ترجمہ:۔نہاں نورین ریسرچ اسکالر سینٹرل یونیورسٹی حیدر آباد
(کرشنا دیوراے کے زمانے کا دلت سفیر)
تلگو نثری نظم کا اردو ترجمہ
میں وہ شخص ہوں جو ایک غم کی صدی سے تعلق رکھتا ہوں
جس نے کبھی یہ نا جانا کہ احساس مسرت کا تجربہ کیا ہے
جس کی زندگی میں صرف تاریکی ہے
جس کی پیدائش ایسی ذات میں ہوئی جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے
اور جس کا خود کوئی نام نہیں ہے
جو ایک گندے پانی کے مانند ہے. وہ پانی جسے لوگ چھونا تک پسند نہیں کرتے
میں ایک پتھر ہوں لیکن ایک گندے کپڑے میں چھپا ہوا ہوں
پر ہوں تو آخر انسان
وہ انسان جو بے حس دنیا میں پیدا ہوا ہے
جس میں نا تو کوئی ڈر ہے نا کوئی خطرہ
میں ایک موچی ہوں ایک تانترک ہوں
یا یوں کہوں تو موتی کی ایک مالاہوں جسے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے
ہاں میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں ب±ھولا ہوا ہوں جو بھگوان وشنو کے خیال میں ہوں
میرے بھگوان جو دودھ کے سمندر میں سوے ہوئے ہیں
مگر میری اوقات ایک قطرے جتنی بھی نہیں
میں ایک معصوم بچہ ہوں جسے ایک سیاہ اڑدھا نگل چکا ہے
میں نے اپنا سب کچھ کھویا ہے
میرے پاس جسم چھپانے تک کے لیے کچھ نہیں ہے
ایک ساری تک نہیں ہے
صرف ایک سوتی کپڑا لپیٹے جتنا جس سے میں اپنا بدن چھپا سکتا ہوں
جو صرف ایک دھوتی کے برابر ہے
میرا ایک میٹھا چہرہ ہے
جو سولہویں صدی سے تعلق رکھتا ہے
اور میرے ساتھ میرے سر سے بہتا ہوا خون ہے
میں خود اپنی مثال آپ ہوں
جس کے آنکھوں میں آنسوو¿ں کا تالاب ہے
ہاں میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا شخص ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں
اے ذات کے رکشک والے، اے دیکھ بھال کرنے والے
ہماری حفاظت فرما ہمارے محلے کی حفاظت فرما
ہمارے محلے جو جنگل کی طرح بکھرے ہوئے ہیں
جس کا نا کوئی وزیر ہے نہ کوئی صدر
ہماری ایک غریب جھونپڑی ہے
جس میں کبھی کسی نے قدم تک نا رکھا
نا کسی کی ڈولی ہمارے محلے میں آئی
نا کوئی دعوت یا تقریب ہمارے محلے ہوئی
نا کسی نے ہمیں اپنے گھر ہمیں بلایا
ہاں میں وہی شخص ہوں جو ایک غم کی صدی سے تعلق رکھتا ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں…
لوگوں کے خیال میں ہم بے رنگ لوگ ہیں
جس سے کوئی ملنا تک پسند نہیں کرتا
میرے اور مندر کے درمیان ایک بڑی دیوار ہے
جسے کوئی توڑ نہیں سکتا
ہمارے محلے کا کوئی راستہ نہیں ہے
نا ہی کوئی پھول ہے جو ہمارے چمن میں کھل سکے
نا ہی کوئی ایسا ہوٹل ہے جس میں ہم جاکر کھا سکے
نا ہی کوئی کمیونٹی ہال ہمارے لایق ہے
کیونکہ ہم ان کی نظر میں بھی جنگلی لوگوں کے برابر ہے
ہمارے محلے کی تاریخ گواہ ہے کہ
ہم نے کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا
لیکن کسی نے ہمارا خیال نہیں کیا
ہماری اہمیت ایک گاے کے گوبر کی مانند ہے
جو صرف و جہانگیر کے دیواروں پر ہے
تاریخ گواہ ہے کہ نا کسی نے ہماری مدد کی
نا ہمیں آگے بڑھایا
ہماری بھی ایک سنہری تاریخ ہے جو ہم گوا چکے ہیں
جو سولہویں صدی کا گذرا ہوا کل ہے
سنہری تاریخ سے تعلق رکھنے کے بعد بھی ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے
کیونکہ ہماری ذات ادنی ہے
ہمارا کوئی مدد گار نہیں
ہمارا کوئی پرسان حال نہیں
کرشنا دیوراے کی سلطنت میں لوگ صرف بڑی ذات کو دیکھتے ہیں
جھوٹے لوگوں کی مدد کرتے ہیں
جو برہم راکشس کی پوجا کرتے ہیں
جو چور صرف چور ہے
ہاں میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا شخص ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں…
او راجا کرشنا رائے
کیا میں نے کبھی مندر میں قدم رکھا ہے
وہ مندر جو بھگوان وامانا کی ک±رم گ±ڈی مندر
وہ مندر جس میں سب کو آنے کی اجازت ہے
اور وہاں کا پانی جس سے ہر گناہ دھویا جاسکتا ہے
پھر ہم نے ایسا کیا گناہ کیا جس کو دھویا نہیں جاسکتا
اے بھگوان منّار سنو مجھے
تم خاموش کیوں ہو
ابھی کچھ تو بولو تمہیں کس کا ڈر ہے
جیسے کہ تم نے کوئی بھیانک چیز دیکھی ہے
بھگوان رانگا ناتھ آچکے ہیں
اور مجھے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے
میرے حضور کرشنا دیوراے
میں کھڑا ہوا ہوں آپ کے مندر کے سامنے
مجھے اندر آنے کی اجازت کب ملے گی
ہاں میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا شخص ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں…
اور وہ وقت جو جلا ہوا کڑوا اور خراب ہے
اور میری سونچ کو برتن کی طرح بازار میں بیچ دیا ہے
بنا کسی خوف اور احساس کے
اچھائی اور سچائی کے سمندر میں
وہ سبھی گیت جو میں گاتا ہوں. وہ ایک پتھر کے ٹکڑے پر لکھے ہوے ہیں
ایک عزت دار شاعر انّامایا کی طرح جس نے مجھے بنایا ہے
جس کے لیے آج بھی تاریخ گواہ ہے
لیکن میرا ہنر جل چکا ہے
میری کاریگری اب صرف ایک راکھ کی طرح ہے
اور اس کے ساتھ بھی برا برتاو¿ کرتے ہیں
جو ایک بھاپ کی طرح ا±ڑتا جارہا ہے
ہاں میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا شخص ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں…
ایک عزت دار آدمی ہوں اس کے باوجود ایک بے کار جنگل میں رہتا ہوں
ہم اندھیرے میں رہنے والے لوگ ہیں جسے کسی نے موقع دیا تو
ہم آسمان کو زمین پر لاتے
گھر کی کسی قیمتی چیز کی طرح وجیانگر کے راجا نے ایک قیمتی گایک کھویا ہے
لوگ ہمارے آنسوو¿ں کو دیکھ کر نظر انداز کر رہے ہیں
اور ہمارے درد دل کا مزاق اڑاتے ہیں
ہمارے آنسو بھی اب چاندنی کی طرح چمک رہے ہیں
جس کی چمک نا جانے کب ختم ہوگی
ہاں میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا شخص ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں……