منور رانا کا اردو ادب کو بیش بہا تحفہ

0
0

سید واصف اقبال گیلانی

14 جنوری 2024ئبروز اتوار، اردو ادب کے روشن چراغ، ادیب، شاعر اور غزل گو منور رانا اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ 71 سال کے تھے اور کچھ عرصے سے گردوں اور گلے کے انفیکشن سے لڑ رہے تھے۔ ان کی رحلت اردو ادب کے لیے ایک عظیم نقصان ہے جس کی تلافی مشکل ہے۔ منور رانا 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن سے حاصل کی اور پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا رجحان شعر و سخن کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنی غزل گوئی سے نہ صرف اردو ادب کو بلکہ اردو زبان کو بھی عام آدمی کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک سوال یہ ہے کہ ہم شاعروں کو کیوں پڑھیں یا جانیں یا خراج عقیدت پیش کریں؟ یہ سوچنا ہی عجیب ہے، جیسے یہ سوال ہواؤں سے پوچھو کہ کیوں چلیں؟ یا دریا سے کہ کیوں بہیں؟ شاعری روح کی غذا ہے، جذبات کا نغمہ ہے، زندگی کی حقیقت کو الفاظ کے جادو سے سجانا ہے. شاعر ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا فن سکھاتا ہے، احساسات کی گہرائیوں میں گم ہونے کی دعوت دیتا ہے. وہ ہمیں بتاتا ہے کہ غم بھی گیت بن سکتا ہے، تنہائی بھی راز کی طرح منہ بولتی ہے. اس کے الفاظ مسکراتے ہیں تو پھول کھلتے ہیں، روتے ہیں تو بارش برساتی ہے.شاعری ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے، زمانے کی سچائیوں سے آشنا کرتی ہے. وہ ہمیں اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کی طاقت دیتی ہے، محبت کی وسعتوں کا سفر کرواتی ہے. اپنے سے ہٹ کر دوسروں کو سمجھنے کا درس دیتی ہے، انسان ہونے کی حقیقت کا احساس جگاتی ہے۔ یہاں تک کہ غزل کی بیقاعدہ تال میں ہم زندگی کی بیقاعدگیوں کو قبولنا سیکھتے ہیں، رباعی کی مختصری حکمت میں زندگی کا نچوڑ سمجھتے ہیں۔ ہر شاعر اپنا منفرد رنگ لے کر آتا ہے، ہمارے تجربات کو وسعت دیتا ہے، ہمیں انسان بننے کا راستہ دکھاتا ہے. تو پھر کیوں پڑھیں ہم شاعروں کو؟ اس لیے کہ وہ ہمیں زندہ رکھتے ہیں، زبان کو جلاتے ہیں، احساسات کو جگاتے ہیں. وہ ہمیں خود سے اور دنیا سے جْوڑتے ہیں، یہی تو زندگی کا مقصد ہے-ایک عظیم شاعر منور رانا کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادگی اور عام فہم ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے بجائے عام بول چال کی زبان اور ہندی، اودھی کے الفاظ استعمال کیے۔ اس وجہ سے ان کی غزلیں گلیوں، بازاروں اور محفل میں ایک عام آدمی کے دل تک پہنچنے لگیں۔ ان کی مشہور غزل "ماں” اس بات کی بہترین مثال ہے جس میں انہوں نے ماں کی عظمت کو نہایت سادہ اور پر مغز الفاظ میں بیان کیا ہے:
ماں تیری چھائوں میں پلے ہیں ہم
تیرے ہی آنچل میں سلے ہیں ہم
منور رانا کی شاعری میں زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی ہوتی ہے۔ محبت، غم، خوشی، جدائی، ہجر، فراق ان کے موضوعات رہے ہیں لیکن انہوں نے ہر موضوع کو اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک گہری فلسفیانہ فکر بھی پائی جاتی ہے جو سامعین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ منور رانا کو ان کی خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں 2014ئ￿ میں ان کی غزل مجموعہ "شہدابا” پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ان کے دیگر اہم ایوارڈز میں میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ اور سرسوتی سماج ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔منور رانا کی وفات پر ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں، قلم کاروں اور ان کے مداحوں نے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ منور رانا کی رحلت اردو ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک باصلاح شخصیت بھی تھے۔ ان کی کمی نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پورے اردو ادب کو محسوس ہوتی رہے گی۔ لیکن ان کی غزلیں ہمیشہ ان کی یاد کو زندہ رکھیں گی اور مستقبل کے شعراء کو راستہ دکھاتی رہیں گی۔ منور رانا کی غزلوں کی ایک اور خوبی ان کی سماجی آگہی تھی۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے سماجی ناانصافیوں، غربت، ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ ان کی غزل "ظالم یہ دنیا ہے” اس حوالے سے بہت مقبول ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ شاعری صرف حسنِ کلام نہ ہو بلکہ سماج بدلنے کا ہتھیار بنے۔ منور رانا نے اپنی غزلوں کے ذریعے نہ صرف حسنِ کلام پیش کیا بلکہ سماج کا عکاس بھی بنایا۔ ان کی دو غزلوں "مہاجر نامہ” اور "ماں” اس کا روشن حوالہ ہیں۔
"مہاجر نامہ” ہجرت کے المیے اور نئے وطن میں جڑ پکڑنے کی جدوجہد کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ وہ مہاجر کی آہوں، سسکیوں اور امیدوں کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔ اس غزل میں وہ لکھتے ہیں:
سرحدوں پار چلے جن کے قدم
اشک چلے ساتھ ان کے نغم
شہر بدلتے رہے چہرے بدلتے رہے
دل میں بسے تھے وہی خواب دہم
یہ اشعار ہر مہاجر کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں جو سرحد پار اپنا سب کچھ چھوڑ کر نئے دیار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ان کی نظروں میں اپنے وطن کی مٹی، چھوٹے ہوئے احباب، گم ہوئے لہجے رقص کرتے رہتے ہیں۔ لیکن منور رانا ساتھ ہی امید کا چراغ بھی جلاتے ہیں کہ وہ نئے وطن میں جڑیں گے اور اپنے فن کے ذریعے اپنی پہچان بنائیں گے۔ دوسری غزل "ماں” خالص محبت اور اس کے بیپناہ ہونے کی کہانی ہے۔ منور رانا ماں کی عظمت کو نہایت سادہ اور دل کو چھو لینے والے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
ماں تیری چھائوں میں پلے ہیں ہم
تیرے ہی آنچل میں سلے ہیں ہم
دکھ تیرے لے لیتی ہے سہار لے کر
خوشیاں ہماری کر لیتی ہیں دوگنی کم
ماں کی چھائوں میں پلنا، اس کے آنچل میں سلنا، یہ ہر بچے کی فطری خوشی اور تحفظ کا احساس ہے۔ منور رانا ماں کی قربانیوں، اس کے بے لوث پیار کو الفاظ کا تحفہ دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماں اپنے دکھوں کو چھپا کر بچوں کی خوشیوں کو دوگنا کرتی ہے۔ یہ دونوں غزلیں نہ صرف انفرادی سطح پر احساسات کو جگاتی ہیں بلکہ سماج کے مسائل اور رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ "مہاجر نامہ” ہمیں ان کی تکلیفوں کا احساس دلاتا ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر نئے سر زندگی شروع کرتے ہیں جبکہ "ماں” ایک ابدی رشتے کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ منور رانا کی یہ غزلیں نہ صرف فن بلکہ سماج اور انسانیت کا آئینہ بن جاتی ہیں اور ہمیں زندگی کے بنیادی احساسات سے جوڑتی ہیں۔بے شک منور رانا کا فن بے مثال تھا، ان کی آواز امیراب اور انداز منفرد۔ وہ مشاعروں کی جان تھے اور ان کی غزلوں کو سامعین کی جانب سے بے پناہ پذیرائی ملتی تھی۔ لیکن منور رانا محفل کی چکاچوند سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔ وہ ہمیشہ زمین سے جڑے رہے اور عوام کی زبان بولتے رہے۔14 جنوری 2024ء کو جب یہ خبر آئی کہ منور رانا اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں تو سبھی حلقوں سے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ ملک بھر کے شاعروں، ادیبوں، سیاستدانوں اور عام لوگوں نے ان کی وفات پر تعزیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے مداحوں اور شاگردوں کے لیے تو یہ یقیناً ایک ناقابلِ برداشت صدمہ ہے۔ لیکن منور رانا کی آواز خاموش نہیں ہوئی، ان کی غزلیں زندہ و جاوید ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نسلِ نو تک پہنچ رہی ہیں اور منور رانا کا فن مستقبل کے شعراء کو متاثر کرتا رہے گا۔ اس دور میں جہاں مادیت پرستی عروج پر ہے، منور رانا کی سادہ، صاف اور انسانی قدروں کی پاسبان شاعری ایک گْل بہار بن کر کھلی ہے جو ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ فن کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔ منور رانا ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی غزلوں کو ہمیشہ تروتازہ رکھے، آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا