اتحاد ملت اللہ کے لیے

0
206

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
(علامہ اقبال جواب شکوہ)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھا نے میں نہیں چوکتے۔ تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائیہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتیہو ?تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے۔(سورہ۔آل عمران۔آیت۔118)
کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہم راز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں پھنس نہ جانا ورنہ موقعہ پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے تم انہیں اپنا راز دار ہرگز نہ سمجھنا راز کی باتیں ان کے کانوں تک ہرگز نہ پہنچانا بطانہ کہتے ہیں انسان کے راز دار دوست کو اور من دو نکم سے مراد جس خلیفہ کو مقرر کیا اس کیلئے دو بطانہ مقرر کئے ایک تو بھلائی کی بات سمجھانے والا اور اس پر رغبت دینے والا اور دوسرا برائی کی رہبری کرنے والا اور اس پر آمادہ کرنے والا بس اللہ جسے بچائے وہی بچ سکتا ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا محرر اور منشی مقرر کرلیں آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے، اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ انکی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے، ازہر بن راشد کہتے ہیں کہ لوگ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سنتے تھے اگر کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو حضرت حسن بصری سے جا کر مطلب حل کر لیتے تھے ایک دن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ مشرکوں کی آگ سے روشنی طلب نہ کرو اور اپنی انگوٹھی میں عربی نقش نہ کرو انہوں نے آکر حسن بصری سے اس کی تشریح دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پچھلے جملہ کا تو یہ مطلب ہے کہ انگوٹھی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھدواؤ اور پہلے جملہ کا یہ مطلب ہے کہ مشرکوں سے اپنے کاموں میں مشورہ نہ لو، دیکھو کتاب اللہ میں بھی ہے کہ ایمان دارو اپنے سوا دوسروں کو ہمراز نہ بناؤ لیکن حسن بصری کی یہ تشریح قابل غور ہے حدیث کا ٹھیک مطلب غالباً یہ ہے کہ محمد رسول اللہ عربی خط میں اپنی انگوٹھیوں پر نقش نہ کراؤ، چنانچہ اور حدیث میں صاف ممانعت موجود ہے یہ اس لئے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے ساتھ مشابہت نہ ہو اور اول جملے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی بستی کے پاس نہ رہو اس کے پڑوس سے دور رہو ان کے شہروں سے ہجرت کر جاؤ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان کی لڑائی کی آگ کو کیا تم نہیں دیکھتے اور حدیث میں ہے جو مشرکوں سے میل جول کرے یا ان کے ساتھ رہے بسے وہ بھی انہی جیسا ہے پھر فرمایا ان کی باتوں سے بھی ان کی عداوت ٹپک رہی ہے ان کے چہروں سے بھی قیافہ شناس ان کی باطنی خباثتوں کو معلوم کر سکتا ہے پھر جو ان کے دلوں میں تباہ کن شرارتیں ہیں وہ تو تم سے مخفی ہیں لیکن ہم نے تو صاف صاف بیان کر دیا ہے عاقل لوگ ایسے مکاروں کی مکاری میں نہیں آتے پھر فرمایا دیکھو کتنی کمزوری کی بات ہے کہ تم ان سے محبت رکھو اور وہ تمہیں نہ چاہیں، تمہارا ایمان کل کتاب پر ہو اور یہ شک شبہ میں ہی پڑے ہوئے ہیں ان کی کتاب کو تم تو مانو لیکن یہ تمہاری کتاب کا انکار کریں تو چاہئے تو یہ تھا کہ تم خود انہیں کڑی نظروں سے دیکھتے لیکن برخلاف اس کے یہ تمہاری عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ سامنا ہو جائے تو اپنی ایمانداری کی داستان بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب ذرا الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب سے جلن اور حسد سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں پس مسلمانوں کو بھی ان کی ظاہرداری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے یہ چاہے جلتے بھنتے رہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو ترقی دیتا رہے گا مسلمان دن رات ہر حیثیت میں بڑھتے ہی رہیں گے گو وہ مارے غصے کے مر جائیں۔ اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بخوبی واقف ہے ان کے تمام منصوبوں پر خاک پڑے گی یہ اپنی شرارتوں میں کامیاب نہ ہوسکیں گے اپنی چاہت کے خلاف مسلمانوں کی دن دوگنی ترقی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں والی جنت حاصل کرتے دیکھیں گے برخلاف ان کے یہ خود یہاں بھی رسوا ہوں گے اور وہاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے، ان کی شدت عداوت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے کہ جہاں تمہیں کوئی نفع پہنچتا ہے یہ کلیجہ مسوسنے لگے اور اگر (اللہ نہ کرے) تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے لگتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد ہوئی یہ کفار پر غالب آئے انہیں غنیمت کا مال ملا یہ تعداد میں بڑھ گے تو وہ جل بجھے اور اگر مسلمانوں پر تنگی آگئی یا دشمنوں میں گھر گئے تو ان کے ہاں عید منائی جانے لگی۔ اب اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان شریروں کی شرارت اور ان بدبختوں کے مکر سے اگر نجات چاہتے ہو تو صبرو تقویٰ اور توکل کرو اللہ عزوجل خود تمہارے دشمنوں کو گھیر لے گا کسی بھلائی کے حاصل کرنے کسی برائی سے بچنے کی کسی میں طاقت نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہو سکتا جو اس پر توکل کرے اسے وہ کافی ہے۔(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر فیوض الرحمان)
آپ ﷺ نے حج الوداع کے موقع پر تاکید فرمائی تھی۔
’’اے لوگو!تمہارے اموال، تمہاری ناموسیں، تمہارا خون۔۔۔ سب تم پر حرام ہیں ویسے ہی جیساکہ آج یہ مہینے (ذیقعدہ، ذی الحجۃ، محرم الحرام وغیرہ)اور یہ شہر قابل احترام ہیں۔‘‘(ابی داؤد، سلیمان بن اشعث۔ السنن، حدیث:1215، مکتبہ، المصطفیٰ البابی، قاہرہ،مصر)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اے لوگو تمہارا پروردگار ایک ہے تمہارے ماں باپ ایک ہیں تم سب آدم و حوا کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے ہیں تم میں سب سے زیادہ پرہیز کار خدا کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہے اہل عرب کو عجم پرسوائے تقوے کے کو یِ برتری نہیں ہے۔(او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔سیوطی، علاء الدین عبدالرحمن، حافظ۔ جامع الاحادیث، حدیث۔5836،ج 3،ص۔110)
ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے، ہرمسلمان کو اپنے برادرِ دینی کی صورتحال سے آگاہ ہونا چاہیے اور خود کو اس کے درد و رنج میں شریک سمجھنا چاہیے۔
اللہ تعالٰی کی رسّی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا۔ اللہ تعالٰی اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔(سورہ آل عمران۔آیت۔103)
اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے، اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسی کو ’’مضبوط پکڑنے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت’’دین‘‘ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے، اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتاؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے۔اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اسے چھوڑ کر پھر اسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالت سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟(تفہیم القرآن)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔۔۔ایمان والے ایک دوسرے کی بھلائی اور خیرخواہی چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مؤدت سے پیش آتے ہیں اگر چہ ان کے گھر اور جسم ایک دوسرے سے جدا ہی کیوں نہ ہوں لیکن بے ایمان افراد ایک دوسرے کا بُرا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے دور رہتے ہیں اگر چہ ان کے گھر اور جسم ایک ہی ساتھ کیوں نہ ہوں۔(سیوطی، علاء الدین عبدالرحمن، حافظ۔ جامع الاحادیث، حدیث؛23616، ج3، ص۔453۔ علی المتقی، علاؤ الدین۔ کنزالعمال، حدیث 757، طبع، دائرۃ المعارف النظامیہ، حیدر آباد،1312ھ۔اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم)
یوں تو ہم دنیا کہ تقریبا سبھی حصے میں ظلم وستم کا شکار بن رہے ہیں،اور اب چین بھی کئی سالوں سے ہم پر ظلم کر رہاہے۔ایک عرصے تک چینی ظلم وجبر کی خبریں نہیں ملی لیکن اللہ تبارک وتعالی نے ان بے کس، بے بس مسلمان بھائیوں کی آہ وبکاں کودنیا کے سامنے عیاں کردیا کہ مظلوم خون مسلم پکار کر کہ رہا ہے کہ بھائیوں کیا ہم لوگ تمہای دعاؤں سے محروم ہوگئے ہیں؟ میرے بھائیوں مسلکی شدت نے کیا ہمارے غم و اندوہ کی داستان دردوالم کو بھی سن کر دیکھ کر بھی کیاہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ
چین کے شمال مغربی علاقے میں قریب 10 ملین ایغور مسلمان آباد ہیں۔
ایغورنسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ سرکاری طور پر یہاں کے مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔بی بی سی اردو کے رپوٹ کے مطابق اگست میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کی ‘ری ایجوکیشن’ یعنی ازِسر نو تعلیمی پروگرام کے تحت ان کی تربیت کی جا رہی ہے۔(سنکیانگ چین کے انتہائی مغرب میں واقع بڑا صوبہ ہے اور یہ ملک کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ تبت کی طرح یہ ایک خودمختار علاقہ ہے اور چین سے الگ اس کی اپنی حکومت ہے۔ لیکن عملی طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے اس پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ایغور کی آبادی اس علاقے کی مجموعی دو کروڑ 60 لاکھ آبادی کا تقریباً نصف ہے۔اس کی سرحدیں بہت سے ممالک سے ملتی ہیں جن میں انڈیا، افغانستان،پاکستان اور منگولیا شامل ہیں۔)
یہ دعوے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کیا ہے لیکن چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ دریں اثناء سنکیانگ میں رہنے والے افراد کے خلاف جابرانہ نگرانی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے،اور اب چینی صوبے سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کے لیے قائم کردہ حراستی یا چینی حکام کی زبان میں تربیتی کیمپوں کو قانونی شکل دے دی ہے۔دس لاکھ مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں جیسے بند رکھا جا رہا ہے،چین کے بعض سابق قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں کیمپوں میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔کنبے کے کنبے لاپتہ ہوگئے،جو چینی قیدی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے انھوں نے بی بی سی نیوز نائٹ کے پروگرام سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں بتایا۔
مظلوم شخص عمرکی بات۔’وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے، وہ ہمیں گھنٹوں لٹکائے رکھتے اور پیٹتے رہتے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے تھے جبکہ تاروں کو موڑ کر انھوں نے کوڑے بنا رکھے تھے، جسم میں چبھونے کے لیے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لیے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر کبھی بھی استعمال کیا جاتا۔ ہم دوسرے لوگوں کی چیخیں بھی سنتے۔’ایک دوسرے شخص عزت نے بتایا: ‘رات کے کھانے کا وقت تھا۔ تقریباً 1200 افراد ہاتھوں میں پلاسٹ کا خالی کٹورا لیے کھڑ? تھے اور انھیں چین کے حق میں گیت گانا تھا تاکہ انھیں کھانا ملے۔ وہ ربوٹ کی طرح تھے۔ ان کی روحیں مر چکی تھیں۔ ان میں سے بہت سوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا۔ ہم ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے تھے۔ لیکن اب وہ اس طرح کا برتاؤ کر رہے تھے جیسے کسی کار کریش کے بعد ان کی یادداشت جاتی رہی ہو،اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ظالم قیدخانوں کو تربیتی مراکز کے بہترین نام سے مزین کیا جارہا ہے۔چین کے حکمرانوں کے مطابق دس اکتوبر کو کی جانے والی قانونی ترامیم دراصل ملک کے اندر بڑھتے ہوئے انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے ایک ضروری عمل ہے۔ایغور مسلمانوں اور دیگر جگہوں میں موجود مسلمانوں کی بددلی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں اکثریت مسلم آبادی تھی جس کو حکومت نے ایک باقاعدہ پالیسی کے تحت ایسے باشندوں کو آباد کیا جو ہان نسل یا کسی دوسرینسل کے ہے۔ان کی موجودگی کی وجہ سے ان کے نوجوان شراب نوشی،قماربازی،اور بہت سے گناہوں میں ملوث ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو گئے ہیں۔(مجموعی طور پر چین میں ہان نسل کی اکثریت ہے)۔چند پابندیاں لگائی گء ہیں وہ یہ ہیں۔
مسلمان قران اور نماز میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا کو جمع کرائیں۔جب ضرورت پڑے لے جائے پھر جمع کریں۔حکومت جب چاہے یہ اشیاء اپنے پاس جمع کرسکتی ہے۔
مسلمان لمبی داڑھی نہیں رکھ سکتے،مسلم خواتین عوامی جگہوں پر نقاب نہیں پہن سکتی۔
مسلم تہوار خاموشی سے منائے جائے، مسلمان عید الضحی کے موقع پر با آواز بلند تکبیر نہیں کہ سکتے۔
کسی بھی مسلمان کو حکومت جب چاہے گرفتار کرسکتی ہے،جرم بتانا ضروری نہیں ہے۔
ماضی کے 2014 کے رمضان میں مسلمانوں کے روزے رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
پوری دنیا میں مسلم اکثریت والے 57 ممالک، جن میں دنیا بھر میں مسلم آبادی کے لحاظ سے 62 فیصد یعنی تقریباً 1 بلین مسلمان ایشیا میں رہائش پزیر ہیں۔سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا میں 12.7 فیصد، پاکستان میں 11.00 فیصد، بھارت میں 10.9 فیصد اور بنگلہ دیش میں 9.22 فیصد مسلمان آباد ہیں۔تقریباً 20 فیصد مسلمان عرب ممالک میں بستے ہیں۔مشرق وسطی میں غیر عرب ممالک ترکی اور ازبکستان سب سے بڑے مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔ افریقہ میں مصر اور نائجیریا میں کثیر مسلم آبادی موجود ہے۔
(Executive Summary۔ The Future of the Global Muslim Population۔ Pew Research Center۔ اخذ کردہ بتاریخ 22 December 2011۔)
لیکن اس کے باوجود ہم دنیا میں سب سے بڑھ کر مظلوم ہیں،ایک ہولو کاسٹ کا ماتم یہودی ہمیشہ کرتے ہیں۔ایسے لاکھوں ہولوکاسٹ ہم چھیل چکے ہیں۔1984 کے دنگے کا غم سکھ ہمیشہ مناتے ہیں،اور حکومت سے اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔لیکن ہزاروں دنگوں کی خون آلودداستان ہم بھول چکے ہیں، اور سب سے بڑھ کر ستم ظریفی کہ ہم ہی غدار ہیں۔ظالم ہیں۔ہمارے پیشواؤں کی ناسمجھی،دماغ کی فالج پن نے ہمارا بیڑا غرق کردیا ہے۔علماء اور امراء طبقہ حرام و حلال کی تمیز بھول بیٹھا ہے۔(الا ماشاء اللہ)
جابر ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’حرام سے پرورش پانے والا گوشت، جنت میں داخل نہیں ہو گا، اور حرام سے پرورش پانے والا ہر گوشت جہنم کی آگ ہی اس کی زیادہ حق دار ہے۔‘‘ حسن، رواہ احمد و الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان۔
ہمارے ہاتھ ان مظلومین کی دعا کے لیے بھی نہیں اٹھتے جو صرف اس گناہ میں مارے جارہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔جو صرف(معاذاللہ) اتنا کہہ دے کے مکہ مکرمہ یا مدینہ شریف سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔(معاذاللہ)تو ان پر طرح طرح کے انعامات اور دنیاوی مراعات سے انہیں مزین کردیاجائے گا،لیکن واہ رے وہ غیور مسلمان ہرمصیبت کو برداشت کرکے،ہر غم کوسہ کر،ہر پریشانی سے دوچار ہو کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار نہیں چھوڑتے۔ آگ سینوں میں دبی رکھتے ہیں، زندگی مثل بلال حبشی ؓ رکھتے ہیں۔
دینی علوم کی حیثیت کم ہو گئی ہے اور دین محض دیکھاوے کے لیے ہے۔اسکول جاتے وقت بچہ اپنا بستہ پیچھے لگا کر جاتا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرنے کے بعد یہ علم پیچھے رہ جاتا ہے،اور مدرسہ جاتے وقت بچہ اپنا قاعدہ یا قرآن سینے سے لگا کر جاتا ہے
،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ علم مرنے کے بعد آگے بھی ساتھ جاتا ہے۔علمائے کرام اور آئمہ عظام مسلم عوام کے دینی رہ نما ہیں۔ انہیں ان کے درمیان عزت و احترام اور اعتبار حاصل ہے۔ اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ جمعہ کے خطبوں اور دیگر مواقع پر اپنے خطبات کے ذریعے عوام کو اتحاد کی تعلیم دی جائے۔اختلافات سے بچا جائے۔دانشوروں، مصنفین اور اہل قلم حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو دشمن کے تفرقہ انگیز اقدامات سے آگاہ کریں ایسا نہ ہو کہ وہ خود تفرقے اور اختلافات کا سبب بن جائیں۔

اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو لے
یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا