اگر چہ اس وقت پولیس انتظامیہ اور عمومی طور پر یوٹی بھر کی انتظامیہ منشیات مخالف جنگ کامیابی سے لڑرہی ہے لیکن اس سلسلے میں عوام کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ انتظامیہ کا ساتھ دیکر اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بچانے میں اہ رول ادا کرے آج ہماری نوجوان نسل ، جس عادت و اطوار کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے۔ جس شوق و لطف اندوزی کو گلے لگائے ہوئے ہے۔ یہاں سے لوٹ کر آنا انتہا ئی مشکل نظر آرہا ہے۔ کسی بھی ملت کا نوجوان ، اس ملت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ یہ نوجوان نسل ملت کے مستقبل ، پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کسی ملک میں ایک طاقتور قوم نوجوانوں پر منحصر ہو تی ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں کو دیکھ اندازا لگائیے اس ملک میں ہم کتنے محفوظ ہیں ؟ اس ملک میں ہمارا مستقبل کیسا ہوگا؟ یونیور سیٹی کالجوں میں پڑھنے والی ہماری نئی نسل کس طرف جا رہی ہے۔ آج ہمارا تعلیمی نوجوان مختلف خوشی کے مواقع پر شراب کو تھامتا ہے۔ وہی ڈرکس ، افیم ، گانجہ ، جیسی نشہ ور اشیاء کو استعمال کر رہا ہے۔ آج یونیورسیٹی ، کالجیس ، فحاشی ، بد کاری ، نشہ خوری ، زنا خوری کے اڈے بن چکے ہے۔ دوسرے طرف روز مزدوری کرنے والے ، کاروباری افراد ، محنت مزدوری کرنے والے نوجوان ، شراب گھٹکا ، تمباکو، سیگریٹ ، بیڑی کو اپنے منہ سے لگائے ہوئے نظر آتے ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ جوا ، کیرم ، لاٹری ، سٹہ ، اوسط درجہ رکھنے والے خاندانوں کو بھی تباہ و برباد کر رہا ہے۔ جونوجوان ، شراب ، جوا ، سٹہ سے بچ جائے وہ نوجوان اپنا قیمتی وقت فیس بک، واٹس اپ، ٹک ٹاک ، پر گزاررہا ہے۔ تعلیمی نوجوان ، پب جی ، آن لائن رمی ، ٹک ٹاک ، فیس بک، واٹس اپ پر، اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہا ہے۔ تاہم ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ جبکہ حال تو یہ ہے وہ والدین جن کو اپنے بچوں کی تربیت پر زور دینا چاہئے تھا ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ آج ہمارا بچہ اپنے شوق پورے نہیں کرے گا تو کب کرے گا ۔ تاہم والدین کی اس عدم توجہی کی وجہ سے نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جس دن ملک کا و قوم کا مستقبل ہر لحاظ سے نکارہ ہو جائے گا تو ہمیں ایک بار پھر غلامی کی طرف دھکیل دے گا ۔