پروفیسر اسلم جمشید پوری میرٹھ
اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھر میں پیدا کیا۔ہمیں مذہب ِ اسلام کی دولت ِ وحدانیت سے مالا مال کیا۔ہمیں سجدہ کرنے والا بنایا۔مصیبت میں صبر اور خوشی کے وقت شکر ادا کرنے والا بنایا۔اپنے محبوب کا پیرو کار بنایا اور ان کے نقش ِ قدم پر چلنے کی تو فیق عطا کی۔
ہم لوگ پیدائشی مسلمان ہیں۔ہم میں بہت کم ،آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ہیں جو مذہب ِاسلام کا مطالعہ کرنے اورمتاثر ہونے کے بعد اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ایسے لوگوں سے مساجد،مدارس اور قبرستان کی اہمیت پوچھئے۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم میں مساجد،مدارس اور قبرستان کی اہمیت نہیں ہے ۔مگر ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم ان سے کتنااستفادہ کر رہے ہیں۔
مساجد اللہ کے گھر ہیں۔ان کی حفاظت ہمارا دینی فریضہ ہے۔ہر شہر میں درجن بھر مساجد ہیں،جن کی حفاظت ،دیکھ ریکھ اور سارا انتظام ہماری ذمہ داری ہے۔ان مساجد سے پنج وقتہ اذان ،فرض نماز، جمعہ،تراویح،عیدین،کے فرائض ادا ہوتے ہیں۔یہ مساجد نماز کے علاوہ اللہ اور اس کے محبوب حضرت محمد ﷺکے بیان اور ذکر سے منور رہتی ہیں۔مسلم آبادی سے گھری مساجد میں کے مسائل کچھ اور ہیں۔ان میں سے بہت سی مساجد کی مستقل آمدنی ہے۔یہاں جو کمیٹی کام کرتی ہے،وہ آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی ہے۔یہاں جھوٹی شان کے لئے بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔امام اور موء ذن کو بلا وجہ ہٹا دیا جاتا ہے۔الزام یہ ہوتا ہے کہ اس نے صدر،سیکریٹری،کمیٹی اراکین کی بات نہیں مانی۔کوئی یہ بھی دیکھنے والا نہیںکہ بات جائز تھی یا جھوٹی شان کا مظہر۔اسلام میں امام کی وقعت کا کیا کہنا۔وہ بستی کا سرداد ہوتا ہے۔اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کوئی کام اسلام کے خلاف نہ کرے اور بستی والوں کو بھی آگاہ کرتا رہے۔
ایسی مساجد جو مسلم آبادی میں نہیں ہوتیں۔ان کی حفاظت ،انتظام اور آمد کا خیال رکھیں۔غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ملک کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔امام کے علاوہ کسی کو منبر پر تقریر کی اجازت نہ دیں۔ہاں امام کی منظوری کے بعد اجازت دی جا سکتی ہے۔یہ بھی خیال رکھیں ،اس مسجد کا اندراج سرکاری رجسٹروں میں ضرور ہو۔ماحول اور آس پڑوس کا بھی خیال رکھیں۔مصلحت سے کام لیں۔مسجد کی صفائی ستھرائی کا بہت زیادہ خیا رکھیں۔
مدارس اس پر فتن دور میں اللہ کے دین کے محافظ ہیں۔اپنے بچوں کو یہاں ابتدائی تعلیم ،اسلامی تعلیم ضرور دلائیں۔تا کہ آپ کے بچے دینی تعلیم سے بھی آراستہ ہو جائیں۔آج کے ماحول میں دینی تعلیم بے حد ضروری ہے۔مدارس کی حفاظت اور دستگیری بے حد ضروری ہے کہ ان مدارس کی آمدنی آپ پر منحصر ہے۔دل کھول کر ان کی امداد کریں۔ان مدارس میں نہ صرف دین کی حفاطت ہوتی ہے بلکہ اردو زبان کابھی فروغ ہوتا ہے۔مدارس دین کے قلعے ہیں،ان سے دینِ اسلام کی روشنی پھوٹتی رہتی ہے۔لیکن سال میں ایک بار ان کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ ہر گذرے برس سے آنے والے برس میں ترقی کو پہچانا جا سکے۔محاسبہ کرنے والی ٹیم متقی اور پرہیز گار لوگوں کی ہو ور ٹیم میں بڑے مدارس کے ذمہ داران شامل ہوں۔
موت پر کسی کا بس نہیں۔مرنے کے بعد مسلمانوں کق قبرستا ن میں دفن کیا جا تا ہے۔اس لئے مسلم آبا دی کے پاس قبرستان ضرور ہونا چاہیے۔ قبرستان کی حفاظت ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔بہت سے قبرستان بہت اہم مقام پر ہیں،ان کی زمین کی قیمت لاکھوں،کروڑوں نہیں اربوں روپے ہے۔ان قبرستانوں پر غیروں کی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ہماری ذرا سی بے توجہی اور غفلتبڑا نقصان نہ کرادے۔تمام قبرستانوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔قبرستان خواہ کسی برادری کو ہو،آبادی میں ہو یا غیر وں کے درمیان ،وشش کریں ان کی چہار دیواری ہوجائے۔چہار دیواری کے لئے سرکار کی طرف نہ دیکھیں۔آپسی چندے سے اس کا انتظام ہو سکتا ہے۔آج کے پر آشوب زمانے میں قبرستانوں کی حفاظت ،ایک چیلیج ہے۔
مساجد ہوں ،مدارس یا قبرستان ان سب کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ہر شہر ،قصبے اور گائوں میں ایک کمیٹی ہو جو مساجد،مدارس اور قبرستانوں کی الگ الگ فہرست بنائے اور کیفیت کے کالم میں حساس لکھیں۔اس کمیٹی کی ذمہ داری مساجد کمیٹی ،مدارس کے ذمہ داران اور قبرستان کا امور دیکھنے والوں سے رابطہ کرنے کی ہوگی۔ان کے مسائل کا حل بھی نکالے۔اس طرح ہمیں ہر شہر،قصبے اور گائوں میں مساجد ،مدارس اور قبرستان کی صحیح تعداد اور صورت ِ حال کا انازہ ہو گا۔صوبائی سطح اور قومی سطح پر بھی ایسی کمیٹیاں ہوں۔شہر ،قصبہ اور گائوں کی کمیٹیاں ،صوبائی کمیٹی کو باخبر کریں،صوبائی کمیٹیاں قومی کمیٹی کو باخبر کریںتاکہ قومی سطح پر کوئی منصوبہ بنایا جا سکے۔یہ کمیٹی مدارس میں جا کر وہاں پڑھائے جانے والے نصاب کو بھی دیکھے۔دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم خاص کر انگریزی ،کمپیوٹر،حساب وغیرہ کی بھی پڑھا ئی ہو،خواہ یہ تعلیم پوری نہ ہو لیکن اتنی ضرور ہو کہ مدارس سے فارغ طلبہ اپنا کام خود کر سکیں۔
آج ایسا ماحول ہوگیا ہے کہ مساجد کو آباد کرنا ہمارا فرض اور وقت کا تقاضا بھی ہے۔ ،مدارس کو آباداور ان کی دستگیری کرنا،ساتھ ہی قبرستانوں کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔غیر لوگ ایک ایک کر کے سجدوں کے ترستی مساجد پر قبضہ کرتے جائیں گے ۔اگر ہم نے وقت رہتے ایسا نہیں کیا تو بقول علامہ اقبال:
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں