تعریف پہ تعریف ، وہی پرانا چلن

0
0

محمد اعظم شاہد

 لاکھ برائیاںہوں، ہزاروں خامیاں ہوں ، مگر چاہنے والوں کی زبان سے تعریفیں ہی تعریفیں نکلتی ہیں، ایسی تعریف کو چاہت بھری نظروں کا عمل ہی کہہ لینا چاہئے ، وہ جس کی ستائش میں زمین و آسمان ملائے جا رہے ہیں، اس نے کسی کو کچھ کیا ہو یا کچھ بھی نہیں کیاہو ، مگر تعریفیں کرتے جن کی زبان کبھی نہیں تھکتی ، ان کیلئے تو خاص عنایتیں اور کرم فرمائی ہوتی رہتی ہے ۔ کورونا وباء کے دوروان کئی صنعتکار اور چھوٹی چھوٹی تجارتیں کرنے والوں کا دیوالیہ نکل گیا تھا، تجارتی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئی تھیں، مگر ادانی اور امبانی گروپ جن کا تعلق گجرات سے رہا ہے، ان دونوں صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کی دولت میں اس ہیبت ناک وباء کے دوران بھی دن دوگنی رات چوگنی اضافہ ہوتا رہا ، اور یہ دونوں اپنے کرم فرما وزیر اعظم مودی کے خاص کرم اور عنایتوں سے ملک کے امیر ترین سرمایہ داروں میں شما رہونے لگے ۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی ان سرمایہ داروں کی سرپرستی مرکزی حکومت کرتی رہی ۔ عالمی سطح پر جب بھی ملک میںکوئی تجارتی فروغ کیلئے نمائندہ اجلاس منعقد کیا جاتا ہے ، ان دو خاص سرمایہ داروں کو ملک کی صنعت و تجارت کے کامیاب نمائندوں کے طور پر پیش کیا جاتا رہاہے، گجرات سے تعلق رکھنے والے مودی اپنے گجراتی سرمایہ داروں کی ترقی میں اپنا ممکنہ رول ادا کرتے رہے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے گجرات کے گاندھی نگر میں سالانہ ’’ وائبرینٹ گجرات ‘‘ ( متحرک گجراتی مرکز گجرات ) کے عالمی کنونشن میں جہاں کئی ممالک کے سربراہ شامل تھے، اس کنونشن میں ملک کے کئی ایک کامیاب بزنس مین شریک تھے، جنہوں نے اپنی تجارتی پیشرفت اور کامیابی کو مودی کے کامیاب طرز حکومت اور عالمی سطح پر پرائم منسٹر کی گلوبل لیڈر شپ امیج کو اہم وجہ بتایا۔ یعنی جس طرح کا نعرہ مشہور کیا جا رہاہے ، کہ ’’ مودی ہے تو ممکن ہے ‘‘ یعنی تُو ( مودی ) ہے تو سب کچھ ممکن ہے ، جو تُو نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایسی سوچ کو شعوری طورپر ہر شعبہ ہائے حیات میںمسلط کیا جا رہا ہے ۔ یعنی ملک کی ترقی اور کامیابی صرف ایک فرد واحد کی کرشماتی قیادت ( لیڈر شپ ) سے ہی ممکن ہے ، جتنے بھی توجہ طلب بنیادی مسائل بھلے ہی اب ان پر توجہ نہ رہی ہو، عام آدمی کی زندگی میںکسی بھی طرح کا بدلاؤ آیا ہو کہ نہیں۔ اس سے کوئی مطلب نہیں ۔ مطلب صرف یہ ہے کہ بھارت کو پوری دنیا کا سربراہ ’’ وشواگرو ‘‘ منوایا جائے ۔ کئی ایک عالمی سلگتے مسائل پر ملک کی حکومت کس قدر خاموش اور مستعد رہتی ہے ، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
گجرات کے تجارتی عالمی کنونشن میں خود کو گجراتی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہوئے مکیش امبانی نے اپنے توصیفی خطاب میں کہا کہ ملک کی تاریخ میں اب تلک مودی جیسا کوئی بھی وزیر اعظم بھارت کو نہیں ملا ۔ مودی اپنی فراست اور لگن سے ہر ناممکن کو ممکن بنانے میں مہارت رکھتے ہیں، گوتم ادانی بھی اسی ریاست سے آتے ہیں، جہاں سے مودی کا تعلق ہے ۔ ادانی جن پر حکومت کی خاص نظر کرم ہے اور سرپرستی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ اس ادانی نے بھی مبالغہ آرائی میںکوئی کسر باقی نہ رکھتے ہوئے اقرار کیا کہ مودی کی قیادت میں گجرات، بھارت کے مستقبل کی ترقی کیلئے گیٹ وے ( اہم داخلہ دروازہ) ہے، کھل کر اپنے محبوب وزیر اعظم کی تعریف کرنے کا موقع عالمی کنونشن میںہر کسی کو کہاں میسر آتا ہے ، ایسے میںان دو سرمایہ داروں نے جتنی سرپرستی اور جس قدر سہولیات اپنے کاروبار کے پھیلانے کیلئے موجودہ حکومت سے حاصل کئے ہیں، اس حقیقت کا اعتراف انہوں نے برمحل دنیا کے سامنے پیش کرکے گویا اپنا حق ادا کردیا ہے ۔
فی زمانہ ہر حکومت کو مرکزی سطح پر ملک میں ترقی کے دھارے میں بلا تفریق سب کو حصہ دار بنا کر ملک کی دولت اور آمدنی کی مساویانہ تقسیم Equitable distribution کو یقینی بنانے پر خاص توجہ دینا ضروری ہوتا ہے ، مگر پچھلے برسوں سے ملک میں بسنے والے لوگوں کے معیار زندگی میں آپسی فرق بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے ، معیشت ( اکنامی ) امیر اور غریب کی بڑھتی خلیج سے دوچار ہے غریب اپنے حالات سدھارنے میںناکام رہا ہے جبکہ سرمایہ داروں کی سرپرستی کرنے والی حکومت میں امیر صنعتکار ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی بلندیاں سر کر رہے ہیں اور ویسے یہ عین واضح ہے کہ انتخابات ریاستوں میں اسمبلی کے ہوں یا ملک کے پارلیمان کیلئے ، یہاں اخراجات کی بھرپائی سرمایہ داروں کی جانب سے بھی ہوتی رہی ہے ۔ یعنی یہ ہاتھ لے وہ ہاتھ دے ، حساب برابر ، اس طرح کی روش جب عروج پر ہو تو اس ملک کا کیا مزاج ہوگا، کیا ماحول ہوگا ۔ عوام سے کئے گئے وعدے پورے ہوتے ہوتے وعدے کرنے والے بھول جاتے ہیں، یا پھر عوام کی توجہ دیگر معاملات میں الجھا کر بھلا دئے جاتے ہیں۔ بے روزگاری دور کرنے کے وعدے، کالا دھن بیرونی ممالک کے بینکوں سے لاکر مستحق عوام میں تقسیم کرنا، ہر ایک کے اکاؤنٹ میںپیسہ جمع کرنا… اور فہرست طویل ہے وعدوں اور اعلانات کی ۔ اکثر ان وعدوں اور اعلانات کو محض ایک ’’جملہ‘‘ کہہ کر وعدہ کرنے والوں نے وعدوں کو بے وقعت کردیا ہے ، گن گان کرنا اپنے مقصد کو پورا کرنے کا پرانا چلن ہی تو ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا