یومِ جمہوریہ اور آئینی تقاضے!

0
294

 

٭ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
اپنا وطنِ عزیز دنیا کی سب بڑی جمہوریت ہے اور جمہوریت کی روح ہمارا آئین ہے ۔آج سے 75سال قبل جب ہمارے اکابرین نے آئین کے نفاذ کی تاریخ متعین کی تھی تو ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں جنگِ آزادی کی تاریخ بھی تھی اسی لئے ہمارا آئین تو نومبر 1949میں ہی مکمل ہو چکا تھا لیکن اس کے نفاذ کی تاریخ 26؍جنوری1950اس لئے متعین کی گئی کہ ہماری جنگِ آزادی میں اس تاریخ کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 26؍ جنوری 1930میں پہلی بار ترنگا لہرایا گیا تھا اور مکمل آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ اس لئے اس تاریخ کو یادگار بنانے کے لئے ہمارے آئین کا نفاذ 26؍ جنوری 1950کو ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے غلامی سے نجات پانے کے بعد زندگی کے مختلف شعبے میں ترقیاتی منازل طے کئے ہیں لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ آئین کے تقاضوں کو ہم پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ انسانی وسائل کے معاملے میں دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک ہے اور قدرت نے ہمارے ملک میں انسانی ترقیات کے وسائل بھی عطا کئے ہیں۔ کہیں ہیرے جواہرات کے کان ہیں توکہیںآبی ذخائر اور کہیں ریگستان ہے تو کہیں جنگلوں کا لا متناہی سلسلہ۔یہ تمام قدرتی عطیات انسان کی فلاح وبہبود کے وسیلے ہیں ۔ مگر افسوس کہ ہماری سیاست نے قدرتی عطیات کی تقسیم میں بھی علاقائی تعصب ، ذہنی تحفظات اور نسلی فرقہ واریت کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ قدرتی عطیات میں بھی بد عنوانی اپنی انتہا پر ہے اور آئین نے جو ہر شہری کو جینے کے مساوی حقوق کا وعدہ کیا ہے اسے پامال کیا جا رہاہے ۔ ہمارا ملک مذہبی، لسانی، ثقافتی،تہذیبی ہر اعتبار سے کثرت میں وحدت کا پیغام دیتا ہے۔ اس لئے ہمارا آئین تمام تر تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہر ایک شہری کے مفاد میں کام کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ ہمارے وزراء اور ممبران اسمبلی وپارلیامنٹ اپنی رکنیت کی بحالی اور عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے یہ حلف لیتے ہیں کہ ہم بھارت کے شہری اپنی جمہوریت میں مکمل یقین رکھتے ہیں اور اپنے ملک کے آئینی تقاضوں کو پورا کریں گے۔ آزادانہ اور غیر متعصبانہ عمل کے ذریعہ ہر شہری کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنائیں گے ۔ مذہب ، ذات ، جماعت اور زبان کسی طرح کے تحفظات سے پاک رہیں گے لیکن عملی صورت کیاہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے وزراء ایک مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں تو دوسرے مذہب کو نشانہ بناتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کے گراف دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ نے یہ حقیقت عیاں کی ہے کہ ہمارے 26فی صد نومولود بچے عدم تغذیہ کے شکار ہیں اور 50فی صد خواتین تغذیہ کی کمی کی وجہ سے انیمیا کی شکار ہیں۔جب کہ عالمی اقتصادی ریکارڈ یہ دکھاتا ہے کہ ملک کی آدھی ملکیت صرف بارہ صنعتی گھرانوں کے پاس ہے ۔ ایک شخص ایسا ہے جس کی آمدنی میں روزانہ دو ہزار فی صد کا اضافہ ہو رہاہے تو دوسری طرف ملک کی 35فی صد آبادی کی روزانہ آمدنی دنوں دن کم ہو رہی ہے ۔ یعنی وہ فاقہ کشی کے شکار ہو رہے ہیں۔ہمارا آئین ہر شہری کو یہ آزادی بخشتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق پوشاک اور اپنی روز مرہ زندگی میں خوردونوش اختیار کرے۔ہر ایک شہری کو اپنے فکر ونظر کی آزادی ہوگی ۔ہر شہری اپنی تہذیب وتمدن کے تحفظ کے لئے آزاد ہوگا لیکن عصرِ حاضر میں ان تمام تقاضوں کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ قصداً اس کی پامالی کی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک میں اظہارِ خیال کی آزادی کو ایک خاص طبقہ کس طرح نشانہ بنا رہاہے ۔ چند برس قبل انگریزی کی عالمی شہرت یافتہ ادیبہ نین تارا سہگل کو ایک گروپ نے مہاراشٹر کے ساہتیہ سمیلن میں اس لئے شامل نہیں ہونے دیا کہ وہ ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرنے والی تھیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ یومِ جمہوریہ کا جشن ہم اس لئے مناتے ہیں کہ اس کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کریں گے بلکہ استحکام بھی بخشیں گے ۔ ہم اپنے آئین کے تمام تقاضوں کی پاسداری کریں گے کہ اسی میں ملک کے تمام شہری کے خوابوں کی تعبیر پوشیدہ ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ترقیاتی منازل طے کئے ہیں ، خلاء میں ہماری آواز ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ گونجی ہے تو سمندر کی تہوں تک ہم نے اپنے ’’وکرانت‘‘ اتارے ہیں ۔ درجنوں سٹلائٹ کے ذریعہ سائنس او رٹکنالوجی کے شعبے میں پوری دنیا کو اپنی طاقت کااحساس کرایا ہے۔چاند پر اتر کر ہم اپنے ملک کے یقیں محکم اور عمل پیہم کا پرچم لہرایا ہے اور سورج پر کمند ڈالنے والے ہیں۔ لیکن ایک ٹھوس سچائی یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں ہم اب بھی دنیا کے پسماندہ ملکوں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ہم اپنی آزادی کے اتنے دنوں بعدبھی اپنے تمام شہری کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرا پائے ہیں اور آج بھی ناخواندگی کا بد نما داغ ہمارے لئے باعثِ ندامت ہے۔ سماجی برائیوں پر قابو پانے میں ناکام ہیں تو مذہبی فرقہ پرستی اور نسلی امتیازات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ امن شانتی کا یہ گہوارہ نفرت کے مسکن میں تبدیل ہو رہاہے ۔ بے روزگاری نے ہمارے نوجوانوں کے ذہن وفکر کو مفلوج کر رکھا ہے ۔ کیا ہمارے اکابرین نے آئین کی تفصیل اور پھر اس کے نفاذ کا مقصد یہی سوچا تھا ؟اگر نہیں تو پھر ہم سب اس پر عمل پیرا کیوں نہیں ہیں ؟ہم جانتے ہیں کہ اس کا جواب کوئی بھی شخص نفی میں نہیں دے سکتا۔ لیکن کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ ہم اپنے آئینی تقاضوں کی پاسداری میں ناکام رہے ہیں؟۔ہماری موجودہ حکومت تقریباً 80کروڑ افراد کو مفت راشن دے کر ایک جمہوری فرائض کو انجام دے رہی ہے لیکن آخر کب تک؟اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک اقلیت طبقے کا سوال ہے تو اس طبقے کو بھی اپنے ذہن ودل میں جمہوری تقاضوں کے جو اسباق ہیں اس کو محفوظ کرلینا چاہئے اور اسی کی روشنی میں اپنے عملی اقدام اٹھانے چاہئیں کیوں کہ صرف ہم اپنے حقوق کے مطالبے کرتے رہیں گے اور اپنے فرائض سے غافل ہوں گے تو ہماری آواز ہمیشہ صدا بہ صحرا ثابت ہوتی رہے گی ۔ صرف اور صرف اپنی پستی کے لئے کسی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں اور اس تلخ حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی منصوبہ بند نظام قائم نہیں ہے۔ سماجی ، معاشرتی ، تعلیمی اور سیاسی شعبے میں بھی ہماری پستی اگر ہے تو صرف اور صرف اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوری تقاضوں کو مدنظررکھ کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہے اور اب تک صرف جذباتی اور اشتعال انگیزی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ چہار طرف ہمارے لئے مایوسیوں کا سامان دکھائی دیتا ہے ورنہ مذکورہ شعبوں کے لئے اگر کوئی منصوبہ بند طریقہ کار ہم نے اپنا لیا ہوتا تو شاید آج ہمارے معاشرے کی جس طرح کی تصویر ہے وہ نہیں ہوتی اور نہ ہم اپنی تقدیر کو کوستے رہتے۔واضح ہو کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور کسی بھی جمہوری ملک کا آئین اس ملک کی اگر روح ہے تو اس کے ہر ایک شہری کے دل کی دھڑکن بھی آئین ہے ۔ اگر ہم سب صدق دل سے اس حقیقت کا اعتراف کرلیں تو شاید دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت سے کسی کو شکایت نہیں ہوگی۔ آئیے ہم سب اپنے آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ آئینی فرائض کو انجام دینے کا بھی عہد لیں کہ ہمارے اسی عمل سے ملک کی تصویر وتقدیر بدلنے والی ہے ۔

٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا