محمد اعظم شاہد
ویسے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات اور قومی سطح پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ان کی تقابلی صورتحال پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس موضوع پر مسلمانوں کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے کئی کتابیں، تحقیقی رپورٹس اور مضامین مختلف زبانوں میں لکھی ہیں۔ عام طور پر مطالعہ سے بیزار معاشرہ میں سنجیدگی کے ساتھ ان تحریروں کو پڑھنے کا شوق نہیں کے برابر رہا ہے۔ یہاں تک کہ کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب کو بھی یہ موضوع خشک محسوس ہوتا ہے۔ دیگر زبانوں کی بات الگ مگر اُردو صحافت سے جڑے کئی صحافی ایسے ہیں جنہیں تجزیاتی مطالعات کے حوالے سے ان میں کوئی جستجو اور میلان نظر نہیں آتا۔ خیر ان دنوں سوشیل میڈیا پر ہندوستانی مسلمانوں سے جڑی کئی باتیں، بیانات، اور انکشافات وائرل (آپس میں شیئر کیے جاتے ہیں) ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ انکشافات اور بیانات کے ویڈیوز اور نیو پورٹیلس پر چشم کشا تجزیات چند دنوں پہلے سوشیل میڈیا پر دیکھنے ،سننے اور پڑھنے میں آئے ہیں۔ ملک کے مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ،ان میں جدوجہد کی جستجو کی کمی ،آبادی کے تناسب سے سیاسی نمائندگی کی مایوس کن صورتحال ، خرافات میں اپنی توانائیوں کو ضائع کرنا ،آگے بڑھنے کی آرزو اور اُمنگ سے دوری ان موضوعات پر ہمیں کئی انکشافات سوشیل میڈیا پر ملتی رہی ہیں۔ جب کسی غیر مسلم شخصیت نے مسلمانوں کی صورتحال پر اپنی رائے ظاہر کی ہو تو اس کا تذکرہ اپنے اپنے حلقوں میں مسلسل ہوتا رہتا ہے ۔ اپنے ملی جذبہ اور جوش کے ساتھ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ واٹس ایپ پر شدت کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔ ابھی گذشتہ ہفتہ سیاسی مبصر اور حکمت کار پرشانت کشور کا ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں اٹھا رہ کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے مگر ان میں سیاسی شعور کی کمی ہے۔ اپنے آپ کو بدلنے کی جستجو نہیں ہے۔ جدوجہد کا جذبہ ان میں نہیں ہے ۔پوری دنیا میں انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں بستے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کے باوجود بھی مسلمانوں کا کوئی نیتا نہیں ہے۔ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی ۔ جب تک آپ جدوجہد کرکے اپنے آپ کھڑے نہیں ہوں گے آپ کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔ سیاسی پارٹیاں جن پر مسلمان بھروسہ کیے ہوئے ہیں وہ آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ کیونکہ غیر ،مسلمانوں کے لیے فکر مند کہاں ہوں گے جبکہ وہ خود بے فکری میں ہیں۔ کسی پارٹی کے خاص لیڈر کو یہ سمجھ لینا کہ یہ ہمارے مفادات کا تحفظ کرے گا یہ سب فضول ہے۔ کسی ریاست میں مقامی نامور سیاسی نمائندے سے اُمیدیں لگا کر اس کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے قیادت کو خود تیار کرنا ہے۔ پرشانت کشور کی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے غورو فکر کی دعوت دینے والی ان فکر انگیز باتوں کا تذکرہ مسلمانوں کے حلقوں میں ہوتا رہا۔ بس کچھ اور چند دن اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ پھر بات آئی اور گئی والا معاملہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
اس تجزیہ کے ساتھ ہی نیوز پورٹل مسلم مرر میں شرومنی اکالی دل کے صدر سکھ بیر سنگھ بادل کا مسلم لیڈر شپ پر بیان پڑھنے کو ملا ۔ ملک کے مسلمانوں کا سکھ برادری کے سا تھ موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکھ، آبادی کے لحاظ صرف دو فیصد ہیں، مگر آپسی اتحاد کے باعث وہ سیاسی طور پر طاقتور ہیں جبکہ اٹھارہ فیصد آبادی میں رہنے والے مسلمانوں میں لیڈر شپ کی کمی ہے ۔جس کی اہم وجہ آپسی اتحاد کی کمی ہے۔ یہ مایوس کن صورتحال لوک سبھا کے پہلے انتخابات کے نتائج سے ہی بنی ہوئی ہے ، ہماری پارلیمنٹ میں لوک سبھا میں 1952 میں25 ؍ارکان منتخب ہوئے تھے۔ پھر اس کے بعد مسلم نمائندگی ہر پارلیمانی الیکشن میں 25 سے 45سیٹوں تک ہی محدود رہی ۔صرف 1980 لوک سبھا انتخابات میں مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد 49 تک پہنچ پائی تھی۔ 2014 کے انتخابات میں یہ تعداد گھٹ کر 22 ہوگئی تھی۔ جو اب تک کے تناسب میں سب سے کم مسلم نمائندگی ثابت ہوئی۔ 2019 کے انتخابات میں یہ تعداد 27 تک سمٹ کر رہ گئی۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کئی ایسی ریاستیں ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی دس فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن وہاں دس برسوں میں لوک سبھا انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں ریاستی اسمبلیوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ اور کئی ریاستوں کی حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں رہا۔ آبادی کے کل تناسب کے حوالے سے دیکھیں تو ملک بھر میں اسمبلی ،بلدیہ، ضلع ،تعلقہ اوردیہات سطح کی مقامی انتظامیہ مجلس، Local bodies میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی خاطر خواہ نہیں ہے۔ سیاسی نمائندگی کی مایوس کن صورتحال کے لیے کسی حد تک مسلمان ہی ذمہ دار ہیں تو دانستہ طور پر وہ تمام سیاسی پارٹیاں بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے نمائندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور مسلمانوں کے اُبھرنے پر خلوص نیت سے توجہ ہی نہیں دی۔
تحقیقی تجزیات کی روشنی میں حقیقت سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کی گرتی شرح نے ملک کے ایوان اقتدار چاہے پارلیمنٹ ہو کہ اسمبلیوں میں فیصلہ سازی Decision making میں مسلمانوں کی شراکت داری ممکنہ حد تک ہو نہیں پائی ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی کا تناسب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ تبھی تو وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے یو پی اے سرکار نے جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں ہندوستانی مسلمانوں کی مجموعی ترقی کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ قومی سطح پر موصول شدہ اعدادو شمار میں یہ کھلا اشارہ دیا کہ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے ،ان کی سیاسی پسماندگی Political representation بڑھانے ماحول کو سازگار بنانا بھی ضروری ہے۔ مگر ملک کے مسلمانوں میں پختہ سیاسی شعور اور بالیدگی کا عنصر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ووٹ کے استعمال سے بھی مسلمانوں میں ضروری سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس بھی مجموعی طور پر کم ہی ہے۔ آپسی اختلافات میں بٹے ہوئے مسلم قائدین ، نئی لیڈر شپ کو ابھارنے سے متعلق بھی بے نیاز رہے ہیں۔ مسلم معاشرے میں علمائے اکرام ،دانشور احباب ، تجزیہ نگار اور سیاسی قائدین منصوبہ بند طور پر مسلم سیاسی نمائندگی کی صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب استقلال کے ساتھ مشاورت کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ آپس میں جزیروں کی طرح بکھرے بکھرے مسلمان اتحاد و جدوجہد سے خالی رہ جائیں گے تو آنے والے وقتوں میں وہ خود اپنے آپ کو معاف نہیں کرپائیں گے۔
ایک طرف عام مسلمان جو زندگی کی اُلجھنوں میں قید ہیں اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے آزمائشوں سے روبرو ہیں۔ دوسری جانب وہ احباب ہیں جو حالات کی نزاکتوں کا اداراک رکھتے ہیں ۔انھیں ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر سیاسی شعور کے حامل نوجوانوں کو اپنے اپنے حلقہ میں قیادت کے لیے راغب کرنا ہوگا۔انتخابات میں حصہ لینے کی انھیں ترغیب دلوانے کے ساتھ ساتھ ان کی ہر اعتبار سے حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے۔سطحی ذہنی تحفظات سے بلند ہوکر اجتماعی مفاد میں سوچنے اور عمل کرنے کی جانب توجہ مرکوز کرنا اب ہم سب کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ سانس لینا۔زندہ رہنے کے لیے زندہ نظر آنا بھی تو ضروری ہے۔
[email protected] cell: 9986831777