ذکر جاوداں

0
191

مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی

ڈاکٹر مولانا عبد المجید ندوی موضع سمری، مہگاواں ضلع گڈا، جھارکھنڈ نے بھاگلپور، بانکا، اور گڈا کی تاریخی، جغرافیائی، علمی، سماجی اور معاشی معلومات پر مشتمل ایک معیاری کتاب مرتب کی ہے، انہوں نے ا عیان وطن کے احوال وکوائف تعلیمی ادارے اور انجمنوں کی خدمات، ترقیات، موجودہ حالات اور زبوں حالی کی ڈھلان پر تیز رفتاری سے گامزن اداروں، ان کے اسباب وعلل کا بھر پور تجزیہ اس کتاب میں پیش کیا ہے، جن حوالہ جاتی کتب سے استفادہ کیا ہے، ان میں سے بیش تر اس موضوع سے بلا واسطہ متعلق تو نہیں، لیکن معلومات اس حوالہ سے ان میں بکھری پڑی ہیں، مولانا نے ان کتابوں سے مواد اخذ کیا اور کہنا چاہیے کہ چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کرکے ایک تحقیقی کتاب کو وجود بخشا، مولانا تعلیمی اعتبار سے ندوی ہیں مضمون نگاری اور تحقیق کا فن انہوں نے مولانا واضح رشید ندوی سے سیکھا ہے، اس لیے ان کی تحقیقات عصری یونیورسٹی میں پیش کی گئی تحقیقات سے فزوں تر ہیں، اس کتاب میں تاریخ بھی ہے اور تحقیق بھی، بدلتے حالات پر تنقید اور انحطاط کے دور کرنے کے طریقے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، ایسے بھی ندویوں کے بارے میں ’’زباں ہوش مند‘‘ کی بات کہی جاتی رہی ہے۔ اس علاقہ کی علمی تاریخ کا ذکربہار کے سابق گورنر آر آر دیوا کر نے اپنی انگریزی کتاب ’’بہار تھرو دی ایجز‘‘ میں مولانا شہباز بھاگلپوری ، خانقاہ شہبازیہ اور وہاں کے مدرسہ کے حوالہ سے لکھا ہے، پروفیسر عبد الغفار صدیقی کی کتاب مولانا شہباز بھاگلپوری، (جو ان کا تحقیقی مقالہ ہے) میں ان کے احوال وآثار کے ضمن میں بھاگلپور کا ذکر بھی ہے، فصیح الدین بلخی کی تاریخ مگدھ میں بھی بہت سی باتیں مل جاتی ہیں، لوگ تاریخ مگدھ کو ایک خاص علاقہ کی تاریخ سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ پورے بہار کی تاریخ ہے، خانقاہ پیر دمڑیا، خلیفہ باغ کے بزرگوں پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، اور جو بادشاہوں کی طرف سے جاگیروں کے وثیقے اور دستاویزات ہیں ان میں بھی علاقہ کا ذکر ہے اور جن حضرات کے نام یہ وثیقے ہیں ان کو پڑھ کر بہت سے نام سے واقفیت ہو سکتی ہے، بانکا بھاگلپور کا ہی حصہ رہاہے، اس لیے الگ سے اس کے بارے میں کیا لکھوں، ڈاکٹر ارشد جمیل کی تاریخ کوروڈیہہ بھی خاصے کی چیز ہے، یہ صحیح ہے کہ جس طرح اس کتاب میں پوری توجہ شیخ صدیقی برادری پر رہی ہے اسی طرح تاریخ کوروڈیہہ میں بھی شیوخ برادری ہی کا ہی تذکرہ ہے، میرے نزدیک برادرانہ عصبیت شریعت مطہرہ کے خلاف ہے، جن لوگوں نے بھی اس علاقہ میں کام کیا، نام کمایا، وہ سب ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں اور ان کا ذکر خیر ہونا چاہیے، کرنا چاہیے، یوں بھی تاریخی آثار اور تہذیبی اقدار علاقوں کی مشترک ہوا کرتی ہیں، ان کی سرحدی تقسیم نہیں کی جا سکتی۔بعد کے دور میں اس علاقہ کی تاریخ کو سامنے لانے کا کام مولانا ثمیر الدین قاسمی حال مقیم مانچیسٹر نے کیاہے، ان کی کتاب ’’یاد وطن‘‘ میں اچھا خاصہ مواد موجود ہے، مولانا ابو الکلام آزاد کا لج بسنت رائے کے زیر اہتمام علاقہ کی اہم شخصیات کے کارنامے پر مشتمل ایک مجلہ ۲۲۰۲ء میں شائع کیا گیا تھا، اس میں بھی بعض شخصیات پر اچھی تفصیلات آگئی ہیں، اس سے بھی ماخذ کا کام لیا جا سکتا ہے، مولانا ثمیر الدین قاسمی نے اس کتاب پر مقدمہ لکھ کر اس کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ کیا ہے جو خود ایک تحقیقی مقالہ کے قائم مقام ہے۔مولانا عبد المجید نے اس کتاب میں رفتگاں کے ساتھ قائماں کا بھی ذکر کیا ہے، بعض پر مضمون لکھا ہے اور بعض کی اجمالی فہرست دی ہے، ان زندہ لوگوں میں مولانا سہیل اختر نائب قاضی دار القضاء امارت شرعیہ کا ذکر بھول سے رہ گیا ہے، مولانا گورگاواں، علاقہ کے امام عیدین ہیں، علمی وعملی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور علاقہ میں ان کی ایک پہچان بھی ہے، ایک مولانا عبد القادر فیض ہیں، تصوف کے حوالہ سے ان کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے، وہ خاندانی پیرہیں، ان دنوں بنگال کے کسی علاقہ میں فروکش ہیں، اور اس اعتبار سے پیروں میں ممتاز ہیں کہ بہت بولتے ہیں، ان کے مریدوں کا ایک حلقہ ہے۔مولانا نثار احمد کیفی سے میری ملاقات قدیم رہی ہے، اللہ نے ان سے بڑا کام لیا، ان کے تذکرہ میں صدر جمہوریہ کے ذریعہ تعلیم کے میدان میں قابل قدر خدمات کے لیے ایوارڈ ملنے کا تذکرہ نہیں ہے، دو چھوٹے ایوارڈ کا ذکر ضرور ہے، لیکن یہ درج ہونے سے رہ گیا ہے، یہ ایوارڈ ہر سال مرکزی حکومت کی جانب سے صدر جمہوریہ کے ہاتھوں دیا جاتا ہے۔
انسانی کاموں میں اس قسم کی چوک ہوجایا کرتی ہے، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن واحادیث پاک کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہو، مولانا نے اس کتاب میں جو تحقیقات پیش کی ہیں، وہ لائق تعریف ہیں، آئندہ جب کوئی اس موضوع پر کام کرنا چاہے گا، تو اسے وہ پتّہ ماری نہیں کرنی ہوگی جو مولانا عبد المجید ندوی کو کرنی پڑی ہے، پہاڑ کاٹ کر جو لوگ زینہ نکالنے کا کام کرتے ہیں، انہیں یقین ہوتا ہے کہ میری زندگی میں تمام زینے نہیں بن سکیں گے، لیکن یہ اطمینان رہتا ہے کہ آنے والی نسل کو نیچے سے نہیں کاٹنا پڑے گا، آنے والا مؤرخ جب اس علاقہ کی کوئی تاریخ مرتب کرنا چاہے گا تو وہ مولانا کی تحقیق سے بے پرواہ ہو کر نہیں کذر سکے گا۔ میں اس اہم کتاب کی تصنیف پر مولانا عبد المجید ندوی کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے لیے ترقی درجات اور علم وتحقیق کے میدان میں اور آگے بڑھنے کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آمین۔
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا