مذہبی وسماجی قیادت اپنا محاسبہ کرے:مولانا سعید احمد حبیب

0
0

سنبل بانڈی پورہ عصمت دری
لازوال ڈیسک

پونچھ //معاشرتی بگاڑ اور خرابیاں اب اس حد تک جا پہنچی ہیں کہ اب ایسے ددرناک واقعات ہمارے سماج کی کہانی بن چکے ہیں ہماری بے حسی اور سماجی معاملات سے لا تعلقی کی وجہ سے اب معصوم بچیوں کی تار ہوتی عصمتیں اور ان کی چیخیں ہمارے لئے معمول کی بات بن چکے ہیں اخلاق اور کردار کی گراوٹ کی یہ سطح کسی بھی قوم کی ہلاکت اور تباہی کیلئے کافی ہے ان خیالات کا اظہار جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ جموں کشمیر کے نائب مہتمم و صدر تنظیم علماءاہل سنت ولجماعت پونچھ مولانا سعید احمد حبیب نے سمبل بانڈی پورہ میں ہوئے درندگی کے واقعہ پر کیا مولانا نے کہا کہ اعمال اور کردار سازی کی سب سے زیادہ تلقین کرنے والے مذہب اسلام کے پیروکار جب اس طرح کی وحشیانہ حرکت کریں اور علماءاور واعظین بے خبر اور لاتعلق ہو کر ان واقعات کو تکتے رہیں تو پھر ہلاکت ہمارا مقدر ہے ہمیں عذاب رب سے کوئی نہیں بچا سکتا مولانا کہ کہا کہ وہ حکومتی اداروں یا پولیس سے کوئی شکایت نہیں کرسکتے اصلاح معاشرہ کی اولین ذمہ داری مذہبی قیادت کی ہے اور سچ یہ ہے کہ ہماری مذہبی قیادت مسلکی اور فروعی تنازعات کو لے کر ایسی باہم دست و گریبان ہے کہ اس کے پاس اصلاح معاشرہ کی فکر کا وقت ہی نہیں ہے۔ ہماری باہم تقسیم نے جہاں ہماری عالمی جگ ہنسائی کرائی وہاں اس نفرت کی وبا ءنے ہمارے معاشرتی نظام کو درہم برہم کردیا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حقائق سے منہ موڑنا چھوڑیں بلکہ حقائق کو تسلیم کریں ہماری تمام تر تباہی کی اصل اور بنیادی وجہ ہماری آپسی منافرت ہے جسکی وجہ سے ہم اپنے اصل مسائل پر توجہ نہ دے سکے متحدالخیال قومیں ہیں یکسو ہو کر اپنے مسائل کو حل کر سکتی ہیں اور اپنامحاسبہ کرنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کر سکتی ہیں۔ مولانا نے جہاں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ زندگی کے مرتکب شخص کو قرار واقعی سزا دے وہاں قوم کے علمائ واعظین اور دانشوران کو بھی ذمہ داری سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات بار بار کیوں رونما ہوتے ہیں اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے اگر اصلاح معاشرہ کیلئے موثر اور منصوبہ بند کوششیں نہ کی گئیں تو اس طرح کے شرمناک واقعات کا،سلسلہ یوں ہی جاری رہیگا اور ہماری پھول سی معصوم بچیاں ہماری غفلت اور بے حسی کا خمیازہ بھگتی رہینگی ہماری تباہی کا سب سے بڑا سبب ہم خود ہیں نہ کہ کوءبیرونی دشمن ہے اسلئے سماج کا ہر پڑھا لکھا انسان انفرادی سطح پر اور فیملی سطح پر دین داری اور خدا خوفی کے مزاج کو فروغ دے کیوں کہ خدا خوفی ہی سے ان جرائم کو روکا جا سکتا ہے مولانا کہ کہا کہ لوگوں کو مساجد سے جوڑا جائے اور مساجد میں عوام کی سطح کا خیال رکھتے ہوئے اصلاحی بیانات کئے جائیں اور معاشرتی جرائم کی روک تھام کیلئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیانات کئے جائیں ترہیب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ترغیب سے امت کو سمجھایا جائے مردوخواتین دونوں طبقات کو ایڈرس کیا جائے تاکہ پورا معاشرہ ذہنی طور پر ان جرائم کو روکنے کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا