ذہنی طور پر معذور بیوی کے علاج کی ذمہ داری اٹھاتا ایک غریب مزدورکا درد

0
164

تسنیم کوثر
پونچھ، جموں

’’ممتاز کی عمر ابھی تین برس ہے ،یاسمین چار برس کی ہے،امتیاز اور نیاز پانچ اور سات برس کے ہیں۔ میں اپنے بچوںسے بے حد محبت کرتا ہوں ۔اس لئے ماں بن کران کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔حالانکہ ان کی والدہ بھی سلامت ہیں لیکن بچوں کو ماں کی مامتا نہیں مل سکی۔دن بھر بچے اپنی ماں کے سامنے مٹی میں کھیلتے ہیں ،سردی کا سامنا کرتے ہیں لیکن ان کی والدہ ان کی دیکھ بھال کرنے سے شائد کسی حد تک مجبور ہے۔وہ زندہ تو ہے، لیکن ایک ماں کا فرض نھانے سے قاصر ہے۔اسی لئے میں ہی ان بچوں کا باپ ہوں اور میں ہی ماں ہوں۔‘‘ تین برس کے ممتاز کو گود میں لئے غلام محمد ایک بار پھر سے بچوں کو سنبھالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں صبح سویرے گھر کے کام کاج انجام دینے کے بعد محنت مزدوری کرنے کے لئے نکل جاتا ہوں۔پورے دن بچے بے سہارہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔مجھے ان کی فکر لگی رہتی ہے، لیکن اگر مزدوری کرنے نہیں جائونگا تو بچوں کا پیٹ کیسے بھرونگا؟‘‘
جموں وکشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے گائوں درہ دلیاں کے رہائشی غلام محمد کی عمرچالیس برس ہے ۔جہاں وہ اپنے کچے مکان میں اپنی بیوی پروین اختراور چار بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔قریباً سولہ برس قبل پروین اختر سے ان کی شادی ہوئی تھی۔شادی کے کافی عرصہ تک ان کی کوئی اولادنہیں ہوئی۔پھر جب ان کے گھر ایک بیٹی نے جنم لیا تو ان کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ لیکن یہ خوشی زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی۔غلام محمد بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد اچانک ان بیٹی کا انتقال ہو گیا۔ جس کا صدمہ پروین برداشت نہ کر سکی اور وہ اپنادماغی توازن کھو بیٹھی۔ حالانکہ اس کے بعد چار بچے ہوئے لیکن پروین اختر آج تک اس صدمہ سے ابھر نہیں پائی۔ دماغی توازن ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے باقی بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے آج بھی قاصر ہے ۔
غلام محمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنی شریک حیات کے علاج و معالجہ میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے علاج کروایا۔جس میں اب تک بارہ لاکھ روپئے خرچ ہو چکے ہیں۔ لیکن کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔اس کے علاج کے لئے انہیں حکومت یا انتظامہ سے اب تک کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کا صدمہ ہے کہ اتنی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی مجھے اپنی شریک حیات کی صحت میں کوئی بہتری نہ مل سکی ۔لیکن میں نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری ہے ۔میں آج بھی کوشش میں ہوں کہ وہ پہلے جیسی ہو جائے اور بچوں کی ماں خود ان کی دیکھ بھال کرنے کے قابل ہو جائے۔اس سلسلے میں غلام محمد کی پڑوس میں رہنے والی 35سالہ پروین بی بی بتاتی ہیں کہ’’ غلام محمد کی اہلیہ بالکل صحیح سلامت ہوش و حواص میں تھیں۔ وہ گھر کو بہت بہتر طریقہ سے چلاتی تھی۔میاں بیوی دونوں خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن اپنی بیٹی کے انتقال کے بعد ان کی طبیعت ناساز ہونے لگی جس کی وجہ سے ان کا دماغی توازن بھی ٹھیک نہ رہ سکا ۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیںکہ اپنی پڑوسن کی ناسازگار طبیعت کے چلتے وقتاً فوقتاً میرا ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ میں اکثر ان کے معاملات میں شامل ہوجاتی ہوں۔پروین کہتی ہیںکہ غلام محمد اپنی اہلیہ کی ناساز صحت کے چلتے انہیںکسی قسم کی کوئی کمی نہیں لگنے دیتے اور بچوں کی پرورش بھی خوش اصلوبی سے انجام دیتے ہیں۔افسانہ اور فرزانہ دونوں بہنیںغلام محمد کے پڑوس میںرہتی ہیں ۔دونوں غلام محمد کی غیرموجودگی میںاکثر و بیشتر ان کے بچوں کو اپنے گھر بلالیتی ہیں اور انہیںکھانے پانی کا پوچھتی ہیں ۔وہ ان کے مزدوری پر چلے جانے کے بعدان کے بچوں کا دھیان بھی رکھتی ہیں ۔فرزانہ اور افسانہ کے گھر میں اکثر ان بچوں کو بہلانے کیلئے کچھ مٹھائی وغیرہ رکھی جاتی ہے اور دونوں بہنیں ان چار بے سہارہ نونہالوں کا دھیان رکھتی ہیں ۔وہ بتاتی ہیں کہ غلام محمد کے حالات کو دیکھتے ہوئے تمام پروسی مل کر ان کے بچوںکا دھیان رکھتے ہیں ۔ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ایک اور پڑوسی صادق حسین شاہ نے بتایا کہ غلام محمد اپنی شریک حیات اور بچوں کی خوب دیکھ بھال کرتے ہیں۔ان کی اہلیہ کئی برسوں سے علیل ہیں لہذا وہ ان کے معاملات کا بخوبی دھیان رکھتے ہیں اور بچوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ غلام محمد نے اپنی اہلیہ کے علاج و معالجہ میں کوئی کمی نہیں رکھی ۔ جہاں بھی اسے کسی نے اچھے ڈاکٹر کا پتا بتایا وہ ان کے پاس علاج کے لئے لے گیا۔لیکن ابھی تک کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غلام محمد اپنی علیل شریک حیات سے بحسن خوبی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔وہ اپنے بچوں کا صحیح سے دھیان رکھتے ہیں ،انہیں کھانا بنا کر دیتے ہیں،نہلاتے ہیں اور ان کی زندگی کے ہر معاملے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔وہیں ان کی اہلیہ پروین اختر اپنی علالت کی وجہ سے بچوں کا دھیان نہیں رکھ پاتی کیونکہ ان کا دماغی توازن کسی حد تک ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن دونوں میاں بیوی ہر حال میں جینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔پڑوسی بھی ان کی زندگی کی مثال دیتے ہیں۔غلام محمد نے لاکھوں روپئے اپنی اہلیہ کے علاج پر لگا دئے لیکن نتائج صفر کے برابر ہیں ۔اس کے بر عکس وہ اس امید میں ہیں کہ ان کی شریک حیات ایک دن ٹھیک ہو جائے گی اور اپنے بچو ں کی خود دیکھ بھال کرنے کے قابل ہو جائے گی ۔بہرحال اپنی بیوی کے تیں ایک غریب مزدور غلام محمد کا یہ احساس معاشرے کے لئے بہت بڑی مثال ہے۔
ایک طرف جہاں عورت کو سماج میں معمولی سی تکلیف یا بیماری میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس تکلیف سے اسے اکیلے گزرنی پڑتی ہے وہیںدوسری جانب اسی سماج میںغلام محمد جیسے لوگ بھی ہیں،جو اپنی علیل شریک حیات اور چار بچوں کی پروریش کرتے ہوئے ہر حال میں جینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔قارئین اس وقت ہم ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں اور اس وقت حکومت کی جانب سے آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت پانچ لاکھ روپئے تک کا مفت علاج بھی مل رہا ہے ۔اس ضمن میں اگر انتظامی سطح پر غلام محمد کی مدد کی جائے تو یقینا ان کے دل کا و ہ خواب جس میں وہ اپنی شریک حیات کی تندرستی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ایک دن پورا ہو سکتا ہے۔اسلئے انتظامی سطح پران کی بروقت مدد کی جانی چاہئے تاکہ نہ صرف ان کی بیوی کی صحت ٹھیک ہو جائے بلکہ ان کے چار نونہالوں جو دن بھر بے سہارہ ہو کر مٹی میں کھیلتے ہیں ان کا مستقبل بھی بہتر ہو جائے۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا