خواجہ معین چشتیؒ کے812ویں عرس کے موقع پر سمپوزیم کا انعقاد
لازوال ڈیسک
اجمیر؍؍صوفی بزرگ خواجہ معین چشتیؒ کا 812واں سالانہ عرس بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا گیا۔ اسی مناسب سے ہر سال کی طر ح اس سال بھی محفل خانہ آستانہ شریف میں62ویں سمپوزیم کا انعقاد کیاگیا۔ جس میں برصغیر سے تمام علماء ومشائخ اور سجادہ نشین نے کثیر تعدادمیں شرکت کی۔ سمپوزیم میں شریک سجادگان نے ملک میں خواجہ غریب نوازؒ کی تعلیمات ،بھائی چارہ، یکجہتی ،امن وامان کی فضا قائم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں نے جو امن کا پیغام عام کیا تھا، موجودہ حالات میں اس کو برقراررکھنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔سمپوزیم کا آغاز عبدالقادر صابر میرٹھی کی تلاوت قرآن پاک اور نعت رسولؐ سے کیاگیا۔اس موقع پر خواجہ کے شاہی قوال نے قوالی پیش کرکے سب کا دل جیت لیا۔ خطبہ استقبالیہ قبلہ حمزہ میاں چشتی نے پیش کیا۔خطبہ استقبالیہ کے بعد رسالہ معین چشت کا اجراء قبلہ شیخ العالم سے شائع ہوئی۔ شیخ العالم خصوصی شمارہ نمبر بہ عنوان ’غریب نواز اور رسالہ معین چشت ‘بہ عنوان’ حمد ونعت ومنقبت وتاریخ گوئی‘ ان دونوں رسالوں کا اجراء صاحبزادگان سجادہ نشین اور مشائخین کے دست مبارک سے ہوا۔پروگرام کی صدارت صاحب زادہ سید علی حمزہ چشتی گدی نشین خواجہ غریب نواز ؒ اور صدر فاؤنڈرزاویہ چشتی نے کی۔پروگرام کی نظامت کے فرائض پیرزادہ عیاض الدین چشتی عرف رئیس میاں ، سجادہ نشین ، درگاہ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ، فتح پور سیکری نے انجام دیے۔اس موقع پر انہوں نے خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا۔اس موقع پر تقریر وعظ وپند کے لیے قبلہ شاہ عمار احمد عرف نیر میاں سجادہ نشین درگاہ شیخ العالم شاہ احمد عبدالحق رودولوی کو مدعو کیا۔ آپ نے مشائخین چشت اور حضور غریب نواز کی تعلیمات کو دنیا بھر میں ایک بار پھر عام کرنے کرنے کی خانقاہی لوگوں سے اپیل کی اور کہا کہ اس دور میں ہم سلسلہ چشتیہ کی روایت سے بھٹک گئے ہیں، آج کی خانقاہی نظام صرف فاتحہ،چادر ،لنگر تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے،جس سے سب سے بڑا نقصان سلسلہ چشتیہ کا ہو اہے۔یہ کیسے ہوا ہے اور اس کا حل کیسے ہوگا اور خانقاہی برادران کو اصل خانقاہی نظام کی طرف سے کیسے لوٹایاجائے گا،یہ جو سمپوزیم ہورہا ہے اگر اس سے خانقاہی نظام کو چشتیہ سلسلے کی طرف لانے میں کامیابی ملی تو یہ سب سے کامیاب پروگرام ہوگا، اصل میرامقصد یہ ہے کہ سلسلہ چشتیہ کو اصل احیاء کی طرف کیسے لے جایا جائے،ہمیں ضرورت ہے کہ اپنے خانقاہوں میں بڑے مدارس اور بڑے مکاتب قائم کریں۔تاکہ ہمارے بزرگوں کی تعلیمات کو پوری دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک نظام قائم کیاجاسکے۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ آج خانقاہوںمیں بیٹھے حضرات صوفیہ کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، جس سے سلسلہ چشتیہ کی روایت کو بڑا نقصان ہورہا ہے،آج لوگ صوفیہ کی تعلیمات کو عام کرنے کی بات کہہ رہے ہیں ،ہم اس صورت حال میں کس طرح لوگوں تک صوفیہ کی تعلیمات کو پہنچائیں یہ ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے،اگر ہم دل میں عہد کرنا ہے کہ اصل چشتیہ کی طرف ہمیں پھر لوٹنا ہے تو ہم سب کو مل جل کر اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر کام کرنا ہوگا۔اس موقع پر کچھوچھہ شریف سے قبلہ عمار اشرف سجادہ نشین حضور جہانگیر اشرف سمنانی نے بزرگان دین کی زندگی پر مشتمل واقعات سناکر سامعین کے دلوں کو منورکیا۔اس موقع پر دہلی سے تشریف لائے نظام الدین حلیمی اور ان کے صاحبزادے فرید حسن حلیمی نے بارگاہ غریب نواز میں منقبت کے ذریعہ اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا، بھاگلپور سے تشریف لائے اشتیاق عالم کے صاحبزادگان اپنی اپنی منقبتیں پیش کیں۔ حمزہ میاں چشتی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ اللہ کا شکرہے کہ یہ محفل گزشتہ 62سالوں سے جاری وساری ہے، اس بارگاہ سے ہندوستان کے گوشے گوشے تک خواجہ غریب نوازکی تعلیمات ،یکجہتی ، امن وامان ،حسن واخلاق، تقویٰ اوربھائی چارہ کا درس دیاجارہاہے ،آج برصغیر کے تمام لوگ جو غریب نواز سے عقیدت رکھتے ہیں،اس بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں،یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم حضرات نے کس طرح تصوف کو ظاہری اہمیت کا حامل بنادیا ہے اور اپنے بچوں کوتصوف کی تعلیمات سے کوسوں دورکردیا ہے۔پروگرام کا اختتام حمزہ میاں چشتی کے شکریہ اور ملک میں امان وامان کے دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔