قیصر محمود عراقی
لوگوں کو منظم زندگی گذارنے کیلئے بتا دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت لازمی ہے۔ اپنے سے بڑوں کا ادب واحترام بھی سکھایا گیا اور بڑوں کیلئے یہ بات لازم قرار دی گئی کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کا خیال رکھیں۔ ہر قسم کی دھوکہ دہی ، جعل سازی، مکر، جھوٹ اور فریب کی ممانیت کردی گئی ، ہر بات میں ایمانداری کو اپنانے کا حکم دیا گیا ، منافقت کو نا پسند کیا گیا ، کسی کو اذیت پہنچانے کے متعلق سخت عذاب کی خبر دی گئی ، حق اور انصاف کے بغیر کسی امتیاز کے فراہم کرنے کو کہا گیا ، تہمت لگانے والے کیلئے کڑی سزائیں رکھی گئیں ، عدالت میں جرب زبان کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی کہ اگر وہ اس دنیا سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی، انصاف سہل اور بنا اجرت دیا جانے کا حکم دیا گیا ، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی، چوروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ کاٹنے کا حکم سنا یا گیا، زانی کو پتھر مار مارکر مار دینے کا کہا گیا، جو رزق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کو اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے کی تلقین کی گئی اور مختلف مدات سے حاصل ہونے والی رقوم کو کس طرح اور کن کن پر خرچ کررہا ہے اس کی بھی وضاحت کردی گئی۔ امانت میں خیانت سے روکا گیا ، غصے کو حرام قرار دیا گیا، پیار ، محبت ، صبر اور تحمل کا درس دیا گیا، سوار کو سلام میں پہل کرنے کی ہدایت دی گئی، شادی لازمی قرار دیکر زنا کا راستہ روکا گیا، حسب ضرورت ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ زنا کا مزید راستہ روکا جاسکے، زائد شادی کی صورت میں ہر طرح کے عدل وانصاف کو لازمی قرار دیا گیا ، بچوں کی تعلیم وتربیت جزولانیفک بنا دی گئی ، حقوق اللہ کی اہمت اپنی جگہ لیکن حقوق العباد سے اجتناب یا غفلت کرنا قابل معافی جرم گنا گیاتاآنکہ جس کے حقوق کسی دوسرے فرد سے متاثر ہوتے ہوں ان کے درمیان معافی تلافی نہ ہوجائے ، جائداد کی تقسیم میں لڑکیوں کی اور خواتین کے حقوق کو شامل کرکے ہر قسم کی جاہلانہ روایت کے بت کو پاش پاش کردیا گیا ، قطع رحمی کو حرام اور صلہ رحمی کو حلال کردیا گیا، معاشرے میں رہنے کے اصول سکھائے گئے، اونچی اواز کے ساتھ بولنا ناپسندیدہ قرار پایا اور دھیمے لہجے کو پسند کیا گیا ، ہر معاملے میں نظم وضبط کو اولیت دی گئی ، دو افراد بھی ہو ںتو وہ اپنے اندر ایک کو امیر بنالیں، پاکیزگی آدھا ایمان قرار پائی، جسم ، لباس، رہنے سہنے کی جگہ، گھر، گلیاں، بازار، شہر ، گائوں اور ملک کو صاف رکھنے کا حکم آیا، روح ، دل وماغ سب کی پاکیزگی مسلمان ہونے سے مشروط کردی گئی۔ خوشگوار زندگی گذارنے کا حکم دیا گیا ، یہاں تک کہ اگر میاں بیوی کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے گھر اور پھر خاندان اور پھر محلے پڑوس کا ماحول ہوتا ہو تو ہر دو فریق کو الگ ہونے کا اختیار بھی دے دیا گیا اور دونوں کیلئے علیحدگی کا طریقہ کار بھی سمجھادیا گیا ، باپ کی شان اور رتبہ اپنی جگہ لیکن ماں کی مرتبے اور شان کو ہر مرتبے اور شان سے ارفع واعلیٰ کرکے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ، بیٹی کو رحمت کہا گیا تو بیٹے کو نعمت ، یاد رہے کہ نعمت کا حساب ہوتا لیکن رحمت کا حساب نہیں لیا جاتا ۔ ہر انسان کا ہر انسان پر ، ہر رشتے کا ہر رشتے پر ، حاکم کا رعایا پر اور رعایاکا حاکم پر کیا حق ہے اور ان کے ایک دوسرے پر کیا حقوق اور کیا فرائض ہیں ان سب کا ذکر کردیا گیا ۔
معاشرتی برائیوں سے سختی کے ساتھ روکا گیا ، کسی کی عیب جوئی کرنا ، برے برے القابات سے ایک دوسرے کو پکارنا ، کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی اور سے کرنا ، چغلی کھانا ، کسی کی تضحیک کرنا ، کسی کو حقارت سے دیکھنا ، کسی کی خوشامد کرنا ، کسی کے راز کوکسی دوسرے تک منتقل کرنا ، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کیلئے آگے نہ بڑھنا ، کسی کے راستے میں روڑے اٹکانا خواہ محاورتاً یا حقیقتاً ،کسی سے نفرت رکھنا ، کسی سے دشمنی میں اتنا آگے بڑھنا کہ انصاف کے تقاضوں کو پامال کردینے کے مترادف ہو، راہ چلتے ہوئے اپنے ہاتھ ، پائوں اور آنکھوں کو اپنے قابوں میں نہ رکھنا ، بازاروں میں بے جا گھومنا پھرنا ، آوارہ گردی کرنا ، اپنی زندگی کو بلا مقصد گذارنا ، لغواور فضول قسم کی سر گرمی میں حصہ لینا ، منھ سے مغالظات بکنا ، ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنا ، کسی کی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا ، لوگوں کو غلط مشورے دینا ، لوگوں کی راہ زنی کرنا ، ان کو سیدھے راستے سے بھٹکانا ، کسی قسم کی مالی منعفت سے دور رکھنا ، گھروں میں تاک جھانک کرنا، وعدے کرکے توڑدینا، اڑوس پڑوس کو ناخوش رکھنا ، بچوں کو ڈرا دھمکاکے رکھنا ، خواتین سے امتیازی سلوک کرنا ، والدین کا احترام نہ کرنا ، بزرگوں کا قطعاً خیال نہ کرنا ، اہل محلہ کے کام نہ آنا یہ اور اسی قسم کے بے شمار خرابیوں کو اپنے اندر پال پال کراتنا تندرست وتوانا کرلینا کہ خود دوسروں کیلئے آزارِ جان بن جانا اسلام کی تعلیمات کے یکسر خلاف اور لائقِ تعزیرِ عمل ہے۔
الحمداللہ ہم مسلمان ہیں ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اسلام اور اس کی تعلیمات سے بہت دور ہیںاور سب دکھوں سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ہم اسلام سے فاصلے بڑھا چکے ہیں اور بہت دوری پر جاکھڑے ہوئے ہیں ۔ اسلام مردوں سے کہتا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھوں مگر ہم میں سے ایک بھاری اکثریت کی آنکھیں گلیوں ، بازاروں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بڑی بے باکی سے تلاش وجستجوں میں مشغول نظر آتی ہیں، خواتین کا بھی عالم ان نگاہ بازوں سے کوئی مختلف نظر نہیں آتا، وہ بھی گڈے گڑیوں کی طرح سج سجاکے گلیوں، بازاروں اور شادی بیاہ کے مواقع پرپریوں کے سے انداز میں دعوت نظارہ دیتی پھررہی ہوتی ہیں۔ ہمارا کھانا بیشک حلال اشیاء کا ہی ہوتا ہے لیکن ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ جو کھانا ہم کھانا کھارہے ہیں وہ حلال آمدنی کا بھی ہے یا نہیں؟ اشیاء تو ساری حلال ہی ہیں، ان کا ذائقہ بھی بہت خوب اور ان کو پیش کرنے کا انداز بھی اسلامی ہے لیکن اگر یہ سب کچھ اس آمدنی سے خریدہ گیا ہے جس میں حرام کی آمدنی کا پیوند لگ گیا ہے تو کیا وہ حلال ہی کہلائے گا؟ اسی طرح ہمارا پہننا، اوڑھنا، خرید وفروخت کرنا اور نیک کاموں میں اپنا سرمایہ لگانا کیا اسلامی کہلائے گا؟ کیا ان باتوں پر بھی ہمارا دھیان گیا ہے؟ کیا سود کا نظام ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کیا ہوا نہیں ہے؟ کیا ہم ناپ تول اور لین دین میں جائز اور ناجائز کا خیال رکھتے ہیں ؟ کیا ہماری تجارت حلال اور حرام کی حدود کی تعین کے ساتھ معاشرے میں مروج ہے؟ کیا ہم ایک دوسرے کے حقوق کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں جس طرح اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے؟ کیا امیر اپنے غریب عزیزوں ، قرابت داروں اور رشتہ داروں کا خیال رکھنا ؟ کیا اس رزق میں جو اللہ نے ہمیں دیا ہے ہم حق داروں کو اپنا شریک بناتے ہیں؟ اگر ایماندارانہ جواب مانگا جائے تو جواب سو فیصد ’’نفی‘‘میں آئیگا۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں اتنی برائیاں داخل ہوچکی ہیںکہ ہم اپنی اسلامی قدروں کو یا تو یکسر بھلا بیٹھے ہیں یا پھر اب ان پر عمل کرنا ہمارے لئے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ جھوٹ سے دور رہنے کو کہا گیاہم جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے، نمازیں ہم پڑھتے نہیں، روزہ نہ رکھنے کے لاکھوں عذر تراش لئے ہیں، حج(نعوذباللہ )فضول خرچی کا عمل لگتا اور زکاۃ وصدقات اس لئے نہیں کرتے کہ اس سے دولت میں کمی کا خد شہ ہوجاتا ہے ، وغیرہ وغیرہ اور پھربھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ہم ہی لاڈلے ہیں۔ یہ سب اسلامی اقدار نہیں ، اسلامی اقدار تو وہی ہیں جن کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے، جب تک ہماری زندگی ان طور طریقوں کی پابند نہیں بنے گی اس وقت تک نہ تو ہماری حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہمیں سکون قلب ، اطمینان اور چین نصیب ہوسکتا ہے۔
موبائل:6291697668