رام مندر کا افتتاح اور مودی لیلا

0
162

۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
مہا پرش شری رام کی تاریخ کو خود ان کے اندھ بھکتوں نے مشتبہ بنا دیا ہے۔وہ یوں کہ کوئی کہتا ہے رام جی کی تاریخ ایک کروڑ اسی لاکھ سال قدیم ہے۔اس تاریخ کو کوئی خر دماغ انسان ہی قبول کر سکتا ہے۔۔کیونکہ ایک کروڑ اسی لاکھ سال قبل پوری دنیا میں کہیں تہزیب کا نام و نشان نہیں تھا۔لیکن رام کو یہی لوگ راج کمار کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔جسم پر شہزادوں جیسا لباس،سیم و زر لعل و گہر جڑے زیورات،سر پر وہی سیم و زر کے لعل و گہر لگے مکٹ،ہاتھوں میں کامدار تیر دھنش۔یہ تمام ایسی چیزیں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ رام جی کی تاریخ رام بھکتوں کے قول کے مطابق نہیں ہیں۔بلکہ یہ کوئی سو دو سو سال قبل کی تاریخ ثابت ہوتی ہے۔پھر یہی بھکت لوگ رام جی کا محل بھی دکھاتے ہیں جو تصور سے پرے نظر آتا ہے۔رام جی آریہ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔انہیں رامائن میں” آریہ پتر”کہا گیا ہے۔یہ آریہ ڈھائی ہزار سال قبل مسیح وسط ایشیا سے آکر سندھو گھاٹی پر نمودار ہوئے۔یہ ایک بر بر اور لٹیری قوم تھی چنانچہ جب وسط ایشیا کے عوام اس سے عاجز آگئے تب اسے ملک بدر کر دیا۔اور یہ ہندوستان ائے۔چونکہ یہ ایک جنگ جو اور لٹیری قوم تھی۔اس کا پیشہ ہی لوٹ مار تھا۔اس لئے اس کا جسم بھی بہت مضبوط اور طاقتور تھا۔ یہ فن حرب میں بھی مہارت رکھتی تھی اس لئے یہ اپنی ازلی فطرت و جبلت کے مطابق ہندوستانیوں خصوصاً اس عہد کی امن پسند اور معزز قوم دراڑوں پر خوب خوب جبر و ظلم ڈھایا۔اس دور کی اس مضبوط و مستحکم قوم نیدراوڑ پر اتناظلم ڈھایا کہ کچھ تو مارے گئے اور جو ماندہ بچے وہ جنوب کی جانب ہجرت کو مجبور ہوئے۔یہ ہے آریوں کا اصل کردار۔یہ اپنی فطرت کو نہیں بدل سکے۔
جب تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت رہی تب تک یہ جری لیکن بزدل قوم خاموش رہی۔کیونکہ جز اس کے ان کے پاس کوئی چارہء کار نہیں تھا۔جیسے ہی مغلیہ سلطنت معزول ہوئی اور اہل فرنگ کی آمد ہوئی گویا اس بربر قوم کو پر لگ گئے۔ویسے ویسے رام مندر قضیہ بھی پرانا ہے۔1885ء ہی میں مہنت رگھوویر داس نے یہ کہتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا کہ یہ رام جنم بھومی ہے اور ہندوئوں کو یہاں پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن اس وقت تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نہیں تھی کہ فورآ پوجا کرنے کی اجازت مل جاتی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہل فرنگ نے ہندوستانیوں کا بہت استحصال کیا۔جہاں اپنے مفاد کی بات ہوتی تھی وہاں من مانی فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔لیکن اس مندر و مسجد کے قضیہ میں تو اس کا کوئی اپنا مفاد نہیں تھا۔پھر بابری مسجد بہت قدیم تھی۔اسیبابر کے سپہ سالار میر باقی نی1528ء میں تعمیر کروایا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی اٹھارہویں صدی میں آئی تھی۔ اس کی پہلی جنگ سراج الدولہ کے ساتھ 1757ء میں عمل پزیر ہوئی تھی۔چنانچہ مہنت رگھوویر داس اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔جب ہندوستان آزاد ہوا اور کانگریس کی حکومت تشکیل پائی۔اس حکومت میں بہت سے ایسے کانگریسی بھی تھے جن کی سفید دھوتی کے اندر خاکی نیکر تھی۔یہی سبب تھا کہ مذکورہ بابری مسجد میں 1949ء میں نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی گئی۔اس سے قبل ہی مذکورہ مسجد میں ایک مورتی رکھ دی گئی تھی۔ 1986 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے وہاں دوسرے فریق کو پوجا پاٹھ کی اجازت دے دی۔پھر سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے 1990ء میں ہندئوں کو یکجا کرنے کی غرض سے ایک رتھ یاترا نکالا۔اس میں شامل جنونی ہندوئوں نے بابری مسجد کو جزوی طور پر نقصان بھی پہچایا اور 1992 میں ان جنونیوں کے ہاتھوں حکومتی اشارے پر بابری مسجد مکمل طور پر شہید کر دی گئی۔ اس شہادت کے باعث پیدا شدہ ہندو مسلم کشیدگی کے سبب برپا فرقہ وارانہ فسادات میں کم و بیش 2000 مسلمانان نے جام شہادت نوش کیا۔یہ سارا معاملہ اپنی جگہ مسلم لیکن الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ بدستور جاری رہا اور 2010 ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کے نام اراضی میں دو تہائی زمین ہندوئوں کو اور ایک تہائی زمین بابری مسجد کے حق میں چھوڑ دیا۔لیکن یہاں گڑبڑی یہ ہوئی کہ مسجد والی اراضی ہندوئوں کے حق میں چلی گئی۔جیسے ہی یہ فیصلہ آیا ہندوئوں نے بہت ہی تعجیل سے 2020میں بر سر اقتدار وزیر اعظم شری راجیو گاندھی کے ہاتھوں شہ بھومی پوجن بھی ہو گئی۔
بہر کیف جو ہوا سو ہوا۔لیکن رام مندر کے افتتاح میں جیسی جیسی لیلا رچی گئی وہ یقیناً حیرت انگیز تھی۔اس افتتاح کے ایک ہفتہ قبل سے اس کا خوب خوب اشتہار ہو رہا تھا۔مختلف قسم کے جملے و اصطلاحات استعمال ہو رہے تھے۔جس سے ہر ذی فہم حیرتی بناہوا تھا۔جیسے” رام جی آ رہے ہیں”۔اب ذرا کوئی بتائے کہ کیا رام جی کہیں گئے ہوئے تھے یا دنیا میں ان کا وجود ہی نہیں تھا۔اخر رام جی کہاں سے آرہے تھے۔دوسرا جملہ تھا کہ رام جی کا 500 سالہ بنباس ختم ہو رہا ہے۔اب یہ بات احقر کی فہم سے پرے ہے۔ رام جی کو 14 سالہ بنباس تو ان کے والد نے دیا تھا لیکن یہ 500 سالہ بنباس کس نے دیا۔ اگر دیا تو کیا رام جی 500 سالوں تک ہندوستان میں نہیں رہے۔اگر وہ ہندوستان میں نہیں تھے تو کہاں تھے۔اس کی وضاحت بھی ناگزیر ہے۔کیونکہ یہ کسی ایرے غیرے کے وجود و قیام کی بات نہیں ہے بلکہ پرشوتم رام جی کا معاملہ ہے اجو آستھا کے مرکزی نکتے بھی ہیں۔ایک مزاحیہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ "کسی کو راشٹر واد سیکھنا ہے تو وہ دیوتائوں سے سیکھے۔کیونکہ اس ملک میں اتنے تغیرات رونما ہوئے لیکن ایک بھی دیوتا ہندوستان کو چھوڑ کر کہیں نہیں گئے ” اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ہندوستان میں نہیں رہے تو اتنے یگوں تک کہاں رہے۔تاریخ میں تو ایسی شہادت نہیں ہمملتی ہے کہ کوئی بھی دیوی دیوتا ہندوستان چھوڑ کر کہیں گئے ہوں۔ہاں سیتا ہرن کے بعد شری رام بندروں کی فوج کے ساتھ سری لنکا گئے۔اب احقر کو مجبوراً یہ رقم کرنا پڑ رہا ہے کہ جس عہد کی بات ہو رہی ہے اس عہد میں سری لنکا بھی ہندوستان کا ہی حصہ تھا۔تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شری رام کہاں تھے جو وہ 22جنوری 2024 کو ایودھیا تشریف لائے۔ ہندوستان میں نہیں تھے تو اس درمیان جتنے بھی پوجا پاٹھ ہوئے سب اکارت گئے۔اب اس کا پشچاتاپ کیا ہوگا۔ یہ تو موجودہ شنکرا چاریہ ہی بتا سکتے ہیں۔یہ تو بہت معمولی سی بات ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ایک سوال یہ ہے کہ نریندر دامودر داس مودی شاستروں کے مطابق شودر ہیں۔ایک شودر کیونکر اس پران پرتشٹھا کی پوجا میں بیٹھ سکتے ہیں۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جو بھی پوجا میں بیٹھے گا وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بیٹھے گا اور سر کا منڈن کروائے گا۔لیکن مودی جی نے یہ دونوں ہی کام نہیں کیا۔جو شاستر کے خلاف ہے۔
بہر حال 1885سے جاری قضیہ کا خاتمہ 09 نومبر 2919 کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بنچ کینا انصافی پر مبنی فیصلے سے نامکمل طور پر ہوا۔کیونکہ ابھی بھی ریویو کی گنجائش باقی ہے۔اس مسجد کی اراضی پر مندر بھی تعمیر ہو چکا ہے۔جب اس میں پران پرتشٹھا کا وقت آیا تو چاروں پیٹھ کے شنکرا چاریہ اس کی مخالفت پر اتر ائے۔ان چاروں شنکرا چاریوں کے علاؤہ بہت سارے سادھو سنتوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔لیکن کیمرہ جیوی اور ہر چیز کا سہرا اپنے سر رکھنے کے عادی وزیر اعظم نریندر دامودر داس مودی نے سبھوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زبردستی پران پرتشٹھا کو انجام دیا۔جس سی ان کی ذہنیت واضح ہوتی ہے۔یہ تو شری مودی جی خود کو دیوی دیوتائوں حتیٰ کہ رام جی سیبھی اعلیٰ ترین تصور کرنے لگے ہیں۔اس لئے پنڈتوں اور شنکرا چاریوں کے لاکھ اعتراضات کے باوجود اشبھ سمئے میں شبھ کاریہ کو انجام دیا۔در اصل مودی جی اب خود کے سامنے کسی کو بھی اہمیت کے حامل نہیں خیال کرتے ہیں۔سی بی ائی۔ای ڈی اور الکشن کمیشن تو ان کی جیب میں ہے ہی۔کئی عدلیہ کے جج بھی ان کے عقیدت مند ہیں۔ایک جج عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس چندر چوڑ صاحب کو یہ ایک آنکھ دیکھنا نہیں چاہتے۔دیکھنا چاہیں بھی کیوں۔شری نریندر مودی تو سبھوں سے غلامی کرانے کے عادی ہو گئے ہیں۔لیکنعزت مآب چیف جسٹس عدالت عظمیٰ چندر چوڑ صاحب ان کی غلامی قبول کرنے کے لئے کسی بھی طور راضی نہیں ہوئے۔غالب اندیشہ اس امر کا ہے کہ کہیں نہ جسٹس لوڑھا کی طرح ان کا بھی کام نہ تمام کر دیا جائے۔یا پھر جسٹس گنگولی کی طرح کسی خاتون کو کھڑا کر کے ان پر عصمت دری کا مقدمہ درج کر کے موصوف کو استفا دینے کے لئے مجبور نہ کر دیا جائے۔جہاں منمانی اور زور زبردستی غلامی کرانے کی ایسی دیوانگی ہو وہاں جمہوریت اور آئین کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے۔کہنے والے تو یہ بھی کہ رہے ہیں کہ اگر اس دفعہ کا عام انتخاب بی جے پی جیت لیتی ہے تو پھر اس کے بعد کوئی انتخاب نہیں ہوگا۔ وطن عزیز میں راج شاہی کا آغاز ہو جائیگا۔اور ملک کا سارا نظام منو سمرتی کے مطابق ہے چلے گا۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایس سی اور ایس ٹی والے منو سمرتی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔انہیں یہ علم ہے کہ ہندو راشٹر میں ان کے باپ دادوں اور ماں بہنوں کے ساتھ کیا کیا کیا گیا۔ہندو راشٹر کے فریب میں آکر یہ ایس سی آ ور ایسث ٹی والے پھر برہمن واد کو دعوت دے رہے ہیں۔جس کا انجام کیا ہوگا وہ سمجھ کر بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔یہ رام مندر کی تعمیر بھی اسی کا ایک حصہ ہے یہی سبب ہے کہ ہندوئوں کے ذریعہ جتنی مخالفت اس دفعہ را م جی کیہوئی ہے۔شاید تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔ بابری مسجد بنام رام جنم بھومی مقدمہ کا جو عدالت عظمیٰ سے فیصلہ آیا اس سے ماخوذ کل 10اہم نکات درج ذیل ہیں1_میر باقی 1528 میں مسجد تعمیر کرائی2_ 1857سے 1949 تک مسلمانوں کا قبضہ اور استعمال رہا۔3_بابری مسجد میں آخری نماز16 دسمبر 1949 کو ادا کی گئی۔4_ 22-23 دسمبر 1949کو بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا۔5_گنبد کے نیچے کی زمین رام جنم استھان ہے۔یہ ثابت نہیں ہو سکا۔6_ زمین پر دعویٰ میعاد کے اندر ہے۔
جس پراب فیصلہ ریویو کے لائق ہے۔7_6دسمبر کو 1992 کو مسجد گرایا جانا غیر آئینی تھا۔8_ہندو سینکڑوں سال سے پوجا کرتے رہے ہیں۔اس بنیاد پر پوری زمین کیسے۔9_اس پر کیوں غور نہیں کیا گیا کہ زمین اکس چینج یا ٹرانسفر نہیں ہو سکتی ہے۔10_فیصلہ میں تسلیم کیا گیا کہ مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ متذکرہ بالا سطور سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بابری مسجد کی اراضی کس طرح رام جنم بھومی والوں کے سپرد کی گئی۔جب درج بالا تمام نکات بابری مسجد کے حق میں ہیں تو صرف اور صرف آستھا کی بنیاد پر انصاف سے اتنی بڑی نا انصافی عمل پزیر ہوئی جسے تا عمر عدلیہ کا سیاہ باب تصور کیا جائیگا۔ایسا صرف اس لئے عمل پزیر ہوا کہ ہندوستان کی اکثریت کے آستھا کا سوال تھا جس کے لئے انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔یہ وطن عزیز کی بہت بڑی کم نصیبی پر محمول کیا جائے گا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا