون سے مضبوط بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اعتدال پسندی پر فخر ہے کیونکہ اعتدال پسندی سے عبارت سیاست کاری سے ہی مسائل کے حل کےلئے راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا