0
0

  • ۰۰۰۰۰۰     آفتاب کی سنہری کرنیں روشن دان سے ہوتے ہوئے ہما رے رخساروں کو چھو رہی تھیں ۔۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی کی گرم ہتھیلیاں ہمیں جگا رہی ہوں۔ جلدی سے ہم نے آنکھیں کھولیں۔ آج بچوں کی چھٹی تھی ۔۔۔۔۔اس لیے ہم نماز فجر ادا کرکے سو گئے تھے ۔ جلدی جلدی کچن کا کام نپٹاکر فارغ ہوئے، ساتھ ہی ساتھ واشنگ مشین میں کپڑے بھی دھل رہے تھے۔ سارے کام ختم کرکے آخر میں کپڑے سکھانے کے لیے باہر آئے۔ سامنے سے عالیہ آتی ہوئی دکھائی دی۔ پاس آکر اس نے سلام کیا۔السلام علیکم ذارا باجی !کیسی ہیں آپ؟وعلیکم السلام ! عالیہ الحمدللہ ۔۔ہم اچھے ہیں! آپ کیسی ہیں؟جی ذارا باجی ہم بھی اچھے ہیں۔ رب کا شکر ہے! کیا بات ہے عالیہ کئی دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں آپ کچھ بجھی بجھی سی اور پریشان نظر آتی ہیں۔ آج تو آپ کا چہرہ کافی مرجھایا ہوا لگ رہاہے۔ آپ کے اس خوبصورت چہرے پر ایک درد سا نمایاں ہے۔ کیا درد ہے آپ کو جسے آپ چھپا رہی ہیں۔ آپ ہمیں باجی کہتی ہیں تو ہمیں اپنے درد بھی بتا سکتی ہے نا !!!شاید ہم آپ کے لیے کچھ کر پائیں!!! کچھ نہیں ذارا باجی! بس یوں ہی۔……کچھ تو بات ہے عالیہ! آپ ہمیشہ ہشاش  بشاش رہنے والی، سب سے خوش اخلاقی سے ملنے والی اچانک سے مر جھاسی گئی ہیں، اور کہتی ہیں کچھ نہیں! آپ کچھ بھی کہیں چہرہ انسان کی شخصیت کا آئینہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات اور دلی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے۔ بتائے عالیہ کیا بات ہے؟؟ جی باجی ہم آپکو ضرور بتائیں گے۔۔۔۔ ابھی ہمیں آفیس جانا ہے۔ دیر ہو رہی ہے ۔ہم شام کو آپ  سے ملتے ہیں۔۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔ آپ ابھی جائیں مگر شام میں ضرور ملنا، اور ہاں آپ کافی پریشان ہیں اس لیے سنبھل کر جانا۔ ہم آپ کا انتظار کریں گے۔جی بالکل باجی! اللہ حافظ‏ عالیہ تو آگے بڑھ گئی مگر ہم انہیں کہ بارے میں سوچنے لگے۔ پچھلے دنوں ان کے بارے میں کچھ اڑتی اڑتی باتیں سنی تھیں۔ لیکن ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں آیا تھا کیوں کہ عالیہ ایک سلجھے ہوئے ذہن کی لڑکی تھی۔عالیہ کے خوبصورت چہرے پر اُداسی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ بے حد خوبصورت اور خوش مزاج، خوش اخلاق لڑکی ہے۔ یہ دو بہنیں اور دو بھائی ہیں ۔دنیا کی تمام آرائش اور آسائش ان کے پاس ہیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ان کے پاس پر کہتے ہیں نا زندگی کسی کی بھی آسان نہیں ہوتی۔ کوئی اپنے غموں کو چھپا کر مسکرانا سیکھ لیتا ہے تو کوئی اپنی زندگی سے ہار مان لیتا ہے۔ اس جہان میں سب کو اپنے اپنے کردار ادا کرنے ہوتے ہیں۔ انسان اپنے اندر کتنے ہی دکھوں سے جوجھ رہا ہو لیکن چہرے پر ہمیشہ مسکان بنائے رکھنی پڑتی ہے۔  ایسا ہی حال آج کچھ عالیہ کا تھا۔ عالیہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کے اّبّا کا اچھا کاروبار بھی ہے۔ پر عالیہ کوجاب کرنے کا شوق تھا اس لیے گھر والوں نے اجازت دے دی تھی۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ کئی دنوں سے بہت ہی پریشان اور اداس تھیں اور آج تو بہت ہی زیادہ اداس اور پریشان لگی۔ نہ جانے ان کے چہرے کی رونق کہاں گم ہو کر رہ گئی تھی۔ ہم انہیں کے بارے میں سارا دن سوچتے رہے آخر کیا بات ہے؟؟ کیا غم ہے؟؟  بہت ہی بے تاب تھے ان کی تکلیف جاننے کے لیے۔ سارا دن ہمارا یوں ہی بےتابی میں گزرا۔ آخر کار گھڑی نے چھ بجا دیے۔ ہم نے سوچا ابھی عالیہ آفیس سے آجائیں گی ۔ کچھ آدھا پون گھنٹہ گزرا ہوگا۔ کسی نے باہر سے آواز لگائی ذارا باجی!!! ذارا باجی!!! یہ آواز اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ ہم سب چھوڑ کر باہر آئے، سامنے ہی ہماری پڑوسن شاہدہ کھڑی تھیں ۔ انہوں نے ہانپتے ہوئے کہا، ذارا باجی عالیہ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ ابھی کسی نے آ کر ان کے گھر پر خبر دی ہے ۔  ہم نے یہ خبر سنی تو ہمارے پیروں سے جیسے زمین کھسکنے لگی ۔ تھوڑی دیر کے لئے ہم بے حس و حرکت ہی ہو گئے تھے۔ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے آخر ایسے ہوا کیوں۔ رہ رہ کر انکا چہرہ ہماری نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ ہم باہر ہی تھے کہ سامنے سے ان کی ایک پڑوسی گزرتے نظر آئے۔ ہم نے انہیں آواز دی۔اعجاز بھائی! کیا ہوا عالیہ کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟ ذارا جی! پتا نہیں پر سننے میں آیا کہ وہ روڈ کراس کر رہی تھیں اور کسی گاڑی سے ٹکرا گئی۔ وہیں پر ان کی روح اپنے مالک حقیقی سے جاملی، گھر پہنچا ہے تو صرف ان کا جسم!!!!  ہم دوڑے دوڑے انکے آشیانے پر پہنچے۔۔ ہر ایک کی آنکھیں اشک بار تھیں ۔ اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے جیسے تیسے لڑکھڑاتے قدموں سے ان کی لاش تک پہنچے ، چہرہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہم نے لرزتے ہاتھوں سے چادر ہٹائی تو روح اور جسم کے تعلق کی حقیقت سامنے آگئی۔ یہ تو وہ عالیہ تھی ہی نہیں، وہ تو بہت خوبصورت تھی ۔۔ہلکے سے میک اپ سے اس کے حسن میں چار چاند لگ جاتے تھے۔ سیاہی مائل چہرہ ، کالے پڑے ہونٹ، سر میں کافی چوٹ لگی تھی ، بے ساختہ ہمارے منہ سے چیخ نکلی ، دل و دماغ نے جیسے کام کرنا ہی بند کر دیا ہو، کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے عجیب کشمکش میں تھے۔ زندگی تو ختم ہوئی پر حسن تو جسم کی امانت تھا !وہ کہاں گیا ؟۔۔      شاید ۔۔۔شاید موت ہے ہی اتنی خوفناک چیز کا نام جس کے سامنے حسن بھی دم توڑ دیتا ہے ۔ ہمیں وہاں رکنا محال ہو رہا تھا ۔ ہم تھکے تھکے بوجھل قدموں سے وہاں سے چلے آئے۔    ہمیں سمجھ آیا کے حسن کی وابستگی جسم سے نہیں بلکہ روح سے ہے۔ ہم سوچ سوچ کے پاگل ہوئے جا رہے تھے آخر انہیں کیسا درد تھا جس کو انہوں نے چھپایا اور شاید اسی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا