قیصر محمود عراقی
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اذیت دینے سے منع فرمایا ہے ، نبی کریمﷺنے بھی بیت اللہ شریف کے سامنے کھڑے ہوکر فرمایا: ’’مسلمانو!تم کتنی بڑی شان ہوالے ہو اور کتنے خوشبودار ہو اور کتنی عظمت والے ہو، لیکن سن لو ایک مسلمان کی عزت وآبروتم سے بڑھ کر ہے‘‘۔لیکن آج ہمارے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ رشتے کرانے والا بچولیا یا رشتے کرانے والی مشاطہ لڑکی والوں کے گھر میں ہر دفع لڑکے والوکے نئے نئے رشتے لیکر جاتے ہیں، جو ہر دفع ناپسند ہوجاتی ہے، پھر کسی نئی پارٹی اور پھر کسی اور فیملی کو لیکر جایا جاتا ہے، دونوں طرف سے یہ لوگ پیسے بٹورتے رہتے ہیں پھر بھی لڑکی ناپسند ہوجاتا ہے۔ اب مجھے بتائیں اس بیٹی کا آخر کیا ہوگا؟ جو لڑکے والے پانچ چھ مرد خواتین کو لیکر لڑکی والے کے گھر جاتے ہیں اور کبھی کبھی ساتھ لڑکے کو بھی لے جاتے ہیں، بہانہ یہ بتاتے ہیںکہ آج ڈرائیور چھٹی پر ہے اس لئے لڑکے کو ساتھ میں لائیں ہیں۔ خواتین کے ساتھ مرد بھی لڑکی کو پسند کرتے ہیںاور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر لڑکی کو دیکھتے ہیں، پسند آجائے تو لڑکی کا فون نمبر لڑکے کو دے دیتے ہیں، پھر لڑکا ہمدرد بن کر لڑکی سے گھر کی ساری معلومات قبل از وقت حاصل کرلیتا ہے، اس طریقہ سے ہونے والے سسرال کو جہیز کیلئے تنگ کیا جاتا ہے اور جب جہیز کی بات نہ بنے تو رشتہ چھوڑ کر نئے رشتہ کی تلاش شروع کردی جاتی ہے۔ مشاطہ مرد ہو یا عورت دونوں لڑکے والوں سے پیسے لیتے ہیں اور لڑکی والوں سے بھی پیسے بٹورتے ہیں ، حالانکہ رشتہ کرانے والے یا کرانے والی کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ جس گھر میں لڑکے والے کو لیکر جارہے ہیںیہ رشتہ پسند نہیں آئیگا پھر بھی اپنے آمدورفت اور کھانے پینے کے خرچے کیلئے ان کے گھر لیکر جارہے ہوتے ہیں۔ اکثر بچولے یا بچولی شہر کے امیر لوگوں کی رشتوں کی باتیں کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ میں فلاں صاحب کے بیٹے کا رشتہ کرارہا ہوں، میں شہر کے لیڈر صاحب کے بیٹے کا رشتہ کروارہا ہوں، رشتہ کرانے والے اخبارات میں اشتہارات بھی دیتے ہیں کہ لڑکی کیلئے ڈاکٹر ، انجینئر ، بزنس مین اور صنعت کاروں کے رشتہ کیلئے رابطہ کریں، کہیں کوئی باجی ، کوئی قاری، کوئی میجر اور کوئی علامہ صاحب یہ کام بخوشی انجام دے رہے ہیں۔
قارئین محترم !کیا اللہ ہمیں اجازت دیتا ہے کہ لڑکی غیر محرم سے موبائل فون پر شادی سے پہلے باتیں کریں، جب لڑکا لڑکی کو پسند کرے تو لڑکا لڑکی کی جان نہیں چھوڑتا تو پھر ماں باپ مجبور ہوکر شادی کیلئے تیارہوجاتے ہیں یوں پھر ساری زندگی عذاب میں گذرتی ہے، بے جوڑ رشتہ ہوجائے اور بچے بھی پیداہوجائیں تو طلاق تک نوبت آجاتی ہے، عورت بچے نہیں چھوڑتی تو مجبوراً ماں باپ کو بیٹی کے ساتھ بچوں کو بھی پالنا پڑتا ہے، اس طرح لڑکی کی ساری زندگی روروکر گذرتی جاتی ہے، حالانکہ ماں باپ کو چاہئے کہ جب اچھا رشتہ آجائے ، چاہے لڑکی کا ہویا لڑکے کا ، اپنے خاندان والوں کے مشورے سے اللہ کی سپرد کردینا چاہئے، اس سلسلہ میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ جلدی کا کام شیطان کا اور آہستہ کام رحمان کا۔ لہذا اچھی چھان پھٹک ضروری ہے۔ ہم جب بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کرتے ہیں تو خاندان والوں کو نہیں بتاتے جس کی وجہ سے لڑکے یا لڑکی کی معلومات نہیں ملتیں، لڑکا کام کرتا ہے یا ہڈحرام ہے ؟ اورلڑکی گھریلو کام کاج سے واقف ہے یا نہیں۔ آپ کسی بھی ملک میں جائیں چین، جرمنی، فرانس یا کسی اور عرب ملک میں جہیز کا سارا انتظام لڑکے کے ذمہ ہوتا ہے، بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کبھی بھی اپنی بیٹی کو غیر لوگوں کے سامنے نہ لانا ،ان کے رہتے ہوئے صرف خواتین کو لڑکی دیکھنے کی اجازت ہوتی،ہمارے معاشرے میں لوگ لڑکی لرکے کو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتے بلکہ اسے معیوب سمجھتے ہیں جبکہ شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور تبادلۂ خیال بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ خاندانی لوگ بھی ہیں جو دیکھتے ہیں کہ لڑکا اچھی تعلیم حاصل کررہا ہے اور سفید پوش ہے تو شادی کردی جاتی ہے اور اس کو مکان لیکر بھی دے دیتے ہیں، جو کہ قابل تعریف کام ہے، اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں چند ایسے بھی لوگ ہیں جو غریب کی بیٹی سے اپنے بیٹے کی شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتے ، بلکہ اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ لڑکی حسین ہے سمجھدار بھی ہے اور مالدار بھی ہے تو لڑکے والے ایسی لڑکی والوں کو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا گھرداماد بھی رہنے کو تیار ہے اور یہ آپ کی خدمت بھی کریگا ۔
اس سلسلے میں میںآپ قارئین کو بتاتا چلو کہ ہمارے ایک ملنے والے تھے ، ان کی ایک بیٹی ڈاکٹر تھی ، مشاطہ نے رشتہ کرادیایہ کہہ کر کہ لڑکے کا دبئی میں بہت بڑا اسٹور ہے۔ میرے ملنے والے کا ایک ساتھی دبئی میں رہتا تھا، اس نے اپنے اس ساتھی کو کہا کہ اس نام کا ایک لڑکا ہے اس کا جنرل اسٹور ہے اس کا پتا کریں۔ جب پتا کیا گیا تو معلوم یہ ہوا کہ وہ وہاں صفائی کا کام کرتا تھا، ڈگری بھی جعلی تھی اور گاڑی بھی کرایہ پر رکھی ہوئی تھی۔ کیا رشتہ کرانے والوں کو رب کی بارگاہ میں پیش نہیں ہونا انہیں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا۔ آج جہاں رشتہ کرانے والوں کے ذریعہ کچھ گھر بس جاتے ہیں تو وہاں کچھ گھر اجڑبھی جاتے ہیں، ان کی وجہ سے طلاق کے جھگڑے ، قتل وغارت ، عدالت میں ہزاروں کیس چل رہے ہیں، عورت بچے نہیں چھوڑتی اور اگر بچے نہ چھوڑے تو مرد کبھی شادی نہیں کریگا، وہ بچوں کی مصیبت پالے گا یا دوسری شادی کریگا۔ پہلے زمانے جب بارات جاتی تھی تو بزرگ دعائیں کرتے یا اللہ ہماری بیٹی بیٹے کو خوشیاں نصیب عطا کر اب کیا کرتے ہیں بیٹی ہو یا بیٹا آتش بازی ، ڈانس کی محفل ، تیل مہندی پر ناچ گانے کی محفل سجائی جاتی ہے۔ بزرگ کہتے تھے جس نے بیٹی دے دی اس نے سب کچھ دے دیا، لیکن اب ایسا نہیں ہے، اب تو گھر بھر کر دینا پڑتا ہے تب بیٹیوں کی ڈولیاں اٹھتی ہیں۔ ایک زمانہ تھاشادی بیاہ کے موقع پر لوگ آتے تھے تو وہی محفل میں لڑکی یا لڑکے کو گھر کے والدین پسند کرلیتے اور پھر رشتہ ہوجاتا لیکن اب تو ہر ایک محلے میں کم از کم دس سے بارہ مشاطہ ہوگئے ہیںجو دونوں ہاتھوں سے لڑکے والوں اور لڑکی والوں کو لوٹ رہے ہیں ، حد تو تب ہوتی ہے کہ جب دو گھروں کے مابین ایک دوسرے کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھ کر رشتہ کرواتے ہیں، رشتہ تو ہوجاتا ہے ان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں دو زندگیوں کے بیچ اور دو گھرانوں کے درمیان میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ مشاطہ کے ذریعہ رشتہ ضرور کروائیں مگر خود بھی چھان بین کریں، صرف مشاطہ پر اکتفا کرلینا کافی نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ نقصان اٹھا نا پڑتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر لڑکی کو نیک لڑکا اور ہر لڑکا کو نیک سیرت لڑکی عطا کرے تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار ہو۔
موبائل:6291697668