آخر مدارس اسلامیہ پر ہی اعتراض کیوں ؟

0
0

۰۰۰
محمد تحسین رضا نوری
پور پیلی بھیت
۰۰۰
طویل عرصے سے ملک ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے متعلق یہ پروپگنڈہ پھیلایا جا رہا ہے کہ ’’مدارس اسلامیہ دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں، مدارس اسلامیہ دہشت گرد کے اڈے ہیں، ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جہادی بنایا جاتا ہے، جو آگے چل کر آتنکوادی بنتے ہیں، موجودہ حکومت کے گروپ آف منسٹرس نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ’’اسلامی مدرسے دہشت گردی کی نرسری ہیں، دہشت گردی کے فکر وذہن کی نشوونما انہیں مدرسوں سے ہوتی ہے، یہیں سے اس کو غذا فراہم کی جاتی ہے، کچھ سال قبل ’’ساکشی‘‘ نام کے ایک شخص نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدرسے پورے ملک میں دہشت گردی کی تعلیم دے رہے ہیں میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ مجھے ایک بھی مدرسہ بتا دیں جو یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کے دن اپنے یہاں قومی پرچم لہراتا ہو، یہ مدرسے ملک کیدشمن ہیں،‘‘۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، مدارس اسلامیہ ہرگز دہشت گردی کا اڈہ نہیں ہیں، کیوں کہ مسلمان شر انگیزی، تخریب کاری اور دہشت گردی کا اسی طرح مخالف ہے جتنا کہ کوئی امن پسند مخالف ہوتا ہے، لیکن معاملات و الزامات پر غور و خوض کیے بغیر ہی مدارس اسلامیہ پر شکنجہ ?س دیا گیا، حکومت نے ہماری حب الوطنی کا ثبوت مانگتے ہوئے مدارس اسلامیہ کے نام ایک حکم نامہ جاری کر دیا کہ: ’’15 اگست کو یوم آزادی منائیں اور اس کی ویڈیو گرافی کر کے مکمل رپورٹ دیں‘‘۔ حالانکہ اس سے قبل بھی دینی مدارس ہمیشہ سے یوم آزادی بڑی دھوم دھام سے مناتے آئے ہیں لیکن یہ حکم نامہ صرف مدارس اسلامیہ کے ساتھ خاص کیوں ؟ دیگر اسکولز و کالجز کے لیے کیوں نہیں ؟ یقیناً یہ کھلا ہوا تعصب اور ظلم و زیادتی ہے۔
آخر ہندستانی مدارس پر ہی اس طرح کے الزامات کیوں عائد کیے جاتے ہیں ؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’جب افغانستان میں امریکہ مخالف طالبان حکومت قائم ہوئی، تو امریکی مشنری جس نے روس کے خلاف نبرد آزما مجاہدین کی بے پناہ مالی و عسکری مدد کی تھی، اس نے زوال روس کے بعد اپنا مقصد پورا ہوتا ہوا دیکھ کر افغانستان سے بے رخی، برتری شروع کر دی۔
وہ امریکی مشنری فوراً متحرک ہوئی اور مدارس کو طالبان کا سر چشمہ قرار دینا شروع کر دیا کہ: ’’یہ سارے طالبانی، پاکستانی مدارس کی پیداوار ہیں، اسی الزام کو ہندوستان میں سنگھ پریوار نے دہرانا شروع کر دیا‘‘۔
آگے مزید اس بات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ بات اگر کسی حد تک صحیح بھی ہو تو افغانستان اور پاکستان جو مسلم ممالک ہیں، اْن کے حالات و معاملات الگ ہیں، وہاں ایسا کرنے کے کچھ امکانات اور اسباب بھی ہیں، جو ہندوستان میں قطعاً نہیں ہیں، اپنا ہندوستان جو ایک جمہوری اور ہندو اکثریتی ملک ہے اس کے سیاسی حالات ان دو ممالک سے بے حد مختلف ہیں، اور اس طرح کی سرگرمیوں کی یہاں گنجائش بھی نہیں‘‘۔آگے لکھتے ہیں: ’’اب تک ہندوستان میں کوئی ایسا چھوٹا سا واقعہ بھی سامنے نہیں آیا کہ کسی بھی مدرسے کی من جنگ باڈی یا ٹیچرس اسٹاف یا اسٹونٹس یونین کبھی کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث پائی گئی ہو، اس لیے ان مدارس کے خلاف شکوک و شبہات کا اظہار اور اْن کی وفاداری وطن پر سوالیہ نشان لگانا خود اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرانگیز و فتنہ خیز ذہنیت کارفرما ہے‘‘۔لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ مدارس نہ دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ دہشت گردی کے اڈے ہیں،
بلکہ یہ مدارس امن و امان کا گہوارہ ہیں، اور ہماری حب الوطنی کا ثبوت اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ آزادی میں پیش پیش رہنے والے انہیں مدرسوں سے فارغ شدہ افراد ہی تھے، اس طرح سے مدارس پر الزام لگانا گویا اْن شہیدوں پر الزام تراشی کرنا ہے جنہوں نے اپنی جانیں وطن کی حفاظت کے لیے قربان کر دیں اور خوشی خوشی پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا تو گوارہ کیا مگر دیش کا سودا کرنا گوارہ نہیں کیا۔ لہٰذا ان مدارس کو اْن کے حالات پر رہنے دیں، اْن سے اْن کی وطن پرستی کا ثبوت ہرگز نہ مانگیں، دیکھتے جائیں وقت آنے پر انہیں مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں نچھاور کرتے نظر آئیں گے
، ہماری وطن پرستی کا ثبوت چاہیے تو ماضی کو یاد کریں اور ہمارے اکابرین کی تاریخ پڑھیں تب سمجھ میں آئے گا کہ ان مدارس میں دہشت گردی کا پاٹھ نہیں پڑھایا جاتا بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے، یہی قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کر کے علامہ فاضل حق خیرآبادی، علامہ عنایت احمد کاکوروی جیسے علمائنے دیش کی حفاظت کے لیے پہلا جہاد کا فتویٰ دیا، اور ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرایا، یقیناً اگر تعصب کا عینک اتار کر دیکھیں تو حقیقت خود آشکار ہو جائے گی۔ربِّ کریم مدارس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے، ظالموں کے ظلم اور حاسدوں کے حسد سے محفوظ رکھے، آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا