محمد عرفان رضوی سرنکوٹ پونچھ
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے حالات و کرامات ذی الحجہ کا مہینہ تھا پانچ سو تراسی سن ہجری اور گیارہ سو ستاسی عسیوی تھی، مکۃ المکرمہ کی سر زمین پر میدان محشر کا سا سماں تھا، چہار دانگ عالم سے فرزندان توحید اپنے معبود حقیقی کے اس فرمان ‘‘واتموا الحج والعمر للہ، کی تعمیل کیلئے سر نیاز خم کئے سیل رواں کی طرح جوق در جوق جمع ہو گئے تھے ایک ہی ترانہ جو ہر زبان پہ جاری تھا ایک ہی آواز جس سے مکہ المکرمہ کی فضا گونج رہی تھی وہ مقدس ترانہ یہ تھا، ‘‘لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعم لک والملک لاشریک لک‘‘ خالق کائنات جل جلالہ کے یہ وفا شعار بندے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہر کر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف تھے لیکن ایک خلش جو دلوں کو بے چین کر رہی تھی وہ تھی روضہ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کیونکہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس ہی تو اصل مراد اور قبولیت کا پروانہ ہے جیسا کہ سیدی اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے بشارت :۔ آخر وہ لمحہ جانفزا آ ہی گیا جب حجاج فرائض حج سے فراغ ہو کر اپنا مال و متاع اونٹوں پر لاد کر دیوانہ وار عشق و مستی میں سرشار جانب طیبہ قافلہ در قافلہ کوچ کرنے لگے اور اپنے غمخوار آقا کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرنے لگے انہی میں ایک خوب رو، خوش قامت، عاشق رسول تھا جس کی عمر تاریخ میں اس وقت چھیالیس سال بتائی جا رہی ہے اور حالت یہ تھی برہنہ سر، آنکھیں نم اور کثرت سفر کی وجہ سے پاؤں میں چھالے ہیں لیکن صورت بتا رہی تھی یہ کوئی اللہ والے ہیں۔ اپنے محسن آقا کی بارگاہ میں ہر کوئی اپنا درد دل بیان کر رہا تھا لیکن محبوب رب العالمین کا یہ عاشق ان سب سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود حقیقی کی عبادت و ریاضت میں مشغول تھا اچانک گنبد خضرٰی سے آواز آئی۔ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا۔‘‘ ہر دل مخمور اور ہر چہرہ مسرور تھا اگر کسی چہرے پر پریشانی کی لکیر اور تکفرات کی سلوٹیں نمایاں تھیں تو وہ اسی عاشق رسول کا چہرہ تھا کیونکہ سلوک و معرفت کا یہ محبتوں بھرا تحفہ اسی کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ مڑدہ دلنواز اسی کو سنایا گیا تھا۔ آخر خوشخبری پہ خیران کیوں ؟ جب یہ سوال تاریخ کے ورق الٹنے والے مؤرخوں سے کیا گیا تو جواب ملا اس وجہ سے کہ وہ انجان تھا اس ملک سے۔ جس کا مڑدہ سنایا گیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ شہر اجمیر کہاں ہے ؟ سمت سفر کیا ہو گی ؟ مدینہ سے مسافت کتنی ہے ؟ راستہ کے پیچ و خم کیا ہیں ؟ ابھی وہ انہی فکروں میں گم تھا کہ گنبد خضرٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے اس پر غنودگی طاری کر دی خواب میں محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے جمال جہاں آراء کے دیدار سے مشرف فرمایا اور ایک نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا۔ تمام بلا و امصار نگاہوں کے سامنے تھے شہر اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں۔ سرکار نے اپنے اس عاشق صادق کو ایک جنتی انار عطا فرما کر ارشاد فرمایا ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں آنکھیں کھولیں تو ہندوستان کا پورا نقشہ پیش نظر تھا۔ چنانچہ تعمیل آقا کے لئے چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کا رْخ کیا۔ سفر ہند :۔ مدینہ منورہ سے وہ عاشق صادق بغداد پہنچا جہاں کچھ دنوں مشائخین وقت سے صحبتیں رہیں پھر 586ھ / 1190ء کو بقصد اجمیر بغداد سے عازم سفر ہوا۔ دوران سفر چشت، خرقان، جہنہ، کرمان، استرآباد، بخارا، تبریز، اصفہان، ہرات، سبزہ وار ہوتا ہوا بلخ پہنچا جہاں کچھ ایام شیخ احمد خضریرہ کے یہاں قیام کیا۔ پھر بلخ سے روانہ ہو کر سمر قند ہوتا ہوتا غزنین پہنچا یہاں شمس العارفین عبدالواحد سے ملاقات کی اور کچھ دنوں روحانی صحبت گرم رہی پھر اپنے روحانی قافلہ کے ساتھ لاہور پہنچا حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور روحانی فیوض سے مالا مال ہوا جب روانہ ہونے لگا تو مزار مبارک پر یہ شعر پڑھا گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما دہلی میں آمد :۔ لاہور سے سمانا ہوتا ہوا ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے راج محل کے سامنے ایک بت کدہ کے پاس قیام کیا اور اپنے اعلٰی اخلاق و کردار، سادہ مؤثر نصیحتوں سے راج کھانڈے راؤ کے کاریگروں اور بہت سے راجپوتوں کو کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اسلام کا نور پھیلنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کی سر زمین پر مسلمانوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو گیا چونکہ اس مرد مجاہد کی منزل مقصود اجمیر تھی اس لئے اپنے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دہلی میں خلق خدا کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر عازم اجمیر ہو گیا۔ اجمیر میں آمد :۔ چند ثقہ مؤرخوں کے مطابق وہ مرد مجاہد 587ھ / 1191ء کو وارد اجمیر ہوا جہاں روز اول ہی سے باطن شکن کرامتوں کے ظہور نے ایک بوریہ نشیں درویش کی روحانی عظمت و قوت کا سکہ اہل اجمیر کے دلوں پر بٹھا دیا۔ اجمیر کے عوام و خواص کی کثیر تعداد شرک و بت پرستی کے قعر عمیق سے نکال کر فرمان باری تعالٰی ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کی ڈور سے منسلک ہونے لگی اور ایک وقت وہ آیا کہ شہر اجمیر کی پوری فضا کلمہ توحید سے گونجنے لگی۔ قبل ازیں کہ اس مرد خدا کی کچھ کرامتیں سپرد قرطاس کی جائیں نام و نسب اور ولادت و بچپن کا بیان بھی ضروری ہے۔ نام و نسب اور والدین :۔ تاریخ میں اس عظیم مرد مجاہد کا نام معین الدین بتایا جاتا ہے۔ جنہیں والدین پیار سے حسن کہا کرتے تھے اور غریب پروری کی وجہ سے غریب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ پدر بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ہے جو زہد و ورع، تقوٰی و طہارت میں ممتاز اور علم ظاہر و باطن سے بھی آراستہ تھے۔ یہ آٹھویں پشت میں حضرت موسٰی کاظم کے پوتے ہوتے ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب ہوں ہے: سید معین الدین حسن بن غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبد اللہ بن سید عبد الکریم بن سید عبد الرحمن بن سید علی اکبر بن سید ابراھیم بن امام موسی کاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی المرتضی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور مادر مہربان کا نام بی بی ام الورع ہے جو بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں یہ بھی بلند کردار، پاکیزہ باطن خاتون تھیں، عبادت و ریاضت آپ کا محبوب مشغل تھا۔ چند واسطوں سے یہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے حضرت خواجہ کی نجیب الطرفین سید کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ حضرت غوث اعظم کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک رشتے سے ماموں زاد ہوتے ہیں۔ ولادت، بچپن اور تعلیم :۔ حضرت خواجہ کی ولادت با سعادت 537ھ 1142ء کو موضع سنجر علاقہ سبحستان (جسے سبستان بھی کہا جاتا ہے) میں ہوئی۔ آپ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی اس لئے عام بچوں کی طرح آشنائے لہوو لعب نہ تھے۔ پیشانی مبارک پر لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ آگے چل کر غیر معمولی شخصیت اور فکر و عمل، صلاح و تقوٰی کا روشن مینار ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور بہت قلیل مدت میں کثیر علم حاصل کر لیا۔ انقلاب اور تلاش حق :۔ جب عمر شریف پندرہ سال کی ہوئی تو والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا ترکہ پدری سے ایک باغ اور ایک پن چکی ملی تھی جس کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا اور خوشگوار زندگی گزرنے لگی مگر قدرت نے آپ کو اپنی مخلوق کے دلوں کی باغبانی کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک دن ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے اور ایک کھلی کا ٹکڑا کھلا کر دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فوراً حضرت خواجہ نے باغ اور پن چکی بیچ کر اس کی قیمت فقرائمیں تقسیم کردی اور تلاش حق میں نکل پڑے۔ کئی مقامات سے گزرتے ہوئے قریہ ہارون پہنچے جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو اپنے حلقہ اردات میں داخل فرما کر اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اوپر عرش اعظم اور نیچے تحت الثرٰی تک دکھا دیا۔ بیس سال تک اپنے مْرشد کی خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ ایک دن پیرو مْرشد نے آپ کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر کیا۔ طواف و زیارت کے بعد ہاتھ پکڑ کر حق تعالٰی کے سپرد کردیا۔ جب زیر حطیم کعبہ مناجات کی تو ندا آئی ‘‘ہم نے معین الدین کو قبول کیا‘‘ بعد ازاں بارگاہ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر بحکم مْرشد حضرت خواجہ نے سلام عرض کیا تو روضہ انور سے اس طرح جواب ملا ‘‘وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر‘‘ یہ تو مْرشد برحق کے ساتھ کا واقعہ ہے لیکن جب دوسری مرتبہ اپنے مْرید خاص حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو ساتھ لیکر حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حرم کعبہ کے اندر یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ ہاتف کی آواز سنی ‘‘اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں، تجھے بخش دیا، جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کروں‘‘ اور جب روضہ انور کی زیارت کیلئے پہنچے تو یہ خوشخبری سنی ‘‘اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے ہندوستان کی ولایت میں نے تجھے عطا کی‘‘ یہی وہ بشارت عظمٰی ہے جس سے میں نے اپنے مقالہ کا آغاز کیا تھا، اب لگے ہاتھوں حضرت خواجہ غریب نواز رحم? اللہ تعالٰی علیہ کی چند بصیرت افروز کرامتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ کرامات خواجہ ہندالولی :۔ دوران قیامِ بغداد ایک دن خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ وحدالدین، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی ایک مجلس میں تھے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر ہو رہا تھا کہ سامنے سے ایک بارہ سال کا لڑکا ہاتھ میں ایک پیالہ لئے جا رہا تھا (دوسری کتابوں میں تیرو کمان کا ذکر ہے) جب بزرگوں کی نگاہیں اس پہ پڑی تو حضرت خواجہ نے فرمایا، یہ لڑکا ایک دن دہلی کا بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ یہی وہ لڑکا شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کا بادشاہ گزرا ہے۔
زیارتِ کعبہ :۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ ہر سال زیارتِ کعبہ کے لئے بقوت روحانی اجمیر سے تشریف لے جاتے تھے جب کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر شب بعد نمازِ عشاء کعبہ اللہ شریف تشریف لے جایا کرتے تھے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا فرماتے تھے۔ کرامات خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خادم ، انا ساگرجھیل سے وضو کے لئے پانی لینے گئے تو وہاں خلاف معمول راجہ کے سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ جب خادم نے کوزہ میں پانی بھرنا چاہاتوسپاہیوں نے سختی سے منع کردیا۔ خادم نے آکر جب سلطان الہند کو سارا ماجرا سنایا تو آپنے فرمایاکہ سپاہیوں سے کہو کہ اس مرتبہ ایک کوزہ پانی لے لینے دو پھر ہم اپنا کوئی اور انتظام کرلیں گے۔ عطائے رسول کے حکم پر جب خادم دوبارہ جھیل پر پانی لینے گیا توسپاہیوں نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ آج کوزہ بھر لو اس کے بعد تمہیں یہاں سے پانی لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔ چنانچہ خادم نے حضرت غریب نواز رحاا اللہ علیہ کے حکم کے مطابق وہ کوزہ بھر لیا۔ جیسے ہی سلطان الہند کے خادم نے کوزے میں پانی بھرا، راجپوت سپاہیوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے اور وہ یہ دیکھ کر تعجب میں پڑگئے کہ اناساگر جھیل کا سارا پانی ایک چھوٹے سے برتن میں سمٹ کر آگیااور جس جھیل پرسپاہی تکبر کر رہے تھے وہ پانی سے خالی ہو چکی تھی۔ ہندو قوم کے نزدیک یہ جادوگری کا ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا۔ یہ دیکھ کر راجپوت سپاہی وہاں سے خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے خادم بھی اپ کی خدمت میں واپس آئے اور آپ کوسارا واقعہ سنایا۔ پورے شہر اجمیرمیں ہنگامہ برپا ہوگیا، اناساگر جھیل کے خشک ہونے کی خبر سب کیلئے حیران کن تھی۔ پرتھوی راج مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے بہت پریشان تھا۔ اس کے مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ اس مسلمان فقیر کا مقابلہ ہندو جادوگر ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے شہر اجمیر کے چند معززین اناساگر جھیل کی سابقہ پوزیشن بحال کرنے کی استدعا لے کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگرجھیل کا پانی اسی طرح خشک رہا تو بہت سارے انسان پانی کے بغیر مر جائیں گے۔ خواجہ غریب نواز نے رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ تو حق کے نافرمانوں کیلئے ایک چھوٹی سی جھلک ہے، ورنہ ہمارا مذہب تو کسی بے زبان جانور کوبھی پیاس سے تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ یہ فرما کرخواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ برتن کا پانی تالاب میں واپس ڈال ائے۔جب کوزہ کا پانی آپ کے حکم سے جھیل میں ڈالا گیا تولوگ دیکھ کر یہ حیران رہ گئے کہ اناساگرجھیل ایک بارپھر پانی سے لبالب بھر گئی۔