علاقے کے باہر رہنے والوں کی زندگی

0
200

۰۰۰
مشرف شمسی
۰۰۰
میں نیریاست جھارکھنڈ کے دھنباد میں شروعاتی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا۔ دھنباد میں میرے والد صاحب ضلع کلکٹریٹ میں ہیڈ کلرک تھے لیکن والد صاحب واسے پور(ہاں وہی واسے پور جس پر فلم بنی ہے )جیسے مسلم اکثریتی علاقے میں رہنے کے بجائے گجوا تانڈ ،ٹی س? کمپاؤنڈ میں گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔سو گھروں کے اس محلّہ میں مشکل سے بیس گھر مسلمانوں کا ہے۔سبھی مل جْل کر رہا کرتے تھے اور اب بھی رہتے ہیں۔ لیکن دھنباد اب تک فساد سے پاک رہا ھے۔حالانکہ 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے دکانوں کو نزدیک سے لوٹتے اور نذر آتش ہوتے دیکھا تھا۔لیکن ہندو مسلم فساد اس شہر نے کبھی نہیں دیکھا ہے اور اللہ کرے اس سے ہمیشہ پاک رہے۔ہاں فساد ہونے کی سر اسمیگی اور خوف کئی بار محسوس کیا ہے۔
اکثریتی علاقے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ اس سے اچھوتے نہیں ہونگے۔اڈوانی کی رتھ یاترا 1989 میں دھنباد سے بھی گزرا تھا اس وقت جھارکھنڈ نہیں بنا تھا اور بہار میں لالو پرساد یادو کی حکومت تھی۔اڈوانی کی رتھ یاترا مسلم اکثریتی علاقے واسے پور کے سامنے برج سے گزرنے تھے۔رتھ دھنباد پہنچنے کے کئی دن پہلے سے شہر کے پورے ماحول میں تناؤ تھا۔یہاں تک کہ میرے محلّے میں جن اسکولی ساتھیوں کے ساتھ روز کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا وہ بھی تیکھی اور طنزیہ باتیں کرنے لگے تھے۔میں تب سیاست کو اس طرح نہیں سمجھتا تھا جس طرح آج سمجھتا ہوں۔محلّے کے زیادہ تر گھروں کے مسلم عورتیں اور بچّے کو مسلم اکثریتی علاقوں میں رشتیداروں کے یہاں پہنچا دیئے گئے تھے۔کْچھ تو گھر بند کر کے بھی چلے گئے تھے۔محلّے میں جو بچے ہوئے تھے وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہمت باندھے ہوئے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ کسی طرح امن و امان کے ساتھ رتھ دھنباد سے گذر جائے۔اس وقت دھنباد میں افضل امان اللہ جو سید شہاب الدین کے داماد تھے ڈپٹی کمشنر تھے۔وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے ہر ایک ضلع کے کلکٹر اور ڈپٹی کمشنر کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ رتھ یاترا کے دوران کسی بھی شہر میں کچھ بھی ہوا تو اسکے ذمیدار کلکٹر ہونگے۔اڈوانی کو دھنباد میں ہی گرفتار کرنے کا منصوبہ تھا لیکن بعد میں منصوبہ ترک کر دیا گیا اور سمستی پور میں گرفتار کیا گیا تھا۔رتھ یاترا دھنباد آئی اور شانتی کے ساتھ گذر گیا۔لیکن وہ تین دن جس خوف اور سر آسمیگی کے ساتھ ہملوگوں نے گزارا وہ آج بھی یاد ہے۔اکثریتی علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کی حالت یا اْن پر کیا گزرتی ہے مسلم اکثریتی علاقے میں رہنے والے مسلمان نہیں سمجھ پاتے ہیں۔
آپ نیا نگر یا کسی بھی مسلم اکثریتی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں پہلے تو غلط کسی بھی حال میں نہیں کرنا چاہیے اور صحیح بھی ہیں تو کچھ بھی ایسا ویسا کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے۔کیوں کہ مسلم اکثریتی علاقے میں غیر مسلموں کے ساتھ ایک چھوٹا سا واقعہ بڑی شکل لے لیتا ہے اور اس چھوٹے سے واقعہ کی وجہ سے بکھری ھوئی مسلم آبادی کو کس طرح کی پریشانی اور خوف سے گزرنا پڑتا ہے مسلم اکثریتی علاقے میں رہنے والے مسلمان نہیں سمجھ پاتے ہیں۔برادران وطن مسلم علاقے میں بے خوف اپنا کاروبار کرتے ہیں۔22 جنوری کو بھی میرا روڈ کے کء علاقوں سے الگ الگ خبریں آ رہی تھیں اور نیا نگر کے مسلمان دکاندار خوف کی وجہ سے زیادہ تر اپنی دکانیں بند اور کھول رہے تھے لیکن بنیا ،سونار اور ٹھیلے لگانے والے برادران وطن آرام سے نیا نگر میں اپنی دکانیں کھولے ہوئے تھے اور اپنا کاروبار کر رہے تھے۔لیکن نیا نگر سے دور اکثریتی علاقے میں رہنے والے مسلمانوں پر کیا بیت رہی تھی کوئی اْن سے پوچھے۔
آج بھی میں اپنی فیملی کے ساتھ میرا روڈ کے غیر مسلم علاقے میں رہتا ہوں۔حالانکہ میری سوسائٹی مکس سوسائٹی ہے اور تقریباََ ہر مذاھب کے لوگ سوسائٹی میں رہتے ہیں اس کے باوجود سوسائٹی کے مسلمانوں میں ایک انجانا سا خوف نظر آ رہا تھا۔ہر کوئی ایک دوسرے سے نظر چرا رہا تھا۔یہ تو اچھا ھوا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ معاملہ کو بڑھنے نہیں دیا جائے ورنہ جس طرح سے مسلمان ٹریپ میں پھنس گئے تھے اس سے نکلنا مشکل لگ رہا تھا۔لیکن بھارت کے مسلمان اب بھی سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کسی نے کہا ہے کہ فساد ہوتے نہیں کرائے جاتے ہیں۔ہنگامہ اور فساد میں نقصان کس کا ہوتا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔اسلئے وقت سے پہلے وہ سب کچھ ہونا چاہیے جو ہونے کے بعد بھاگ دور کی جاتی ہے۔
میرا روڈ ،ممبئی
9322674787

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا