ہر دوسرا انسان ایسے مسائل کا شکار ہے

0
0

قیصر محمود عراقی

موجودہ حالات میں ہر انسا کسی نہ کسی پریشانی اور مصیبت کا شکار نظر آتا ہے ۔ کوئی حالات کی برائی کا رونا روتا ہے تو کوئی معاشی تنگی کا ، کسی کے لئے پیٹ کا نکلنا ، رنگ سانولا ہو نا مسئلہ ہے تو کوئی کسی موذی مرض میں مبتلا ہے ، کوئی اپنے دفتری معاملات کی وجہہ سے پریشان ہے، تو کوئی اپنے گھر کی ناچاقیوں سے ، کوئی نرینہ اولاد کے لئے پریشان ہو تا ہے، تو کسی کو بے اولادی کی فکر کھائے جا تی ہے ۔ الغرض ہر انسان کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار ہے اور کوئی ایسی محفل نہیں ہو تی جس میں کوئی اپنی پریشانیوں کا گلا نہ کر رہا ہو۔ کبھی تو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ہمارے ساتھ سب کچھ غلط ہی ہو رہا ہے، ہر کوئی میرا دشمن ہے، مجھے نقصان پہنچانا چاہتا ہے ، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان ( نعوذ باللہ) اللہ سے ہی شکا یتیں کر نا شروع کر دیتا ہے ۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچا جا ئے تو بخوبی علم ہو جا ئے گا کہ نہ تو یہ مسائل آج کی پیدوار ہیں اور نہ ہی ایک دم سے نمودار ہو گئے ہیں اور نہ ہی میں اکیلا ان مسائل کا شکار ہوں ، بلکہ ہر دوسرا انسان ایسے مسائل کا شکار ہے ۔ یہ مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں اور ابد تک رہینگے ،ماضی میں بھی انسان حالات کا رونا روتے تھے ، آج بھی روتے ہیں اور آئندہ بھی روتے رہینگے ۔ اس لئے ان مسائل کو بنیاد بنا کر اپنی پوری زندگی رونے پیٹنے میں ہی گزارنے کے بجائے ان کے حل کی کوشش کر نی چاہیئے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو جا تا ہے کہ ہر مسئلے کا حل تو میرے پاس نہیں،میں تو اپنی حد تک کوشش کر سکتا ہوں لوگوں کو کیسے تبدیل کروں ؟دفتر کے غلط معاملات اور سیاست کو کیسے صاف رکھوں ؟ حکومتوں کے کر نے کے کام میں کیسے کرو ؟ جب بھی ہم مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کر نے لگینگے تو ان جیسے کئی سوالات ہمارے سامنے آ کھڑے ہو نگے اور نتیجتاً ہم تھک ہار کر بیٹھ جائینگے اور ہمیشہ انگزائٹی (Anxiety)ور ڈپریشن (Depression)کے مرض میں مبتلا رہینگے ۔ انگزائٹی اور ڈیپریشن کی ایک دوست نے بہت اچھی تعریف بتائی کہ انگزایٹی کا تعلق مستقبل سے ہے ، یعنی ایسی چیز کا خوف جو ہم نے دیکھی نہیں اور ڈیپریشن کا تعلق ماضی سے ہے ، یعنی ماضی کے کسی واقع یا محرومی کا سوچ کر پریشان ہو نا ۔ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو اکثر انہی دو صورتوں میں مسائل کا شکار ہو تے ہیں ، مستقبل کا ان دیکھا خوف اور ماضی پریشانی یا پچھتاوا ہر وقت ہمیں ہلکان کر رہا ہو تا ہے ۔
قارئین حضرات ! اس وقت دنیا میں ان دونوں بیماریوں پر سب سے زیادہ تحقیق ہو رہی ہے ، صرف ہمارا معاشرہ ہی نہیں بلکہ تر قی یافتہ ممالک بھی اس کا شکار ہیں ، بلکہ عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق امریکہ ، بر طانیہ ، فن لینڈ ، سنگا پور ا ور اسرائیل جیسے تر قی یافتہ ممالک کے افراد میں ان بیماریوں کا تناسب بہت زیادہ ہے ، یعنی جن محرومیوں اور مستقبل کی ہم شکایت کر رہے ہو تے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہو تے ہیں کہ چونکہ مذکورہ ممالک تر قی کی معراج پر ہیں اسلئے وہاں بسنے والے تمام افراد بیماریوں اور پریشانیوں سے آزاد ہو نگے ۔ یہ ہماری غلطی ہے ، اس غلطی کی بنیادی دجہہ ہماری ذہنی غلامی ہے ۔ چونکہ ہم نے ہر معاملے میں ان کو ہی معیار بنایا ہو ا ہے اس لئے ہمارے مسائل کا حل ان کے طرز زندگی میں نظر آتا ہے ۔ تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ لوگ اتنی آسان زندگی اور فلاحی ریاست ( جہاں تعلیم مفت ، صحت مفت ، بچوں ، بڑھوں ، بے روزگاروں اور معذوروں کے لئے وظائف ہو ں ) کے باشندے ہو نے کے باوجود کسی پریشانی اور خوف کا شکار کیوں ہیں ؟ کیا وہاں کی سڑکیں ٹوٹی ہو ئی ہیں ؟ کیا ان کے گھروں میں پینے کا پانی نہیں آتا ؟ کیا ان کے شہروں میں صفائی نہیں ؟ کیا وہاں صحت کی سہولیت نہیں ؟ کیا وہاں کسی کی زندگی محفوظ نہیں ؟ کیا وہاں انصاف نہیں ؟ آخر کیا وجہہ ہے کہ وہاں کے بسنے والے اپنی زندگی سے مطمئین نہیں ۔ اس وقت مغرب اور تر قی یافتہ اقوام کے مسائل میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، جس کا حل تلاش کر نے کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں ، ان مسائل کے حل پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اور تا حال تحقیق جاری ہے ۔ انگزائٹی اور ڈیپریشن کی جو تعریف بیان کی ہے وہ بھی ان ہی کتب اور تحقیقات سے ماخوز ہے اور ان مسائل کے حل کے لئے ان کتب میں جو تجاویز پیش کی گئیں ہیں وہ قابلِ غور ہیں ۔
قارئین محترم ! سب سے پہلے تو مجھے انگزائٹی اور ڈیپریشن کی تعریف سن کر قرآن مجید کی ایک آیت یاد آ گئی جس میں اللہ نے ان بیماریوں کے اسباب اور علاج بتا دیئے ہیں ۔ آج کے جدید دور میں محقیقین اپنی تحقیقات پر پھولے نہیں سماتے لیکن جب ان تحقیقات کا موازنہ قرآن و حدیث سے کیا جا تا ہے تو ہمیں اپنے اوپر اور اپنے علم و دانائی پر افسوس بھی ہو تا ہے کہ یہ بات تو آج سے ساڑھے چودہ سو بر س قبل حجاز کے بادیہ نشینوں کو بھی معلوم تھی ۔ ان مسائل کا حل نبی ﷺ ساڑھے چودہ سو بر س پہلے ہی دے چکے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔’’ سن لو ! اللہ کے اولیا کو نہ خوف ہو تا ہے اور نہ رنج ‘‘( سورہ یونس ، آیت نمبر ۶۲)یعنی جو لوگ اللہ کے راستے پر چلتے ہیں ان کو نہ تو کل کی فکر اور نہ آگے کا خوف ہو تا ہے اور نہ ہی ماضی کی محرومیوں پر غمگین اور رنجیدہ ہو تے ہیں بلکہ وہ ہر حال میں اللہ کے شکر گذار بندے بنتے ہیں اور اس کی نعمتوں کی قدر کر تے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انگزائٹی اور ڈیپریشن کا علاج اسی آیت میں بتا دیا کہ ان بیماریوں سے اللہ کے ولی ہی بچ سکتے ہیں ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو جا تا ہے کہ ہم تو اللہ کے ولی بن ہی نہیں سکتے ، یہ تو بہت بڑی ریاضت کا کام ہے، اپنی جان و نفس کو مارنا پڑتا ہے ، چلے چلانے ہو تے ہیں ، راتوںکو جاگنا ہو تا ہے ، یہ ہمارے بس کی بات نہیں ۔ یہ بنیادی غلط فہمی اس لئے پیدا ہو تی ہے کہ ہم نے ولی اللہ کے اصل مفہوم کو سمجھا ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے (اللہ کے) راستے پر چلنے والے ہر انسان کو ولی کہا ہے ، حکم کی اطاعت کر نے والا اور ممنوعات سے رکنے والا اللہ کا ولی ہے ، اللہ صفات سے متصف ہو نے والا اس کا ولی ہے ، بھوکے کو کھانا کھلانے والا اللہ کا ولی ہے ، محتاجوں کا مدد کر نے والا اس کا ولی ہے ، بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کر نے والا اللہ کا ولی ہے ، انسان کے لئے آسانیاں پیدا کر نے والا ہی اس کا حقیقی ولی ہے ۔
یہ سب کام کر نے کے لئے صرف ایک شرط ہے کہ یہ سارے کام صرف اللہ کی رضا کے لئے اور بے غرض ہو کر کئے جا ئیں ، مخلوق سے اس کے بدلے اور صلے کی امید اور توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے ، جیسے انبیاء ؑنے کیا انہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے بعد یہی اعلان کیا کہ میں تم سے اس بات اور خیر خواہی کا کوئی اجر اور بدلہ نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے ۔ لہذا ہر حالات سے نکلنے کے لئے مثبت سوچ اپنائیں ، ہر کام اور معاملے کے م،ثبت پہلوئوں کو دیکھیں تو آپ کی زندگی خود ہی بدل جائیگی اور یہی پرُ سکون زندگی کا طریقہ ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا