جاوید جمال الدین
سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر ایک اہم ترین فیصلہ میں بلقیس بانو کے معاملے میں 11 میں سے 10، مجرموں کو کسی بھی طرح کی مہلت نہیں دیتے ہوئے کہا کہ ’’قصورواروں کی پیش کردہ وجوہات میں کوئی دم اور میرٹ نہیں ہے۔ ‘‘جسٹس ناگرتنا کی بنچ نے انہیں مقرر تاریخ کو حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔واضح رہے کہ گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کا شکار بنی تھی اور مقدمہ کے مجرموں کی جانب سے داخل کی گئی عرضی کی گئی کہ انہیں سرنڈر ہونے کے لیے مزید مہلت دی جائے۔
گجرات فسادات کے دوران 3، مارچ 2002 کو جب بلقیس بانو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ محفوظ مقام کی تلاش میں کہیں جارہی تھیں، احمداباد کے رندھک پور میں بھگواعناصر کی ایک بھیڑ نے ان پر حملہ کیا،ان کی شیر خوار بچی کا سردیوار سے ٹکرا کر اسے بے دردی سے مار دیا ، خاندان کے 7 افراد کوقتل کیا اور بلقیس کی اجتماعی ابروریزی کیبعد اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔اس معاملہ میں دسمبر 2003 طویل قانونی لڑائی کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں سی بی ائی جانچ کا حکم دیا۔21، جنوری 2008 کو مہاراشٹر میں منتقل کئے گئے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ایک خصوصی عدالت نے 11، مجرمین کو تاعمر قید کی سزا سنائی۔جبکہ 2011 بامبیہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا کے خلاف مجرمین کی اپیل خارج کردی اور پھر23 اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ بلقیس بانو کو 50، لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرے اور پھر اسی معاملہ 13 ،مئی 2023 کوسپریم کورٹ نے اس کیس کے ایک مجرم کی قبل از وقت رہائی کیلئے داخل کی گئی درخواست پر گجرات سرکار کو9، جولائی 1992کی پالیسی کے مطابق سماعت کا حکم دیا،لیکن 15 اگست2022 کو گجرات حکومت کی عام معافی کی پالیسی کے تحت عصمت دری کے ان گیاتہ مجرموں کو گودھرا جیل سے رہاکردیا گیا۔جس پر کافی واویلا مچاتھا،اس کے پیش نظر 30 نومبر 2022 کوبلقیس بانو نیمجرموں کی معافی اور رہائی کے گجرات حکومت کے فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور کہا کہ قبل از وقت رہائی نے’’معاشرے کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘اس لیے انہیں دوبارہ جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے۔گزشتہ سال ماہ دسمبر میں سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں اس کے13 مئی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی گئی تھی۔اس فیصلے میں ملزمین کی رہائی کے فیصلے کا اختیار گجرات حکومت کو دیاگیاتھا۔27مارچ2022 کو بلقیس بانو کی درخواست پرسپریم کورٹ نے مرکز، گجرات حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیا۔7،اگست 2023 ،مجرمین کی رہائی کے خلاف بلقیس بانو کی درخواست پر حتمی شنوائی کا ا?غاز ہوا۔سپریم کورٹ نے 12 اکتوبر2023 کو دو ہفتیکی سماعت کیبعد سپریم کورٹ نے اپنافیصلہ محفوظ کرلیا،لیکن۔ 8جنوری2024کو سپریم کورٹ نے تمام مجرمین کی معافی کو منسوخ کردیااور اسی کے ساتھ تمام مجرمین کو دو ہفتوں میں خود سپردگی کی ہدایت بھی دے دی۔اس معاملہ میں سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کسی بھی مجرم کی ایک نہ سنی اور انہیں فوری طور پر خودسپردگی کا حکم جاری کردیاگیا،ان دیدہ دلیر مجرموں نے بڑی ڈھٹائی سے عدالت میں پٹیشن داخل کرکے مطالبہ کیا کہ انہیں پولیس کے روبرو خودسپردگی کے وقت میں راحت دی جائے اور ان کی تاریخوں میں توسیع کردی جائے،لیکن عدالت نے جرات مندانہ اقدام کرتے ہوئیاس عرضی کو خارج کردیا بلکہ سپریم کورٹ کی جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس اْجول بھوئیاں کی بنچ نے کہا کہ قصورواروں نے جواسباب بتائے ہیں، ان میں کوئی دَم نہیں ہے اور نہ کوئی میرٹ ہے۔ اس فیصلے کے بعد سبھی رِہا کئیگئے قصورواروں کو واضح کردیا گیا ہے کہ وہ تمام کو21،جنوری تک خودسپردگی کرنی ہوگی۔
جسٹس ناگرتنا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے سبھی کے دلائل بغور سنے۔ درخواست گزار کے ذریعہ خود سپردگی کو ملتوی کرنے اور واپس جیل میں رپورٹ کرنے کیلئے پیش کی گئیں وجوہات میں کوئی دَم نہیں ہے۔ جو عذر پیش کئے گئے ہیں وہ قابل قبول ہو ہی نہیں سکتے۔ اس لئے عرضیاں خارج کی جاتی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ بلقیس بانو معاملے کے پانچ ?قصورواروں نے پہلے عرضی داخل کی تھی ،جس کے بعد مزید 5، مجرم اس اپیل میں فریق بن گئے،لیکن عدالت نے کسی کی بھی اپیل کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور یہ حکم جاری کردیا کہ کسی بھی مجرم کو کوئی رعایت نہیں ملے گی اور سبھی کوصرف دو، دن کے اندر ہی خود سپردگی کرناہوگی۔
دراصل عدالت عظمیٰ نے حال ہی میں گجرات حکومت کے ذریعہ سزا میں دی گئی چھوٹ کو منسوخ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ سبھی رِہا کئے گئیقصوروار دو ہفتے کے اندر جیل میں خود سپردگی کریں۔ یہ مدت کار 21،جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔فیصلہ صادر ہونے کے بعد بلقیس بانو کیس کے کچھ قصوروار اپنے گھروں سے فرار بھی بتائے گئے تھے اور پھرچند نے صحت، اپریشن، خاندان میں شادی وبیاہ اور فصلوں کی کٹائی کا حوالہ دیتے ہوئے خود سپردگی کی مدت کار بڑھانے کی گزارش سپریم کورٹ سے کی تھی۔اس سلسلہ میں جسٹس ناگرتنا خاصی برہم بھی ہوئیں اور ان کی وجوہات کوناقابل قبول قراردیا اور ان میں سماعت کیلئے کوئی میرٹ نہیں ہے۔ بلقیس بانو کیس ملک میں ممتاز حیثیت رکھتاہے بلکہ ان کی شخصیت کو بھی ممتاز بتایاتھا۔
یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے لئے انصاف کی لڑائی لڑی بلکہ دوسروں کو واضح کیا کہ انتہائی ابتر حالات میں بھی ہمت نہیں ہارا جائے۔ ملک میں فی الحال جوحالات پیدا ہوئے ہیں سپریم کورٹ کافیصلہ امید افزائ ہے، بلقیس کو وہ انصاف ملا ہے،اس میں تاخیر ضرور ہوئی ہے۔لیکن اس معاملہ میں معمولی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا۔سیاست کے غلط استعمال کی وجہ سے حق چھیننے کی کوشش کی گئی۔اس فیصلہ شرپسندوں کو عریاں کردیا۔اس معاملہ میں گجرات فساد کے دوران انسانیت کو شرمسار کردینے والے ان مجرمین کے ساتھ کھڑے تھے اوراب بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کافیصلہ تاریخی نوعیت کا حامل ہے۔ دورکنی بنچ نے بلقیس بانو کے ساتھ ہونے والے ظلم کے پس منظر میں کہا ہے کہ ’’سماج میں کسی خاتون کوکتنا ہی اعلیٰ یا ادنیٰ سمجھا جاتا ہو، وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو یاکسی بھی ذات سے ہو، احترام کی مستحق ہے۔کیا خواتین کے خلاف انتہائی سنگین اور گھناونے جرائم کیمجرموں کو ان کی سزا میں کمی یا وقت سے پہلے رہائی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
اس لئے یہ فیصلہ بھی دستاویزی حیثیت رکھتا ہے کہ جسٹس بی وی ناگرتناا ور جسٹس اْجَل بھویاں نے تقریباً ڈھائی سو صفحات کے اس فیصلے میں جہاں طرفین کے دلائل کو تفصیل سے پیش کردیا ہے وہیں بلقیس بانو کے ساتھ پیش انے والے درد انگیز واقعات اور پھر اْن کی قانونی جدوجہد کو بھی تفصیل کے ساتھ شامل کیا ہے۔22 سال پرانی تلخ یادیں ہیں، بلقیس جو اْس وقت 5 ماہ کی حاملہ بھی تھی،صرف ابروریزی کا شکار نہیں ہوئی تھیں بلکہ اس کی انکھوں کے سامنے ان کی والدہ اور بھابھی جن کی دو روز قبل ہی زچگی ہوئی تھی کو بھی بھگوا جنونیوں نے ا?بروریزی کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مارے گئے۴۱ افراد میں ۸ بچے تھے جن میں بلقیس کی بھابھی کا دوروز کا بچہ بھی تھا۔خود بلقیس کو نہ صرف بے ابرو کیاگیا بلکہ ان کا پانچ ماہ کا حمل ضائع ہوگیا اور ان کی انکھوں کے سامنے ان کی تین سال کی بیٹی کا سر دیوار سے ٹکرا کر مار دیاگیا۔ حیرت انگیز طورپر
گجرات پولیس نے جانچ کے نام پر متاثرین کے ساتھ جو بھونڈا مذاق کیا،اس کا حوالہ بھی فیصلے میں دیاگیا ہے۔مذکورہ کیس کو 2003 میں ہی پولیس نے بند کردیا اور پھر انصاف کیلئے بلقیس کو سپریم کورٹ تک کا دروازہ ایک بار نہیں کئی بار کھٹکھٹانا پڑا۔ طویل جدوجہد کے اس کے بعد مجرمین کوممبئی میں سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی جس کی نہ صرف بامبے ہائی کورٹ نے توثیق کی بلکہ سپریم کورٹ نے بھی مہر لگادی، مجرمین مہاراشٹر سے گجرات کی جیل میں منتقل کردیئے گئے۔ سزا کے تقریباً ساڑھے چودہ سال مکمل ہوتے ہی مجرم نمبر رادھے شیام بھگوا ن داس شاہ اپنی رہائی کیلئے اپیل دائر کردی۔ مہاراشٹر سرکار نیاس پر سی بی ائی ‘ اور مقدمہ کی سماعت کرنے والی سی بی ائی کی خصوصی عدالت کی رائے طلب کی۔ سی بی ائی نے رہائی کی مخالفت کی کہ جرم کی نوعیت انتہائی سنگین ہے اور مجرم نے اس میں متحرک رول دا کیا ہے۔ سی بی ائی کورٹ نے بھی منفی رپورٹ دی جس کے بعد مہاراشٹر سرکار سے قبل از وقت رہائی کا حکم صادر ہونے کے امکانات معدوم ہوگئے۔لیکن مقدمہ کے گجرات منتقل ہونے کے بعد حکومت گجرات نے انہیں گزشتہ سال یوم آزادی کو رہا کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ ہے اور اس پرعمل بھی ہونا چاہئیے۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو معاملہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
[email protected]
9867647741