احساس و ادراک : ایک اہم شعری اثاثہ

0
0

ڈاکٹر یحییٰ نشیط
کل گاو¿ں ،ضلع ایوت محل(مہاراشٹرا)

 

”احساس و ادراک “ ڈاکٹر مقبو ل احمد مقبول کی ربا عیا ت کا دیوان ہے ۔ اردو ہی میں نہیں فارسی میں بھی ربا عیا ت کے دیوان بہت کم تر تیب دیئے گئے ہیں ۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوا ؟ جبکہ بعض رباعی گو تو ایسے ہیں جن کے مجموعات ِ رباعی میں تمام حروف ِ تہجی کی ردیفیں ملتی ہیں مگر بے ترتیب ہو نے کی وجہ سے انہیں دیوان کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا ۔فی زمانہ کسی ایک ہی شاعر کے دسیوںشعری مجموعے منظر عام پر آ جا تے ہیں مگر اس کا کوئی دیوان مر تب نہیں کیا جاتا اس کے برعکس بیسویں صدی کے اوائل تک دیوان کو مرتب کرنے پر تو جہ دی جا تی تھی شعری مجموعے کی اشاعت کو اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ غالباً داغ کے بعد سے دیوان تر تیب دینے کے رجحان میں کمی آئی ۔
رباعی کے دیوان شروع ہی سے کم شائع ہو ئے ہیں بلکہ ابتدا تا حال ربا عیات کے دواوین انگلیوں پر بآسا نی گنے جا سکتے ہیں ۔نئی صدی کی ابتدا میں ایک عشرے کے درمیان دو تین دیوانِ ربا عیا ت منظر عام پر آ جانا فعلِ سعید سمجھا جا سکتا ہے ۔ ناوک حمزہ پوری کا دیوانِ رباعیات ”ہزار رنگ “ شاہ حسین نہری کا دیوانِ معکوس ”ربیعہ “ اور دوسرا دیوان ”شاہ بانی “اس کی مثالیں ہیں ۔ ہو سکتاہے ہند و پاک میں اور بھی دیوان شائع ہو ئے ہو ںجن کا مجھے علم نہیں ”ربیعہ “ دوا و ین کی تاریخ میں ایسا دیوان ہے جس کی حروف ِ تہجی کی تر تیب معکوس ہے ۔ یعنی یا ئے لین سے الف تک ۔
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول کا تر تیب دیا ہوا دیوانِ ربا عیا ت ”احساس و ادراک “نئی صدی کا تیسرا دیوانِ رباعیات ہے ۔اس دیوان میںتقریباً ۰۵۲ ربا عیات ہیں اور تمام حروف ِ تہجی پر محتوی ہے ۔ شا عر نے دائرہ ¿اخرم اور دائرہ¿ اخرب کے ۲۱ ، ۲۱ یعنی کل ۴۲ اوزان میں اپنے دیوان میں رباعیاں لکھی ہیں ۔
مقبول کا دیوان قدیم ادبی روایت کے مطابق حمد و نعت سے شروع ہو تا ہے ۔ شاعر نے حمد و نعت میں چار چار رباعیاں کہی ہیں ۔ باقی ربا عیات مختلف موضوعات کی حامل ہیں ۔ جن میں اخلا قیا ت ، نصائح ، بے ثبا تیِ دنیا ، مذمت ِدو لت و شہرت ، حرص و ہو س ، ایثار و ہمدردی ، اخوت و محبت ، تعظیم و تکریم ، حسنِ اخلاق ، موت و حیات ، یکجہتی اور بھائی چار گی ، حب الوطنی ، قدرو ں کی پا مالی ، جدید اذہان کی بے راہ روی ، سیا ست ِ حاضرہ ، انسا نیت کا زوال ، شر پسندی کا بڑھتا رجحان ،زوال آمادہ تہذیب و معا شرت ، مذہبی سیاست ،منا فرت و مناقشا ت ، تو حید و رسا لت ، علوم عصریہ و دینیہ کے علا وہ شا عر نے علمِ عروض اور فنِ شا عر ی کے مضامین بھی اپنی رباعیوں میں شامل کیے ہیں۔ آخر الذکر دونوں مضامین رباعی میں شاذ ہی برتے گئے ہیں ۔ مقبول احمد نے ان مضامین کی توضیح بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے۔

شر مندہ ہو نے سے بچا تا ہے عروض
توقیر بھی شاعر کی بڑھاتا ہے عروض
اک درجہ بڑ ا دوسروں سے ہو تا ہے
شاعر وہ، جسے کامل آتاہے عروض

ویسے تو کوئی وزن ، نہیں ہے ممنو ع
لیکن ہیں کچھ اوزان ، نہا یت مطبو ع
اوروں سے زیادہ ہے تر نم ان میں
شاعر سبھی ہوتے ہیں تبھی ، ان سے رجوع
مقبول احمد نے اپنی رباعیات میں سہل زباں ، ترا کیب سے اجتنا ب اور سریع الفہم خیال آرائی پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ پیچیدہ اور دور از فہم خیالات کو انھوںنے اپنی رباعیوں میں جگہ نہیں دی ۔ ان کی ربا عیوں کے موضوعات میں سا منے کے واقعات اور شنیدہ و دیدہ حقائق شامل ہیں ۔ سہل انگاری کے اس وصف نے ان کی ربا عیات میں اثر آفرینی کو بڑھا دیا ہے ۔
فارسی اردو اور ہندی کے غیر مطبوع اور گراں گوش حروف ذ، ڈ اور ڑ ،ژ پر ختم ہونے والے الفاظ چند ہی ہیں ۔ انھیں تلاش کر نے کے لیے فر ہنگ و لغت کا سہارا نا گزیر ہوتا ہے ۔ ایسے الفاظ کے استعمال سے شعر میں آ ورد کا عیب در آتاہے ۔ ہمارے دوا وین میں مذکورہ حروف کے ردائف و قوا فی کے حامل اکثر اشعار اس عیب کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ مقبول نے اس عیب سے بچنے کے لیے روزانہ استعمال ہو نے وا لے الفاظ اپنے اشعار میں استعمال کیے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاعری کے معا ملے میں مقبول محتاط ہیں ۔ الفاظ کی قدر و قیمت کو پر کھنے کا انھیں سلیقہ ہے ۔ شعری ضرورت کے تحت جہاں غیر معیاری یا متروک لفظ کے استعمال کے بغیر چارہ ¿ کار نہ ہو ، وہاں وہ بر ملا اپنی مجبوری کا اظہار بھی کر دیتے ہیں ۔
رباعی میں بحر ہزج کے ایک رکن سالم ”مفا عیلن“ اور اس کے نوزحافات قبض (مفاعلن) کف (مفاعیل )اشتر (فاعلن ) خرم (مفعولن) خرب (مفعول) ہتم (فعول) زلل (فاع) جب (فعل ) اور بتر (فع) استعمال ہو تے ہیں ۔ ان دس ارکان کو خرم اور خرب کے دوائر میں تر تیب دے کر ایک ایک دا ئرے کے بارہ بارہ اوزان بنا دیئے گئے ہیں۔ ان کے استعمال کی کچھ عرو ضی شرائط بھی ہیں ۔ مثلاً رکن سالم مفاعیلن اور اس کے زحا فات قبض ، کف اور شتر کااستعمال حشو ہی میں ہو تا ہے ۔ خرب اور خرم عروض و ضرب میں نہیں آ سکتے اور ہتم ، زلل ، جب اور بتر صرف عروض و ضرب ہی میں آ سکتے ہیں ۔ مقبول نے ان تمام ۴۲ اوزان کا استعمال اپنی رباعیات میں کیا ہے۔ عروضی اسقام سے بڑی حد تک اپنی ربا عیا ت کو محفوظ رکھنے کے لیے انھوں نے تراکیب ِلفظی کم سے کم استعمال کی ہیں۔
جس میں ہو تجسس ، وہ کہانی ہے لذیذ
پر عزم اگر ہو ، تو جوانی ہے لذیذ
امرت بھی ہے بے کار ، جو حاجت ہی نہ ہو
اور پیاس ہو ، تو کھارا پانی ہے لذیذ
انھوں نے اپنی رباعیوں میں ضرب الامثال اور محاورو ں کا بھی استعمال کیا ہے ۔ منہ کی کھا نا ، راہ تکنا ، دامن جھٹکنا ، دن پھر نا ، سراٹھانا ، سبق سکھانا ، آنسو بہانا ، زہر کھانا ، کنویں جھانکنا ، جی کھونا ، جان میں جان آ نا ، چاک گریباں ہو نا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں ۔
مقبول احمد جذبہ¿ حب الوطنی سے سر شار ہیں ۔ وہ ملکی حالات اور سیا سی ہتھکنڈوں سے آگاہ ہیں ۔ یکجہتی اور بھائی چار گی کے مو¿یّد ہیں ۔ منا فرت و منا قشات سے بیزار دکھائی دیتے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے اس سمِ قا تل کو پھیلا نے والوں کو دہائی دیتے ہیں ۔ یہ سارے عصری مضامین ان کی رباعیوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ رباعیات کا ایک موضوع خمر یات بھی ہے ، جو خیام کے دور سے متواتر چلا آرہا ہے ۔ مقبول احمد کے یہاں البتہ اس کی ”تشنگی “ محسوس ہو تی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے کہ ام الخبائث کا انھوں نے ذکر نہیں کیا ۔
رباعی میں عصری حسیت کو بر تنا ذرا مشکل امر ہے ۔ اس لیے کہ وقوع پذیر کسی وا قعہ سے متاثرہ احساس کو چار مصرعوں میں بیان کر نا بڑا دقت طلب ہو تا ہے ۔ مقبول احمد کے یہاں بعض رباعیوں میں عصری حسیت کی گونج سنا ئی دیتی ہے ۔

مقصودِ ”پروفیسر “ بنی ،پی ایچ ڈی
ہو نے لگے لکچر ر سبھی ، پی ایچ ڈی
کیا کیا تو ہو رہے ہیں گھپلے اس میں
افسوس ! کہ بازارو ہو ئی، پی ایچ ڈی

تاریخ میں ، بھارت کی ہے پیاری تاریخ
ہے قابلِ تکریم ہماری تاریخ
افسوس ہے کچھ لو گ ہیں جو زہر یلے
زہریلی کر رہے ہیں ساری تاریخ
مقبول احمد عصری حسیت سے مملو رباعیوں میں کبھی کبھی عام بول چال کے الفاظ استعمال کر کے اس کی اثر آ فرینی کو بڑھا دیتے ہیں ۔ محولہ¿ با لا رباعی میں ”تو“،” گھپلے “ اور ”بازارو “اس کی مثال ہیں ۔ لفظ ”تو“ (واو¿ مجہول کے ساتھ )کو بادی النظر میں متبذل اور بے موقع متصور کیا جا سکتا ہے ، مگر روز مر ہ کے مطابق اس کی معنو یت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ”تو “ حرف تخصیص ہے ۔ عبارت میں تبدیلیِ مقام کی وجہ سے اس کے معنی میں تغیر ہو سکتاہے ۔”تو کیا ہوا !“ اس فقرے میں ”تو “ کے جو معنی سامع سمجھ لیتا ہے ، وہی معنی ”کیا کیا تو ہو رہے ہیں “ کے ”تو “ میں ہر گز نہیں ہے ۔ اس ” تو ‘ ‘ میں طنز بھی ہے ، جھنجھلاہٹ ہے ، مذاق ہے، تمسخر ہے ، پھبتی ہے اور شدت کے ساتھ ہے ۔ اس ”تو ‘ ‘ نے رباعی میں چھپے طنز و مزاح کو عیاں کر دیا ہے۔
انھوں نے اپنی رباعیوں میں اسطوری شخصیات و روایات کے ذریعہ اسطوری فکر کو بھی جگہ دی ہے ۔ یہ اسا طیر ان کے یہاں ہندوستانی ہی ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں یہ اسطوری شخصیات استعارہ بھی ہیں اور علا مت کے طور پر بھی ان کا استعمال کیا گیا ہے ۔
غرض کہ مقبول احمد کا یہ دیوانِ رباعیات اس کے مشمو لہ ¿ مضامین اور فن کے لحاظ سے ایک اہم شعری اثاثہ بن گیا ہے ۔ آج جبکہ سہل پسندی عام ہو چکی ہے ، مقبول احمد نے رباعی جیسی مشکل صنف پر طبع آ زمائی کو تر جیح دی ہے اور رباعیوں کا ایک دیوان اردو قارئین کے سپرد کردیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کو روا نی بخشے ۔ آمین

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا