سلیم انصاری کی تنقیدی بصیرت

0
0

’مطالعے کا سفر‘ کی روشنی میں

محمد دانش غنی
شعبہ اردو ، گوگٹے جوگلے کر کالج ، رتناگری

سلیم انصاری کا تعلق ۰۸۹۱ءکے بعد ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی نسل سے ہے ۔ وہ شاعری اور تنقید سے یکساں شغف رکھتے ہیں لیکن ان کی اصل شناخت شاعر کی حیثیت سے مستحکم ہے ۔ ۶۹۹۱ءمیں ” فصلِ آگہی “ کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے جسے سنجیدہ ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ دیکھا گیا ۔
” مطالعے کا سفر “ سلیم انصاری کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً تحریر کیے گئے ہیں اور ان کے ترجیحی مطالعے کا نتیجہ ہے ۔ یہ مضامین ان کی نثری صلاحیتیوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ مختلف موضوعات پر مشتمل یہ مضامین ان کے ادبی ذوق اور ان کے مزاج اور نظریات کو درشاتے ہیں ۔ ان مضامین سے سلیم انصاری کی ادبی شخصیت ایک نئی وضعداری کے ساتھ ہم سے روبرو ہوتی ہے کہ اس میں تجزیاتی عناصر ، تبصراتی شعور ، تحقیقی شوق اور تنقیدی زاوےے اجاگر ہوئے ہیں ۔ ان مضامین میں شاعری اور فکشن پر نظری مباحث شامل ہیں ۔ زبان کی روانی جذبات و خیالات کا ساتھ دیتے ہوئے قاری کو بڑی آسانی سے اس کی منزل تک پہنچا دیتی ہے ۔سلیم انصاری ویسے تو ایک شاعر ہیں لیکن انھوں نے جو نثر لکھی ہے وہ انھیں ایک اچھا نثر نگار ثابت کرتی ہے ۔
سلیم انصاری کے مضامین معروضی مطالعہ کی عمدہ مثال ہےں ۔ وہ اپنے معروض کی خصوصیات اس کے کلام سے اخذ کرتے ہیں ۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ فن پارے کے صحیح خدوخال نمایاں ہوسکیں اور ہر فنکار کے بارے میں ان کا ایک واضح نقطہ¿ نظر ہے ۔ مثال کے طور پر مختلف مضامین سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جو انھوں نے اپنے ہم عصر تخلیق کاروں کی نگارشارت پر تحریر کیے ہیں ۔غضنفر کے بارے میں لکھتے ہیں :
” عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی افسانہ نگار جب شاعری کرتا ہے تو اس کی نثر اور نظم کے ڈکشن میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا مگر یہ مفروضہ یا کلیہ غضنفر کی شاعری کے حوالے سے سچ ثابت نہیں ہوا ۔ ان کے یہاں نثر اور نظم کی لفظیات میں نہ صرف واضح فرق ہے بلکہ لفظوں کو برتنے کی ہنر مندی بھی ان دونوں شعبوں میں مختلف اور منفرد ہے ۔ “
( غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ ، صفحہ نمبر ۱۱۱ )
خالد جمال ، سلیم انصاری کے ہم عصر ہیں اور ایک عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں ۔ ان کا اولین شعری مجموعہ ’ ’ شریکِ حرف “ منظرِ عام پر آیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ مجموعے کی اشاعت میں تاخیر ہوئی ۔ سلیم انصاری نے اس پر بڑے پتے کی بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
” انھوں ( خالد جمال ) نے اپنے شعری مجموعے کی اشاعت میں جلد بازی نہیں کی یعنی غیر شعوری طور پر اپنے تخلیقی وجدان کو اپنے جذب و احساس سے ہم آہنگ ہونے اور اپنی فکر کو فطری طور پرتخلیقی عمل سے گزرنے کے مواقع فراہم کیے ۔ “
( خالد جمال کی شاعری کا فکری اور تخلیقی نظام ، صفحہ نمبر ۸۱۱ )
خوشبیر سنگھ شاد کی شاعری کے متعلق رقمطراز ہیں :
” خوشبیر سنگھ شاد کی شاعری میں فکری سطح پر سہل پسندی سے انحراف کا رویہ ملتا ہے مگر اظہار کے لیے انہوں نے جو ڈکشن استعمال کیاہے وہ سادہ اور شگفتہ ہے ۔ ان کے یہاں تو شعر میں تہہ داری اور گہری معنویت کے لئے جو عوامل کار فرما ہیں وہ ان کے استعاراتی نظام سے فراہم ہوتے ہیں ۔ “
( زندگی سے مکالمہ کرنے والا شاعر : خوشبیر سنگھ شاد ، صفحہ نمبر ۸۲۱ )
کبیر اجمل سے میرا تعارف ماہنامہ آج کل نئی دہلی ، ستمبر ۸۱۰۲ءکے شمارے میں چھپی ان کی ایک غزل سے ہوا جس کا مطلع تھا
جہاں بے نور منظر آبِ جو کا رقص میں ہے

وہیں کی خاک میں جذبہ نمو کا رقص میں ہے
اس غزل پر میں نے اپنے تاثرات مدیر آج کل نئی دہلی کو لکھ بھیجے تھے اورانہوں نے نومبر ۸۱۰۲ءکے شمارے میں میرے وہ تاثرات شائع بھی کر دےے تھے ۔ میں نے لکھا تھا کہ ” آبِ جو کا رقص کرتا ہوا منظر بے نور کیسے ہوسکتا ہے ۔ کیا یہ آبِ جو صرف اندھیرے میں رقص کرتی ہیں ، اجالے میں یہ رقص نہیں کرتیں اور جذبے کا استعمال ذی روح اور انسان کے ساتھ مخصوص ہے ۔ آبِ جو بے جان ہے اس میں جذبہ کیسے پیدا ہوسکتا ہے ۔ دوسرے شعروں کا بھی یہی حال ہے ۔ ان کا مقطع دیکھئے
میرے اطراف اب بھی اک عذابِ جانکنی ہے

مگر اجمل پرندہ آرزو کا رقص میں ہے
عذابِ جانکنی جسم سے باہر نہیں ہوتا اس لیے اطراف کہنا صحیح نہیں ہے ۔ شعر یوں کہہ سکتے تھے
عذابِ جانکنی ہے ، میں گرفتارِ بلا ہوں

مگر اجمل پرندہ آرزو کا رقص میں ہے
کبیر اجمل کی اس غزل کے بیشتر مصرعے مہمل ہیں ۔ “ یہ میرے اپنے تاثرات تھے لیکن سلیم انصاری کی رائے ملاحظہ کیجئے جو میری رائے سے مختلف نہیں ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ میری اور سلیم انصاری کی رائے میں صرف لفظوں کا ہیرپھیر ہے اور کچھ نہیں ۔ دیکھئے :
” ان ( کبیر اجمل ) کے یہاں داخلی فکر کا سیال تیز بہاﺅ کے ساتھ آتا ہے اور بہت شدید ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اظہار کے مروجہ اصولوں سے بغاوت ، انحراف اور توڑ پھوڑ کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ ان کی شاعری میں مشکل زمینیں اور فارسی تراکیب اور مرب اضافتِ لفظی کے سہارے ہی اتنے شدید فکری سیلاب کو باندھا جاسکتا ہے ۔ “
( کبیر اجمل : خوشگوار حیرتوں کا شاعر ، صفحہ نمبر ۰۴۱ )
اسی لیے میں نے کہا کہ ان کے بیشتر مصرعے مہمل ہیں ۔ یہاں میں نے صاف صاف کہہ دیا جب کہ سلیم انصاری نے رعایت لفظی سے کام لیا ہے اور کبیر اجمل کو حیرتوں کاشاعر کہنے کے ساتھ ساتھ خوشگوار کا لاحقہ بھی جوڑ دیا ہے کہ کہیں شاعر کو برا نہ لگے ۔ اس کے علاوہ شہناز نبی ، عطا عابدی ، جاوید ندیم اور سنجے مشرا شوق کے تعلق سے سلیم انصاری نے بڑی ہی خلوص اور محبت سے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کھل کر داد دی ہے اور اگر کسی میں کچھ کمی پاتے ہیں تو بے لاگ رائے دینے سے بھی پیچھے نہیں رہتے ۔
سلیم انصاری نے غالب اور اقبال کے حوالے سے بھی دو مضامین ” مطالعے کا سفر “ میں شامل کیے ہےں ۔ غالب اور اقبال اردو شاعری کے دو نہایت مضبوط ستون ہیں ۔ ان عظیم المرتبت فنکاروں نے اردو شاعری کی حصار میں بڑی کشادگی پیدا کی اور زندگی کو کئی زاویوں سے دیکھا اور دکھایا ہے ۔ ان کے یہاں داخلیت کے توانا عناصر موجود ہیں ۔ وہ بندھے ٹکے مضامین اور مشترکہ اور کثیر الاستعمال استعارات کے باوصف اردو شاعری کو تخلیقی حرارت سے تابندہ کررہے تھے ۔ اردو شاعری کے متیعن آداب ، مخصوص زبان اور مخصوص استعاروں کے ہجوم میں رہ کر بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کے نقوش واضح کئے ۔ غالب کے بعد اقبال اردو شاعری کی ایک تاریخ ساز اور انقلاب آفریں آواز تھی جس کی گونج بعد کے اہم ترین شعراءتک کی شاعری میں سنائی دیتی ہے ۔ ان شعراءنے اردو شاعری کے دائرہ کو توڑا تو نہیں لیکن اس میں ایک منفرد کشادگی اور عمق ضرور پیدا کیا جو ان کے مخصوص و ممتاز اسلوب کی مضبوط دلیل ہے ۔ چنانچہ غالب کے بارے میں سلیم انصاری لکھتے ہیں :
” غالب ایک کامیاب مصورِ جذبات ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے فکری رجحانات ٹھوس سے مجرد کی طرف ہے ۔ ان کے ذہنی رجحانات مادی زندگی اور اس کی سرشاریوں سے کتنے بھی قریب کیوں نہ ہوں وہ اپنی فنی اور فکری سطح پر مادے سے تجریدی کیفیتوں کی طرف مائل بہ پرواز نظر آتے ہیں ۔ “
( غالب کی شاعری میں امیجری کی تلاش ، صفحہ نمبر ۹۱ )
غالب کا مخصوص استعاراتی اسلوب رفتہ رفتہ اردو شاعری کا معیار و شناخت نامہ قرار پایا جسے اقبال نے ایک نئی شان اور قوت عطا کی ۔ اقبال کی شاعری کے متعلق سلیم انصاری فرماتے ہیں :
” اقبال کی شاعری کے کسی بھی دور کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی مٹی کی خوشبو سے کسی نہ کسی سطح پر ان کی ذہنی وابستگی قائم رہتی ہے اور یوروپ سے لوٹنے کے بعد اقبال کے یہاں قومیت اور وطنیت کا تصور جغرافیائی قید و بند سے نکل کر آفاقیت کے مدار میں داخل ہوگیا ہے ۔ “
( اقبال کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر ، صفحہ نمبر ۳۱ )
اقبال نے ترانہ¿ ہندی ، ہمالہ ، ہندوستانی بچوں کا گیت ، نیا شوالہ جیسی نظمیں لکھ کر ہندوستانی تہذیب و تمدن کی عظیم روایتوں اور وراثتوں کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ انھیں ایک وقار بھی عطا کیا ۔
اکیسویں صدی میں اردو فکشن کے حوالے سے کچھ نمائندہ فکشن نگار سامنے آئے ہیں اور سلام بن رزاق نے پونے کے ایک سمینار میں بلا تامل کہا تھا کہ یہ صدی فکشن کی صدی ہے ۔ لہذا سلیم انصاری نے بھی اپنے ترجیحی مطالعے کی بنیاد پر نور الحسنین کا ناول ” ایوانوں کے خوابیدہ چراغ “ ، شموئل احمد کا ناول ” گرداب “ اور مشرف عالم ذوقی کا ناول ” لے سانس بھی آہستہ “ پر اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار مختلف مضامین کی شکل میں کیا ہے ۔ اسی طرح ” سڑک جارہی ہے “ کے حوالے سے وحشی سعید کے افسانوں میں زندگی کی تلاش اور ” روشنی کی بشارت “ کے ذریعے حیدر قریشی کے افسانوں کی حقیقت کو واضح کیا ہے جو اردو فکشن کے قارئین کے لیے توجہ طلب ہیں ۔ ظفر گورکھپوری ، ستیہ پال آنند ، کرشن کمار طور اور نذیر فتح پوری کی شاعری پر لکھے گئے مضامین سلیم انصاری کی عقیدت اور محبت کا بین ثبوت ہے ۔
سلیم انصاری نے اپنی کتاب ” مطالعے کا سفر “ میں ” مابعد جدید نظم : ایک ناتمام جائزہ “ اور ” ۰۸۹۱ءکے بعد کی شاعری کے تخلیقی خدو خال “ کے عنوان سے بھی دو مضامین شامل کیے ہیں جو خالص تحقیقی نوعیت کے ہیں اور شاید بڑی محنت سے لکھے گئے ہیں ۔ ان مضامین کے مطالعے سے مابعد جدید نسل کے کچھ اہم شعراءکی غزلوں اور نظموں کی سمت و رفتار اور امکانات کا اندازہ ہوتا ہے ۔ سلیم انصاری نے ایک مضمون محترم نذیر فتح پوری کی مرتب کردہ کتاب ” میخانہ¿ اردو کا پیرِ مغاں “ پر بھی لکھا ہے جو نارنگ ساقی کے فن اور شخصیت کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ مضمون بھی عمدہ ہے لیکن اس میں سلیم انصاری کا اسلوب اور اندازِ نگارش کا حسن دیگر مضامین سے نسبتاً کم ہے ۔
ایک مخصوص متن کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیاتی مطالعہ عملی تنقید کہلاتا ہے اور اسی مخصوص متن کو کسی مروجہ تنقیدی اصول و ضوابط کی کسوٹی پر پرکھنانظری تنقید کہلاتا ہے ۔ سلیم انصاری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں عملی اور نظری تنقید ساتھ ساتھ چلتی ہے جس کی بہترین مثال کبیر اجمل کی شاعری پر لکھا ہوا مضمون ہے۔وہ چاہے لاکھ یہ کہتے رہےں کہ
”مجھے نہیں معلوم کہ اس کتاب میں شامل میرے مضامین مروجہ تنقیدی اصول و ضوابط کی کسوٹی پر کس قدر کھرے اترتے ہیں مگر یہ اطمینان ضرور ہے کہ میں نے ان مضامین میں کتابوں کے حقیقی مطالعے کے بعد ہی اپنے تاثرات اور ردِ عمل کا اظہار کیا ہے ۔ “ ( کچھ اپنے بارے میں ، صفحہ نمبر ۷ )
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عملی تنقید کے دوران وہ نظری تنقید کو نظر انداز نہیں کرتے ۔
مجموعی طور پر ” مطالعے کا سفر “ سے سلیم انصاری کے تنقیدی مزاج اور نظریات سے شناسائی ہوتی ہے ۔ ان کے یہاں اپنے نظریات پر اصرار ہے لیکن وہ کشادگیِ فکر و نظر بھی ہے جو ایک بڑے ناقد کو عظیم فنی کارناموں کے لیے نئے اصول وضع کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ سلیم انصاری کی تنقیدی بصیرت کے اس پہلو کو نگاہ میں رکھے بغیر ان کے تنقیدی مزاج اور نظریات کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاسکتا ۔
mmmm
ڈاکٹر محمد دانش غنی
Dr. Mohd. Danish Gani
Dept. of Urdu
Gogate Jogalekar College
Ratnagiri – 415 612
Mobile No. 9372760471

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا